خدمت خلق ایک اہم فریضہ

اسلام میں عبادات کا تصور بہت وسیع ہے۔ اس میں حقوق اللہ اور حقوق عبادات کی تقسیم ہے۔ انفرادی اور اجتماعی عبادات بھی ۔

ہر انسان کا اپنے اوپر بھی حق ہے کہ وہ اپنے ہر عضو سے مناسب طور پر وہ کام لے جس کے لئے اسے بنایا گیا۔ فوٹو : فائل

اسلام ایک مکمل دین حق ہے۔ اس میں عبادات، سماجی معاملات،حقوق و فرائض، اور تعلیم و معاشرت کے تقاضوں کا بھرپور سلسلہ اپنی تمام تر تابناکیوں سمیت میسر ہے۔

اسلام میں عبادات کا تصور بہت وسعت لئے ہوئے ہے۔ اس میں حقوق اللہ اور حقوق عبادات کی تقسیم ہے۔ انفرادی اور اجتماعی عبادات بھی ہیں، غرض یہ کہ زندگی کے مختلف دائروں میں رہتے ہوئے ہر جائز کام اگر ذات الہیٰ پر ایمان و یقین، انفرادی واجتماعی، دنیاوی اور اخروی فوائد کے حصول کی نیت سے کیا جائے تو وہ عبادت ہی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔
اسلام کا یہ زریں اصول تمام مسلمانوں کو اپنی اپنی حیثیت میں عبادت گزار رہنے کے مواقع میسر کرنے کا بنیادی سبب بنا رہتا ہے۔ اس طرح ایسے افراد جن کو حقوق اللہ کی ادائیگی کے حوالے سے انفرادی عبادت کے کم مواقع میسر آنے کا احتمال رہتا ہے، وہ بھی اپنے روزمرہ کے امور میں بغیر کسی خلل اندازی کے اپنا حق عبودیت انجام دے کر اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بننے کی خوش خبری سے سرفراز ہو سکتے ہیں۔ انسان کو دنیا کی ہر چیز سے جس سے اس کا نفع کا تعلق ہے، ایک خاص لگائو ہوتا ہے اور اس لگائو کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ترقی و حفاظت کے لیے کوشش کی جائے۔ اس چیز سے وہی نفع اٹھایا جائے جس کے لئے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے اور ان موقعوں پر اسے خرچ کیا جائے جہاں اللہ نے حکم دیا ہے اور اس چیز کو ہر اس پہلو سے بچایا جائے جس سے اس کی نفع رسانی میں نقصان ہو۔

اسی ذمے داری کا نام حق ہے اور جب انسان کا تعلق کائنات کی ایک ایک چیز سے ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی یہ ذمے داری بھی ہر چیز سے متعلق ہے۔ جمادات، نبادات او رحیوانات کے حقوق کا اور ان کے آرام کا خیال رکھا جائے اور انسانوں کا بھی کہ ان کی ہر ضرورت میں ان کی مدد کی جائے اور ان کے کے لیے فریضۂ محبت کا تقاضا پورا کیا جائے۔

ہر انسان کا اپنے اوپر بھی حق ہے کہ اس کا ہر عضو جس جس غرض کے لیے پیدا کیا گیا، اس سے مناسب طور پر وہ کام لے۔ اس لحاظ سے حقوق کا دائرہ بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ اسلام سلامتی، خیر خواہی، امن، محبت اور رواداری اور اخوت و سکون کا دین ہے۔ تعلیمات قرآن پاک اور سرکاردوعالمﷺ کی سیرت مطہرہ اس کا عملی مظہر ہے۔


عبادات کی ادائیگی حقوق اللہ کے حوالے سے ہر انسان کا اپنے مالک وخالق سے ذاتی معاملہ ہے جس میں اگر کوئی کمی بھی ہو گئی تو اللہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے اور اللہ پاک سے اس کی رحمت کی امید رکھنی چاہیے کہ وہ ہماری خطائووں کو اپنے حبیب کے صدقے میں معاف فرمائے اور یقیناً یہ اس کی رحمت سے بعید نہیں ہے۔ ہمیں اپنے حق میں اللہ سے عدل و انصاف سے زیادہ اس کے فضل و عنایت کی تمنا اور آرزو کرتے رہنا چاہیے۔

لیکن دوسرے اہم معاملات، یعنی حقوق العباد میں جان بوجھ کر کوتاہی بہر طور اللہ کے قول کے مطابق ناقابل معافی عمل ہے، جب تک کہ فریق متاثرہ خود معاف نہ کر دے۔ بے شمار احادیث میں باہمی معاملات میں کمی و کوتاہی کو دور کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس قسم کے معاملات میں کوتاہی کو ناپسندیدہ عمل گردانتے ہوئے اس پر سخت پکڑ اور وعید بھی سنائی گئی ہے۔ نبی پاکﷺکے قول کے مطابق ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں، دوسرے مسلمان سے ملاقات پر سلام کرنا، مسلمان کی دعوت کو قبول کرنا، دوسرے مسلمان کو چھینک آنے پر یرحمک اللہ کہنا، بیمار کی مزاج پرسی کرنا، انتقال کر جانے والے مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنا اور دنیا بھر کے حقوق کا جامع آخری حق کہ مسلمان جو بات اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے ہر مسلمان بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔

اسلام نے مسلمانوں کے لیے ایثار، اخوت، اتحاد واتفاق اور خیر خواہی کو اپنے نظام میں ایک روشن مقام دیا ہے۔ اس پر کار بند ہونے کو نماز اور روزے سے بہتر قرار دیا ہے۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے مابین نا اتفاقی کو دور کرنا نماز اور روزے سے بہتر ہے۔ جھوٹ جیسے بڑے گناہ کو مسلمانوں میں صلح اور بھائی چارہ کے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کی زریں تعلیمات سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کی عزت اور اس کے جان و مال کا تحفظ اس کا دینی فریضہ ہے، اس کے دکھ درد میں شریک ہونا اس کے لیے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔

مسلمانوں نے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر عالم انسان کو ایک بہترین اسلامی معاشرے سے آشنا کیا۔ ہمیں آج بھی ان تعلیمات پر پہلے سے کہیں زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ عام مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اللہ کے حضور جواب دہی کے وقت حقوق العباد کی باری پہلے آئے گی۔ حقوق العباد کی اہمیت کے متعلق حدیث قدسی کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ حدیث میں ہے کہ یوم محشر اللہ تعالیٰ لوگوں سے یہ بھی سوال کرے گا کہ تو نے مجھے کھلایا نہیں، پلایا نہیں، پہنایا نہیں۔ بندہ پوچھے گا کہ اے رب العالمین تو ان سب ضرورتوں سے مبرا اور بلند تر ہے۔ اللہ فرمائے گا کہ کیا تجھے یاد نہیں کہ میرا فلاں فلاں بندہ ان ضرورتوں کا طلب گار تھا اور تجھے معلوم بھی تھا، تو نے اس کی ان ضرورتوں کو پورا نہیں کیا۔

دوسری حدیث میں حضور پاکﷺصحابۂ کرام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے کہ تمہیں معلوم ہے کہ قیامت کے روز سب سے زیادہ محروم مفلس یا بے چارہ اور تہی دامن شخص کون ہوگا؟ پھر صحابۂ کرام کی لاعلمی کے اظہار پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص جس کی نیکیاں اس کی طرف سے محروم الحقوق لوگوں میں بانٹ دی جائیں گی یہاں تک کہ وہ خالی ہاتھ رہ جائے۔ گا۔
اللہ اپنے محبوب پاکﷺ کے صدقے ہماری خطائیںمعاف فرمائے اور ہماری مشکلات کو آسان فرمائے آمین !
Load Next Story