نواز شریف کی بیماری اور مخالفین کا رویہ
خبر آئی کہ وزیراعظم کا دل کچھ گڑ بڑکررہا ہے، ڈاکٹروں کو دکھانے لندن جارہے ہیں
خبر آئی کہ وزیراعظم کا دل کچھ گڑ بڑکررہا ہے، ڈاکٹروں کو دکھانے لندن جارہے ہیں۔ ان ہی دنوں پانامہ لیکس کا طوفان اٹھا ہوا تھا۔ ان کی بیماری کو اس معاملے سے جوڑ دیا گیا۔کچھ نے کہا کہ احتساب سے ڈرکر بھاگے ہیں اورکچھ نے لندن میں ہونے والے علاج کا بل آف شورکمپنیوں سے ادا کرنے کا دعویٰ کیا۔ وہاں پہنچے تو ڈاکٹروں سے کہا کہ دو برس بعد آپریشن کراؤں گا، ڈاکٹروں نے آنکھیں دکھائیں توکہنے لگے کہ اچھا اسے دسمبر تک کے لیے موخرکردیں۔ ڈاکٹروں نے کہا دو گھنٹے کی دیر نہیں ہوگی، چپ چاپ آپریشن ٹیبل پر لیٹ جائیں۔
ملک میں افواہوں کی چوبائی چلنے لگی اور دعویٰ سے یہ کہہ دیا گیا کہ آپریشن کا بہانہ ہے کل تک سارے ملک میں دورے کرتے پھررہے تھے،اب ڈاکٹروں سے ساز باز ہوگئی ہے اور انھیں اسی طرح آپریشن ٹیبل پر لٹا دیا گیا ہے جیسے امریکیوں نے نیل آرمسٹرانگ اور دوسروں کو چاند پر اتار دیا تھا۔ وزیراعظم کے لہو میں بیہوشی کی دوائیں لہریں لیتی رہیں اور اسی دوران ان کے مسیحاؤں نے ان کے 4 بائی پاس کردیے۔ خبر پڑھ کر بے ساختہ یہ مصرعہ یاد آیا کہ ''تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا''۔
وزیراعظم اب اسپتال سے گھر منتقل ہوچکے۔ آپریشن کے فوراً بعد، ان کے لیے عوام میں ہم دردی کی جو فطری لہر پیدا ہوئی تھی اسے زائل کرنے کے لیے ایک حلقے کی جانب سے یہ افسوس ناک مہم چلائی گئی کہ وزیراعظم کا بائی پاس آپریشن ہوا ہی نہیں بلکہ یہ سب کچھ ناٹک تھا۔ وہ حضرات اور تجزیہ نگار جو طب کے بارے میں معمولی علم بھی نہیں رکھتے وہ بھی ماہر امراض قلب بن کر یہ ثابت کرنے لگے کہ یہ سب ایک جعلی کارروائی تھی۔
ہماری انفرادی اور قومی نفسیات میں 'سازشی مفروضوں' کا بہت عمل دخل ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جنھوں نے اس غلط پروپگینڈے پر اعتماد کرلیا۔ وہ تو بھلا ہو نواز شریف کے مخالف بعض سیاستدانوں اور عالمی رہنماؤں کا جنھوں نے ان کی بیماری پر اظہار تشویش کرتے ہوئے ان کی جلد صحت یابی کی دعا کی اور انھیں اظہارخیر سگالی کے لیے گلدستے روانہ کیے۔
جناب عمران خان بھی سمجھ گئے تھے کہ ماضی میں انھوں نے نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے جو ذو معنی گفتگو کی تھی وہ سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے اس لیے انھوں نے بھی اپنے خود ساختہ حریف کے لیے خوبصورت پھولوں کا ایک گلدستہ نیک تمناؤں کے ساتھ ارسال کیا۔کچھ دنوں بعد ''جعلی آپریشن '' کی مہم اپنی موت آپ مرگئی لیکن اپنے پیچھے چند سوال چھوڑ گئی ہے۔
پہلا سوال یہ کہ ہم اپنے قومی رہنماؤں بالخصوص اپنے منتخب وزرائے اعظم اور صدورکا احترام کرنا کب سیکھیں گے۔ یہ کون سی نفسیات ہے کہ ان آئین شکن آمروں کے بارے میں نرم اور پسندیدہ رویہ اختیارکیا جائے جن کے اقدامات سے نہ صرف ہمارا ملک ٹوٹا اور رہا سہا حصہ بعد میں دہشت گردی کا جہنم بن گیا لیکن اس کے برعکس سیاستدانوں کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ باقی رکھی جائے۔
اس حوالے سے یہ توجہیہ پیش کی جاسکتی ہے کہ جب جمہوری عمل میں تسلسل نہ ہو اور فوجی آمر ملک پر پانچ چھ دہائیوں تک بلا واسطہ یا بالواسطہ قابض رہے ہوں تو سماج میں '' مرعوبیت'' کا رجحان پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ یعنی لوگ قانون اور آئین شکن آمر سے مرعوب ہوجاتے ہیں اور انھیں عوامی مینڈیٹ لینے والا وزیراعظم طاقتورکی بجائے کمزور اور بزدل نظر آنے لگتا ہے لہٰذا وہ اپنی محرومیوں کا انتقام اس سے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر منتخب وزیراعظم یعنی لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تک سب کو بد ترین الزامات کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اکثر اوقات تو اس حوالے سے بعض لوگ جناح صاحب تک کو نہیں بخشتے۔ لیکن کیا مجال ہے کہ اس رویے کا اظہارگورنر جنرل غلام محمد سے لے کر ایوب خان ، یحییٰ خان ،ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسے مطلق العنان حضرات کے بارے میں بھی کیا جائے۔ طاقتور اور قانون توڑنے والوں سے مرعوبیت اور منتخب وزیراعظم کی تضحیک کی اس نفسیات کی عکاسی جناب نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے کیے گئے تمسخرانہ تبصروں سے بھی بخوبی ہوتی ہے۔
ایک دوسرا سوال یہ ابھرتا ہے کہ ہماری اپوزیشن جو نامی گرامی سیاستدانوں پر مشتمل ہے خود اپنے اور اپنے سیاسی حریفوں کے وقارکو کب اہمیت دیں گے؟ ان دنوں ہمارے ذرایع ابلاغ میں وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی صاحب کا بہت چرچا ہے۔ دو سال قبل وہ ہندوستان کے روایتی سیاستدانوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کو انتخابی میدان میں شکست فاش دے کر وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔
انتخابی مہم جب تک جاری تھی اس وقت تک ان کے مخالفین نے ان سے کوئی رعایت روا نہیں رکھی۔ ہر مسئلے پر انھیں آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ تاہم، جب عوام نے انھیں اپنا مینڈیٹ دے دیا تو سارا سیاسی طوفان تھم گیا۔ ان کے حریفوں نے اپنی لہراتی تلواریں میان میں رکھ لیں اور دشنام طرازی کے تیروں کو ترکش میں ڈال دیا۔ اب نریندر مودی ان کے ملک ہندوستان کے منتخب وزیراعظم تھے، ان کا احترام اور عزت سب پر واجب تھی کیونکہ یہ ایک فرد کا نہیں ، قومی وقار کا معاملہ تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مخالفین ان کی خوشامد کرنے لگیں اور ان کے لیے سیاسی میدان کھلا چھوڑ دیا جائے۔
ہندوستان کی بالغ اور سیاسی طور پر سمجھ دار حزب اختلاف نے اس نکتے کو اپنے سامنے رکھا کہ اپنے وزیراعظم کی ذاتی تذلیل نہ کی جائے اور انھیں اتنا متنازعہ اور آلودہ نہ کیا جائے جس سے عالمی سطح پر خود ہندوستان کی عزت اور ساکھ متاثر ہو۔ جناب نریندر مودی کو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں مبینہ طور پر ملوث کہا جاتا تھا۔ یہ الزام ان پر ہندوستان کی اپوزیشن لگایا کرتی تھی۔ کئی جماعتیں اس حوالے سے اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔ یہ صورتحال اتنی سنگین ہو گئی تھی کہ امریکا نے مودی صاحب کو اس وقت بھی ویزا جاری کرنے سے انکارکردیا تھا جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ اسی نوعیت کا رد عمل یورپ سے بھی آیا تھا۔
مذکورہ بالا پس منظر میں کچھ دیر کے لیے یہ فرض کرلیا جائے کہ ہندوستان میں وہاں کی حزب اختلاف اور سیاسی جماعتوں کی جگہ ہماری سیاسی جماعتیں ہوتیں تو صورتحال کیا ہوتی؟ تمام سیاستدان میدان میں نکل چکے ہوتے۔ سیاسی جماعتیں مودی صاحب کو قاتل کہہ کر اقتدار سے نکال باہر کرنے کی تحریکیں چلارہی ہوتیں اور دھرنے دے رہی ہوتیں۔ وزیراعظم مودی دنیا کے جس ملک میں جاتے مخالف رہنما ٹکٹ کٹا کر، ان کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوتے ، ان کے خلاف مظاہرے کرتے اور اس بات کو خاطر میں نہ لاتے کہ اس سے ملک کی کتنی بد نامی ہوگی اور معاشی لحاظ سے اسے کس قدر نقصان اٹھانا پڑے گا۔
جناب نواز شریف کو عوامی مینڈیٹ ملنے اور ان کے حالیہ آپریشن کے ہونے تک پی ٹی آئی کے عمران خان، جو پی پی پی کو نہیں بلکہ خود کو اصل حزب اختلاف تصورکرتے ہیں، انھوں نے ملک کے وزیراعظم پر جو ذاتی حملے کیے اس سے عالمی سطح پر پاکستان جو نقصان اٹھانا پڑا، کیا کبھی اس بارے میں بھی کچھ سوچا گیا ہے؟ ہندوستان کے وزیراعظم پر مبینہ طور پر قتل عام کرنے کے سنگین ترین الزامات لگائے تھے تو کیا ان کے بدترین سیاسی مخالفین نے بھی اپنے سیاسی مفادات اور محض اقتدار کی خواہش کے زیر اثر ان الزامات کو بنیاد بنا کر اتنا بحران پیدا کیا جس سے ان کے ملک کی معیشت اور بیرونی وقار مجروح ہوجائے؟ ہر وقت ہندوستان سے مقابلہ اور اس سے موازنہ کرنے والے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو اس اہم نکتے پر بھی ضرورغورکرنا چاہیے۔
تیسرا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ ہمارے اکثر سیاستدان اور رائے عامہ تشکیل دینے والی فاضل شخصیتیں خود کو کب ہیجانی اور جذباتی ذہنی کیفیت سے باہر نکالیں گی۔ 60 برسوں تک جمہوریت سے روگردانی نے ہم سب کے اندر عدم برداشت کا خطرناک رویہ پیدا کردیا ہے جس کے مظاہر ہمیں جابجا نظر آتے ہیں۔ سیاست دانوں کے برعکس ہمارے عوام صبرو ضبط، تحمل اور رواداری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو اشتعال میں لانے کی ہر کوشش ناکام ہوجا تی ہے۔ بلا شبہ پاکستان کے عوام اپنے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں سے کہیں زیادہ دانش مند ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف صحت یاب ہوکر جلد واپس آجائیں گے لیکن اندیشہ یہی ہے کہ بعض حلقے اپنی روش تبدیل نہیں کریں گے۔ ہمیں ان سے درخواست کرنی چاہیے کہ وقت قیامت کی چال چل رہا ہے۔ ہمارے خطے میں حیرت انگیز تبدیلیوں کے مظاہر صاف نظر آرہے ہیں، نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ ایسے میں ملک کو سیاسی محاذ آرائی کی بجائے استحکام کی ضرورت ہے، لہٰذا مناسب یہی ہے کہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ یوں بھی ''حساب'' چکانے کے لیے 2018 زیادہ دور نہیں ہے۔ آپ اپنا اور وزیراعظم اپنا کام کریں اور فیصلہ آنے والے انتخابات میں عوام پر چھوڑدیں۔