اس نئی دنیا میں

ہماری بارانی زمینوں پر بارش برس جائے تو ہم آنے والی فصل کی خوشی میں کوئی لمبا پروگرام بنا لیتے ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

سانحہ یہ ہوا کہ میرے کالم کا ابتدائی ورق گم ہو گیا، اس کا پتہ مجھے صبح کے وقت چلا جب میں اس کالم کو مکمل کرنے کا پروگرام بنا رہا تھا اور کل کے لکھے کالم کو تلاش کر رہا تھا۔ میرے کالمی ملازم نے بھی مجھے یاد دلایا کہ آپ نے کچھ نہیں لکھا تھا۔ ویسے میں ان پڑھ ملازم کے اس طنز کو برداشت کر گیا کہ میں نے کل کچھ نہیں لکھا تھا اور پرسوں بھی ایسا ہی تھا بلکہ ہر روز ہی میں صرف کاغذ ضایع کرتا ہوں، لکھتا وکھتا کچھ نہیں۔

اخبار کے مالک جو مجھے مناسب معاوضہ دیتے ہیں کسی دن میرے بارے میں قارئین کی اس رائے کو تسلیم کر لیں گے اور ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں کسی معقول کالم نویس پر یہ رقم ضایع کرنی شروع کر دیں گے ورنہ ہمت کریں تو کالم کے بغیر بھی اخبار چھپ سکتا ہے اور بک سکتا ہے ضروری نہیں کہ کسی کی سرپرستی شروع کر دیں۔ اخباروں میں کالم شروع دن سے چھپ رہا ہے اس لیے اخبار کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ کسی کالم نویس کو مصروف رکھے اور کچھ دے دلا بھی دے تا کہ وہ ادھر ادھر منہ نہ مارتا پھرے۔

ان دنوں میں ایک نئی بات دیکھ رہا ہوں کہ جو لیڈر اقتدار کی کرسی پر پہنچ جاتے ہیں وہ اپنے قریبی کالم نویسوں کو اپنی ملازمت میں لے لیتے ہیں اور انھیں کسی ادارے کا سربراہ بنا دیتے ہیں یا کسی معقول سی ملازمت کا بندوبست کر دیتے ہیں۔ اس وقت آپ کو فارغ کالم نگار شاید ہی ملے ہر کوئی کسی نہ کسی افسرانہ مصروفیت میں مصروف ہے۔ ہمارے جیسے بے روزگاروں کو یہ لوگ اگر کبھی کہیں مل جاتے ہیں تو خیریت ضرور پوچھتے ہیں۔

میں نے اپنی اوقات جاننے کے لیے پروگرام بنایا کہ مختلف اخباروں میں نوکری کی کوشش کروں چنانچہ میں خود ہی اخباروں کے کارکن ایڈیٹروں سے ملا۔ اکثر نے اپنے مالک کا ذکر کیا کہ آپ ان سے مل لیں۔ حکم ہوا تو ہم تو حاضر ہیں۔ میں ملازمتوں کے بارے میں ایک ناتجربہ کار شخص ہوں۔ ملازمت کی تلاش کے اس سفر میں ایک صاحب نے مجھے روک کر کہا کہ یہ تم کیا حماقت کر رہے ہو تم نے کل جن لوگوں کی جگہ لینی ہے اور تمہاری آمد پر مالک نے انھیں رخصت کر دینا ہے تم ان سے ملازمت کی تلاش کر رہے ہو۔ تم ایک نہایت ہی بونگے اور احمق ملازم ہو۔

صحافت میں اپنا بھلا برا مقام بنا لینے کے باوجود تم اپنی اس محنت کو بھی ضایع کر رہے ہو اور اپنے سے جونیئر لوگوں سے مدد مانگ رہے ہو۔ میں یہ سب سن کر خاصا شرمندہ ہوا اور میرے ذہن میں فوراً ہی وہ چند ''مرلے'' زمین مسکرانے لگی کہ کیسے احمق ہو گھر کی مزدوری چھوڑ کر شہروں میں بابوؤں کی نوکری تلاش کر رہے ہو اور ایک خوشخبری عرض کروں کہ کل رات ایک طویل عرصے تک خشک سالی کے بعد بارش ہو گئی۔


ہماری بارانی زمینوں پر بارش برس جائے تو ہم آنے والی فصل کی خوشی میں کوئی لمبا پروگرام بنا لیتے ہیں مگر ایک لمبا پروگرام جو کچھ وقت سے ملتوی چلا آ رہا ہے وہ ایک لاہوری نوسیاستے سے ملاقات ہے۔ پہلے نو دولتے ہوتے تھے اب جن کے بزرگ سیاستدان تھے وہ اپنے بزرگوں کے نام پر نوسیاستے کہلاتے ہیں مگر بدتمیزی میں نودولتوں سے کم نہیں ہیں۔

اس وقت میں اس بارش میں گم ہوں جو میرے کھیتوں کو سیراب کر چکی ہے۔ ان دنوں اگرچہ کوئی فصل نہیں ہے جس کو یہ بارش نئی زندگی دے دے لیکن اس بارش کا وتر نئی مٹی کی نمی فصلوں تک زندہ رہے گا۔ ہم بارانی لوگوں کی سیاست اسی طرح زندہ رہتی ہے کہ بارش آئی اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی دنیا بن گئی۔ انسان تو کیا جانور بھی کھیلنے کودنے لگے۔ بارش ہر جاندار کے لیے زندگی ہے بارش کا اثر بہت دیرپا ہوتا ہے اور پھر جانور پہلے سے زیادہ کام کرتا ہے زیادہ بوجھ اٹھاتا ہے اور زیادہ رفتار سے دوڑتا ہے۔

گاؤں کی بارش سے میں بھی نئی زندگی محسوس کر رہا ہوں۔ مجھ میں اتنی ہمت تو نہیں کہ میں اللہ کی دی ہوئی ان زمینوں کو آباد کروں اور اپنا رزق خود تلاش کروں جسے اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ریزرو کر دیا ہے۔ اس محفوظ رزق میں کیا نہیں ہے۔ برق رفتار گھوڑے ہیں جو میرے پوتے کو بہت پسند ہیں اور ان کی پرورش وغیرہ کی وجہ سے مجھے سخت ناپسند ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہاں کہیں آنے جانے اور سواری کے لیے گھوڑے رکھے جاتے تھے لیکن گھوڑوں کی پرورش اور خود ان کی گراں قیمت کی وجہ سے زمینداروں نے گھوڑوں کو رفتہ رفتہ ترک کر دیا اور ان کی جگہ گاڑیاں آ گئیں جاپانی گاڑیاں جو زمینداروں کے لیے اجنبی ہیں مگر آرام دہ ہیں اور ان کے بیٹے انھیں چلاتے رہتے ہیں۔ گاؤں کی دنیا کی تبدیلی میرے لیے اس دن حیران کن تھی جب میں گاؤں گیا تو میں نے زمینوں کی پگڈنڈی پر انسانوں کی جگہ موٹرسائیکل کو دوڑتے دیکھا۔

میں نے ایک بزرگ خاتون کو پیدل چلتے دیکھا تو کہا کہ اماں میں کوئی موٹرسائیکل روکتا ہوں آپ اس پر بیٹھ جائیں۔ جواب میں اس نے بے حد مشکور ہو کر کہا کہ جی مجھے تو اس سے ڈر لگتا ہے لیکن اس کی بیٹی کو اس سے ہرگز ڈر نہیں لگتا۔ اس کے اختیار میں ہو تو وہ کسی موٹرسائیکل والے سے شادی کر لے گی۔ پیدل چلنا اور جوتیاں سروں پر رکھ لینا اور گاؤں کے قریب پہنچ کر انھیں پہن لینا مگر اب موٹرسائیکل چاہیے۔ آپ اس تبدیلی پر غور کریں۔ دنیا بالکل ہی بدل رہی ہے۔
Load Next Story