امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

چند ماہ قبل ایک بار پھر عمرے کی سعادت نصیب ہوئی جس کے دوران ایک نعت بھی عطا ہوئی


Amjad Islam Amjad June 11, 2016
[email protected]

فی کس آمدنی کے اعتبار سے پاکستان کا نمبر ایک سو پانچواں ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے کہ خدمت خلق اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں میں ہمارا نمبر پہلے پانچ ملکوں میں آتا ہے اور ایک عمومی اندازے کے مطابق پاکستانی قوم ہر سال تقریباً چھ سو ارب روپے زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کی شکل میں خرچ کرتی ہے۔ اب یہ ایک غور اور بحث طلب بات ہے کہ اس کے باوجود ہمارے یہاں چالیس فیصد سے زیادہ لوگ کیوں اور کیسے غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور یہ کہ یہ رقم آخر کہاں بلکہ کہاں کہاں جاتی ہے اور اسے اصل میں کن لوگوں تک پہنچنا چاہیے۔

گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے مختلف عقائد اور فرقوں کے حامل چار علمائے دین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیا کہ وہ اس سوال کا جواب دیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ کیا خیرات دینے کے لیے صرف نیت ہی ضروری ہے یا اس کے مستحقین کے چناؤ کے لیے کسی طریقۂ انتخاب اور جانچ پرکھ کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ رقم کسی غلط یا نقصان دہ کام کے لیے استعمال نہ ہو۔ مجھے اس گروپ میں یہ کہہ کر شامل کیا گیا کہ آپ ان تنظیموں کے کردار پر روشنی ڈالیں جو دینی تعلیم، صحت اور مروجہ تعلیم کے نام پر ان رقوم کا تقریباً ستر فیصد حصہ وصول اور خرچ کرتی ہیں۔

میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے اس بحث میں نہ گھسیٹیں کہ مجھے اپنی بات کی وضاحت کے لیے مجبوراً ان تنظیموں، ان کے پروگرام اور ان غیر ملکی ڈونرز کے نام بھی لینا پڑیں گے جو ملت اسلامیہ کی بہبود اور دینی مدرسوں کی سرپرستی کے نام پر فرقہ واریت، فقہ پرستی اور جہاد کے نام پر کی جانے والی ایک مخصوص انداز کی دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں کیونکہ یہ بات مختلف وجوہ کی بنا پر نہ تو قومی ٹی وی کو اور نہ ہی پرائیویٹ چینلز کو وارا کھاتی ہے جواب میں وہی عجیب و غریب اور ایک حد تک مضحکہ خیز جملہ پھر سے سننا پڑا کہ آپ بات ضرور کیجیے ''مگر ذرا بچ بچاکے۔''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جھوٹ تو بچ بچاکر شاید بولا جاسکتا ہے مگر سچ کو اس امتحان سے کیسے گزارا جائے اس کا جواب نہ کسی کے پاس ہے نہ شاید ہوگا کہ سبچ اور کاروباری منافقت کے چناؤ میں جیت ہمیشہ کاروباری مفادات کی ہی ہوتی ہے۔

دین کی ترویج اور دینی مدارس کی حدود کے لیے ان سے متعلقہ لوگوں کو زکوٰۃ اور صدقات کی رقم دینے میں بظاہر کوئی خرابی نہیں بلکہ یہ اپنی بنیاد میں ایک اچھا اور مستحسن کام ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہر فرقے اور فقہے کے نام لیوا ان رقوم کو دین کے بجائے اپنے اپنے اس تصور دین کے فروغ کے لیے خرچ کرتے ہیں جس کی بنیاد دیگر تمام مختلف عقائد رکھنے والوں کو کافر اور گردن زدنی قرار دینا ہے اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس نوع کی بیشتر رقوم کچھ برادر اسلامی ممالک سے آتی ہیں جو حکومت پاکستان سے بالا بالا براہ راست اپنی نمایندہ، ہم خیال اور لے پالک قسم کی تنظیموں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ان سے فیض یاب ہونیوالے افراد اس آمدنی کو جاری رکھنے، اپنے نمبر بڑھانے اور اپنے سپانسرز کو مطمئن کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر حق خدمت ادا کرتے ہیں جس سے معاشرہ مضبوط، ہم آہنگ اور لبرل ہونے کے بجائے مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہوجاتا ہے۔

قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد تیل کی دولت کے حامل پانچ نسبتاً امیر برادران اسلام نے اپنے پسندیدہ فقہوں کی ترویج کے لیے وطن عزیز میں نفرت کی فصل کے ایسے بیج بونا شروع کردیے تھے جو ستر کی دہائی تک پوری طرح پک کر تیار ہوچکی تھی لیکن اس جلتی پر تیل کا کام افغان جہاد نے کیا اور کئی ایسے گروپ پیدا ہوگئے جنھوں نے ان غیر ملکی فنڈز کی مددسے ملک کے اندر ایک ایسی پراکسی وار شروع کردی جس کی وجہ سے ہمارا شمار ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پسماندہ، متشدد اور خطرناک ملکوں میں ہونے لگا ہے۔ سو ایسے میں یہ سوال بہت اہم اور بروقت ہے کہ زکوٰۃ خیرات اور صدقات دیتے وقت صرف نیت ہی نہیں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ رقم جن لوگوں کو مل رہی ہے وہ صحیح معنوں میں اس کے مستحق بھی ہیں یا نہیں!

چند ماہ قبل ایک بار پھر عمرے کی سعادت نصیب ہوئی جس کے دوران ایک نعت بھی عطا ہوئی لیکن اسے درج کرنے سے قبل اس کے حوالے سے دو باتوں کا ذکر ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ عزیز حمید الٰہی نے جو مکہ معظمہ میں لمحہ بہ لمحہ ہمارے ساتھ رہا چند دن قبل اس کی کچھ تصویریں میرے فیس بک پیج پر دوبارہ لوڈ کردیں۔

احباب نے یہ سمجھ کر کہ شاید یہ تازہ تصاویر ہیں مبارکباد کے بے شمار پیغام بھیجے جن سے خوشی تو بہت ہوئی لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کی وضاحت کیسے کی جائے کہ یہ ایک طرح سے کفران نعمت ہوتا ہے اور دوسری بات یہ کہ اس نعت کے زیادہ تر اشعار ریاض الجنہ میں داخلے کی اجازت کے انتظار کے دوران ہوئے کہ جگہ کی تنگی کے باعث متعلقہ سعودی نگران لوگوں کو آدھ آدھ گھنٹے کے لیے گروپس کی شکل میں آگے بھیج رہے تھے۔ رمضان المبارک کی رعایت سے اور اس کالم کی معرفت یہ نعت حضور اکرمؐ سرور کائنات کی خدمت میں اس دعا اور التجا کے ساتھ پیش ہے کہ ''امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے''

پناہ مجھ کو ملے مصطفیٰ کے داماں میں
کمی رہے نہ کوئی کاش میرے ایماں میں

عطا ہوا ہے مجھے پھر سے حاضری کا شرف
نگاہ اٹھتی نہیں ہے وفور احساں میں

کرم کی ایک نظر ہو کہ لے کے نذر اسلام
حضورؐ میں بھی کھڑا ہوں صف غلاماں میں

سوائے اشک ندامت، بجز امید کرم
نہیں ہے کچھ بھی مری آخرت کے سامان میں

احاطہ جن سے ہو ممکن میری عقیدت کا
کہیں وہ لفظ نہ پائے لغت کے داماں میں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔