تفہیم المسائل

جو اپنی بیویوں سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرنے کی قسم کھا کرقائم رہتے ہیں،تو 4 ماہ بعد اُن کا نکاح ختم ہو جاتا ہے۔


Mufti Muneeburrehman November 22, 2012
جو مالیاتی رعایت حکومت کی طرف سے تبرع ہیں ، اُن میں ان کے قوانین جاری ہوں گے، نفتی منیب الرحمان ۔ فوٹو: فائل

طلاق کا حکم
سوال: ایک شخص گذشتہ چھ ماہ سے بیوی سے اختلافات ہونے کے سبب گھر سے دور ہے۔ بیوی سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہے۔ کسی نے کہا، کہ سورۂ بقرہ میں ہے کہ شوہر چار ماہ تک بیوی سے کوئی رابطہ نہ کرے تو شرعی طور پر خود بخود طلاق ہوجاتی ہے۔ کیا واقعی اس طرح طلاق ہوجاتی ہے؟۔(سید فرزالدین حیدر،دستگیر کراچی)

جواب : شوہر اپنی بیوی کو جب تک طلاق نہ دے یا دونوں باہمی رضامندی سے خلع نہ کرلیں یا کسی جائز شرعی وجہ کے سبب قاضی نکاح فسخ نہ کردے، محض چھ ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک بیوی سے الگ رہنے کی بنا پر نکاح ازخود ختم نہیں ہوتا۔ سورۂ بقرہ کی بابت جو آپ نے لکھا ہے، وہ اُن لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنی بیویوں سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں اور اپنی قسم پر قائم رہتے ہیں، تو چار ماہ گزرنے کے بعد اُن کا نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں اُسے ''ایلاء'' کہا جاتا ہے ۔

آ تش زدگی میں جاں بحق افراد کا تر کہ
سوال: بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں آتش زدگی کا جو سانحہ ہوا تھا، میری بہن پروین زوجہ محمد حامد اُس میں جاں بحق ہوگئی ۔ حکومت کی جا نب سے ورثاء کو مبلغ نو لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ قانونی ورثاء میں (1) محمد حامد ( شوہر) (2) محمد رفیق (والد) (3) رئیسہ بیگم (والدہ) اور (4) محمد شفیق (بھائی) ہیں۔ اس رقم کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
(محمد شفیق، سرجانی ٹاؤن)

جواب: کوئی شخص اپنی وفات کے وقت جو مال چھوڑ کر جاتا ہے، اُسے شریعت کی اصطلاح میں وِرثہ، ترکہ یا مالِ موروث کہتے ہیں۔ حادثات و سانحات کے بعد مرحومین کے پس ماندگان یا وُرَثاء کو جو امدادی رقوم دی جاتی ہیں، یہ ترکہ یعنی مرحوم کا اپنا چھوڑا ہوا مال نہیں ہے، ورنہ آپ کے سوال کی نوبت ہی نہ آتی۔ اُس کے لیے اسلام کا قانونِ وراثت پہلے سے موجود ہے اور وہ مُروّجہ ملکی قانون کی رُو سے بھی مؤثر اور نافذالعمل ہے۔ اس طرح کے سانحات یا حادثات (مثلا ًآتش زدگی،کسی عمارت کا منہدم ہوجانا اور لوگوں کا ملبے تلے دب کر مرجانا، بس، ٹرین یا ہوائی جہاز کے حادثے میں مرجانا، بم دھماکا، خودکش حملے یا دہشت گردی کے کسی واقعے میں ہلاک ہوجانا وغیرہ) میں حکومت مرنے والے کے ورثاء کو امدادی رقم دیتی ہے، بعض اوقات نجی افراد یا فلاحی ادارے بھی امدادی رقوم کا اعلان کرتے ہیں۔ اس طرح کے سانحات میں امدادی رقم کی تقسیم کے لیے حکومت کا کوئی قانون یا روایت پہلے سے موجود ہے، تو وہ اس پر عمل کر سکتی ہے، جیسے حکومت مرحوم سرکاری ملازم کی پینشن اس کی بیوہ کو دیتی ہے، لیکن اگر وہ دوسری شادی کرلے، تو اُس کے بعد پینشن روک دی جاتی ہے ۔ اور اگر بیوی پہلے وفات پاگئی ہے یا بیوہ کچھ عرصے کے بعد وفات پاگئی ہو تو اُس کے بعد اگر مذکورہ شخص کی 21 سال سے کم عمر کی اولاد ہے، تو اُن کو وہ پینشن جاری کی جاتی ہے، ورنہ پینشن بندکردی جاتی ہے۔ اور اگر حکومت کا پہلے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے تو اسلامی قانونِ وراثت کے مطابق مرحوم کے شرعی ورثاء میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔

مناسب ہوگا کہ اس سلسلے میں حکومت قانون سازی کرے اور اسلامی قانونِ وراثت کے مطابق مرحومین کے شرعی ورثاء میں تقسیم کرے ۔ اگر مرحوم کی بیوہ اور نابالغ اولاد ہو (یعنی اولاد یتیم رہ جائے) تو حکومت اُن کے لیے بھی یہ رقم مختص کرسکتی ہے، اسی طرح اگر والدین زندہ ہیں اور صرف یہی ایک بیٹا (یا بیٹی) اُن کا کفیل تھا، تو اُن کے لیے بھی مختص کرسکتی ہے۔ آپ نے جو صورت بیان کی ہے اگر اسلامی قانونِ وراثت کے مطابق تقسیم کی جائے، تو ورثاء کے حصے حسبِ ذیل ہوں گے: کل 6حصے ہوں گے ، شوہر کو 3حصے ، والدہ کوایک حصہ اور والد کو بطور عصبہ 2 حصے ملیں گے، بھائی کو کچھ نہیں ملے گا۔

ترکے کا مسئلہ
سوال: میرے شوہر ہائی کورٹ میں وکیل تھے، اُن کے انتقال کے بعد ہائی کورٹ سے تین لاکھ روپے بحیثیت نام زد فرد مجھے ملنا تھے۔ میرے شوہر نے نام زد گی فا ر م بھر لیا تھا لیکن موت نے مہلت نہ دی اور وہ فارم جمع نہ ہوسکا اور اِس سے پہلے ایک حادثے میں اُن کا انتقال ہوگیا۔ اب کورٹ والوں کا کہنا ہے کہ چوںکہ نا م زدگی فا رم ہم تک نہیں پہنچا ، اس لیے اب یہ رقم اُن کے بھائی اور بہن کو بھی ملے گی ۔ ورثاء میں ایک بیوہ ، ایک بیٹی، ایک بھائی اور ایک بہن موجود ہیں ۔ شریعت کی رُو سے میں اپنا اور اپنی بیٹی کا حصہ معلوم کرنا چاہتی ہوں۔(ارم طلعت کراچی)

جواب: ہماری رائے میں ادارے کی جانب سے ملنے والے واجبات حکومت کی طرف سے مرحوم کی بیوہ کے لیے تبرُّع اور فضل و احسان ہیں۔ یہ مرحوم کا ترکہ نہیں کہ اسے شرعی ورثاء میں اصولِ شرع کے مطابق تقسیم کیا جائے۔ مثلًا پینشن حکومت کی طرف سے تبرُّع (گفٹ) ہے، یہ ترکہ نہیں ہے اور حکومت اپنے قوانین کے مطابق مرحوم سرکاری ملازم کی بیوہ کو دیتی ہے، لہٰذا اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔ حکومت یا محکمے کی طرف سے جو مالیاتی رعایت حکومت کی طرف سے تبرع ہیں ، اُن میں ان کے قوانین جاری ہوں گے، البتہ مرحوم کی اپنی جمع کی ہوئی رقم اور دوسرا ترکہ بھی، اگر کچھ ہے، تو وہ اصولِ وراثت کے قوانین کے تحت تمام ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا۔ متوفیٰ کا ترکہ8حصوں میں تقسیم ہوگا۔ بیوہ کو 1/8یعنی آٹھ میں سے ایک حصہ، بیٹی کو کل ترکے کا نصف یعنی 4 حصے ملیں گے اور بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں