ٹی او آرز پر ڈیڈ لاک ختم ہونا چاہیے
اگر پانامہ لیکس اہم ایشو ہےجس میں قومی سیاست کوکرپشن کی دلدل سے نکالنا مقصود ہے تو اسے مشن امپاسیبل نہیں بنانا چاہیے
ملکی سیاست ایک انوکھے موڑ پر رکی ہوئی ہے ، پانامہ لیکس کو حتمی نتیجہ تک پہنچانے کے لیے جس دوطرفہ شفاف اور آزادانہ مکالمہ کی امید پیدا ہوئی تھی وہ بظاہر موہوم نظر آتی جارہی ہے کیونکہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز کی تیاری کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی کا ساتواں اجلاس بھی بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگیا، پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اب کمیٹی میں بیٹھنا بے سود ہے۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے بھی اجلاس کو بے سود قرار دیا ہے، حکومتی کمیٹی کے ارکان خواجہ سعد رفیق اور میر حاصل بزنجو نے کہا کہ اپوزیشن صرف وزیراعظم کی ذات کو ہدف بنا رہی ہے، ان کی تمام تجاویز وزیراعظم سے شروع ہوکر وزیراعظم پر ختم ہوتی ہیں۔اصولی نکتہ تو یہ ہے کہ اگر پانامہ لیکس اہم ایشو ہے جس میں قومی سیاست کو کرپشن کی دلدل سے نکالنا مقصود ہے تو اسے مشن امپاسیبل نہیں بنانا چاہیے۔
حزب اختلاف اور حکومتی ارکان میں اہل فکر، بردبار اور فہمیدہ شخصیات کا چناؤ ہوا ہے، انہیں اپنے آپ پر لگنے والے اس الزام سے خود کو بچانا ہوگا کہ جمہوریت کو درپیش ایک بحرانی کیفیت کو ختم کرنے اور پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ضوابط کار پر اتفاق رائے کا حصول دشوار ہوگیا ہے، یوں بند گلی میں جانے کا انجام ملک کے مفاد میں نہیں، فیئر پلے سے کام لیا جائے، اپوزیشن کو بات چیت کا بھی راستہ نہ دیا گیا تو بات سڑکوں تک جائے گی ۔ لہذا اولین فرصت میں مذاکراتی ٹیمیں اپنے رویے میں لچک پیدا کریں اور آئین و قانون طریقے اور جمہوری اسپرٹ کے ساتھ ٹی او آرز کی حتمی منظوری کے لیے ماحول ساز گار بنایا جائے۔
قوم کو مذاکرات کی خوش آیند پیش رفت کا تا حال انتظار ہے، دیر مناسب نہیں، حکومت اور اپوزیشن ڈیڈ لاک ختم کریں اور جلد از جلد ضوابط کار کو وسیع تر قومی و جمہوری مفاد میں تکمیل تک پہنچائیں ۔ جمعہ کو پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز طے کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کا جو ساتواں اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا اسے ہر حال میں نتیجہ خیز ہونا چاہیے تھا۔ کمیٹی ارکان کوئی 'وے آؤٹ' نکالیں ، اگر حکومت ٹی او آرز میں وزیراعظم کا نام نہیں شامل کرانا چاہتی جب کہ اپوزیشن وزیراعظم کا نام شامل کرانے پر بضد ہے تو بھی اس کوئی نہ کوئی حل نکلنا چاہیے۔ کہتے ہیں سیاست میں کوئی چیز ناممکن نہیں نہیں ہوتی۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے بھی اجلاس کو بے سود قرار دیا ہے، حکومتی کمیٹی کے ارکان خواجہ سعد رفیق اور میر حاصل بزنجو نے کہا کہ اپوزیشن صرف وزیراعظم کی ذات کو ہدف بنا رہی ہے، ان کی تمام تجاویز وزیراعظم سے شروع ہوکر وزیراعظم پر ختم ہوتی ہیں۔اصولی نکتہ تو یہ ہے کہ اگر پانامہ لیکس اہم ایشو ہے جس میں قومی سیاست کو کرپشن کی دلدل سے نکالنا مقصود ہے تو اسے مشن امپاسیبل نہیں بنانا چاہیے۔
حزب اختلاف اور حکومتی ارکان میں اہل فکر، بردبار اور فہمیدہ شخصیات کا چناؤ ہوا ہے، انہیں اپنے آپ پر لگنے والے اس الزام سے خود کو بچانا ہوگا کہ جمہوریت کو درپیش ایک بحرانی کیفیت کو ختم کرنے اور پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ضوابط کار پر اتفاق رائے کا حصول دشوار ہوگیا ہے، یوں بند گلی میں جانے کا انجام ملک کے مفاد میں نہیں، فیئر پلے سے کام لیا جائے، اپوزیشن کو بات چیت کا بھی راستہ نہ دیا گیا تو بات سڑکوں تک جائے گی ۔ لہذا اولین فرصت میں مذاکراتی ٹیمیں اپنے رویے میں لچک پیدا کریں اور آئین و قانون طریقے اور جمہوری اسپرٹ کے ساتھ ٹی او آرز کی حتمی منظوری کے لیے ماحول ساز گار بنایا جائے۔
قوم کو مذاکرات کی خوش آیند پیش رفت کا تا حال انتظار ہے، دیر مناسب نہیں، حکومت اور اپوزیشن ڈیڈ لاک ختم کریں اور جلد از جلد ضوابط کار کو وسیع تر قومی و جمہوری مفاد میں تکمیل تک پہنچائیں ۔ جمعہ کو پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز طے کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کا جو ساتواں اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا اسے ہر حال میں نتیجہ خیز ہونا چاہیے تھا۔ کمیٹی ارکان کوئی 'وے آؤٹ' نکالیں ، اگر حکومت ٹی او آرز میں وزیراعظم کا نام نہیں شامل کرانا چاہتی جب کہ اپوزیشن وزیراعظم کا نام شامل کرانے پر بضد ہے تو بھی اس کوئی نہ کوئی حل نکلنا چاہیے۔ کہتے ہیں سیاست میں کوئی چیز ناممکن نہیں نہیں ہوتی۔