سترہ سو روپے کی روٹی

بسا اوقات اتنے سادہ بندے سے بھی انسان زندگی کے ایسے ایسے اسباق سیکھتا ہے

Shireenhaider65@hotmail.com

چند سال پہلے... یہ امانت میرے پاس آیا تھا، تب یہ سولہ سترہ برس کا ایک سادہ دیہاتی سا لڑکا تھا، لاہور سے کسی نے اسے میرے پاس بھجوایا، ''میں وہاں ساڑھے تین ہزار روپے مہینے کی تنخواہ لیتا تھا، آپ کے پاس تب آؤں گا اگر آپ مجھے چار ہزار روپے ماہانہ دیں گے... '' اس نے آتے ہی اپنے انداز میں اپنا مطالبہ پیش کیا تھا-

''اور اگر ہم تمہیں چار ہزار نہ دیں بلکہ... ''

''تو پھر نہیں جی، ابے نے کہا ہے کہ چار ہزار سے ایک پیسہ کم پر ملازمت نہیں کرنا!!'' اس نے میری بات اچک کر فوراً اپنا مطالبہ دہرایا-

''ہم تو سوچ رہے ہیں کہ تمہیں پانچ ہزار روپے ماہانہ دے دیا کریں!!'' آفر سنتے ہی اس کی باچھیں کھل گئی تھیں اور یوں وہ ہماری ملازمت میں آ گیا- سفید چٹا ان پڑھ اور بات چیت کرنے کے انداز سے بھی نا بلد امانت آج تراش خراش کے بعد کافی اچھا ملازم بن گیا ہے، انتہا کا ایماندار کہ اس کی ایمانداری کو میں نے بارہا آزمایا ہے، اس کی بہتری کے لیے میں نے اپنے دوسرے ملازم سے درخواست کی کہ اسے پڑھا دیا کرے، اس وقت میں نے اس کی تنخواہ میں پانچ سو روپے کا اضافہ اسی لیے کر دیا تھا کہ اسی لالچ میں وہ اسے پڑھا دے گا، اسے ابتدائی قاعدہ بھی لا کر دیا م کاپی اور پنسل بھی اور یوں ان دونوں '' روم میٹ '' میں استاد اور شاگرد کا رشتہ قائم ہو گیا-

امانت نے پڑھنے میں خاص دلچسپی کا اظہار نہ کیا، تب میں نے اس کے لیے ترغیب رکھی کہ جس دن اس کا یہ قاعدہ ختم ہو جائے گا اور وہ میرا امتحان پاس کر لے گا اس دن سے اس کی تنخواہ میں پانچ صد ماہانہ کا اضافہ ہو جائے گا اوراسی طرح اس سے اگلی کتاب کے بعد مزید پانچ سو کا ... اس کے بعد اس نے کچھ دلچسپی ظاہرکی اور پھر اس نے کسی حد تک قاعدہ، پھر قرآنی قاعدہ پڑھنا شروع کیا اور نماز پڑھنا بھی سیکھی-

اس کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ بسا اوقات اتنے سادہ بندے سے بھی انسان زندگی کے ایسے ایسے اسباق سیکھتا ہے جو ہزاروں اور لاکھوں کی فیسیں ادا کر کے بھی نہیں سیکھ سکتا- اس کے ابتدائی دور ہی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں کوئی مہمان بغیر اطلاع دیے پہنچ گئے... ( اگر چہ ہمارے ہاں یہ کوئی نئی بات نہیں) خاتون خانہ ملازمت بھی کرتی ہو، ہفتے کا درمیان ہو کہ ویک اینڈ پر بندہ پھر کچھ نہ کچھ ہنگامی حالات سے نمٹنے کو تیار ہو تا ہے، جتنی دیر میں امانت نے انھیں جوس پیش کیا ، میں نے کال کر کے پزا آرڈر کر دیا کہ اس وقت اس سے زیادہ کچھ نہ کیا جا سکتا تھا-

مہمانوں کے ساتھ بیٹھنا ہو اور ساتھ کچھ پکانا بھی ہو تو مشکل ہو جاتی ہے، ساتھ ہی میں نے گھر پر کچھ نہ کچھ فریزر سے نکال کر تیار کر لیا تھا، امانت نے برتن لگا لیے تھے - بیرونی گیٹ کی گھنٹی بجی تو میں نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چار ہزار روپے اسے دیے کہ گیٹ پر سے سامان لے کر باورچی خانے کی بیرونی طرف سے اندر لا کر رکھے- وہ اسی طرح رقم لے کر گیا اور حسب ہدایت سامان لا کر رکھا، میں نے سامان کھولاا ور ٹیبل پر سجا کر مہمانوں کو کھانے کی دعوت دی- کھانا ختم ہوا تو امانت کو چائے بنانے کو کہا اور مہمانوں کی رخصتی ہوئی، امانت اس دوران مجھے چپ چپ سا لگا تھا، میز سے برتن سمیٹ کر لا کر اس نے سنک میں رکھے اور میری طرف دیکھنے لگا کہ برتن اس نے دھونا ہیں یا کہ میں نے-

'' آپ رہنے دو، میں دھو لیتی ہوں ! '' میں نے اس سے کہا-

'' باجی!!'' اس نے مجھے پکارا، '' ایک بات پوچھوں ؟''

'' آپ نے مجھے چار ہزار روپے دیے تھے نا اس آدمی کو دینے کے لیے؟ ''

'' ہاں !! '' میں نے بے دھیانی میں کہا، '' کیوں کیا ہوا؟''


'' اس میں سے اس نے مجھے صرف یہ چھ سو روپے بقایا دیے ہیں! '' اس نے بل اور باقی رقم مجھے لوٹائی-

'' اچھا ہاں ... ٹھیک ہے، رکھ دیں ادھر کاؤنٹر پر!!''

'' یہ اس نے کل چونتیس سو روپے کاٹے ہیں باجی... ان دو روٹیوں کے؟ '' اس کے کہنے پر مجھے دل ہی دل میں ہنسی آ گئی، '' اس نے تو لوٹ لیا ہے جی آپ کو!!''

''یہ دو روٹیاں نہیں ہیں امانت... یہ پزا ہے!! '' میں نے اسے سکھانا چاہا-

'' پر جی ہیں تو دو روٹیاں ہی نا... اور ایک روٹی بنتی ہے سترہ سو روپے کی!! '' اس کے کہنے پر مجھے عجیب سا احساس ہوا، '' اس طرح کی روٹیاں تو میری اماں بھی کبھی کبھار لگاتی ہیں باجی، آٹے میں بیسن ملا کر ، ساتھ مسالے ڈال کر، پھر ہم اسے'' چوپڑ'' کر کھاتے ہیں، اور اس روٹی کا ذائقہ بھی اس روٹی سے بہتر ہوتا ہے باجی!!''

'' امانت... یہ اس طرح کی روٹی نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو!! '' مجھ سے پزا کی اتنی توہین برداشت نہ ہوئی تھی، '' کام کرو آپ اپنا!!'' میں نے اسے کہا-

'' آپ کو پتا ہے کہ پینتیس سو روپے میں میری اماں گھر کے سات لوگوں کے لیے مہینے بھر میں کھانا بناتی ہے،ا س میں سے صرف گندم ہمارے گھر کی ہوتی ہے اور گھر کی بھینس کا دودھ ہوتا ہے، مگر بھینس رکھنا بھی ایک مہنگا خرچہ ہے... اور آپ کے یہ سات مہمان ایک وقت میں چونتیس سو روپے کی روٹیاں کھا کر گئے ہیں، ساتھ آپ نے کباب وغیرہ بنائے تھے، وہ اور بھی خرچہ ہے!!''

'' کرنا پڑتا ہے امانت!! '' میں نے اسے صدمے کی کیفیت سے نکالنا چاہا-

'' یوں ہی کہہ رہا تھا باجی!! '' وہ اپنے کام میں لگ گیا مگر مجھے عمر بھر کے لیے ایک سبق سکھا گیا -

اگر چہ یہ تقسیم اللہ تعالی کی پیدا کردہ ہے کہ اس نے امانت کی ماں کو ایسے حالات میں رکھا ہے کہ وہ پینتیس سو روپے میں پورے مہینے کا بجٹ بنائے اور اسی چادر میں رہ کر اپنا گزارہ کرے، وہ کر بھی رہی ہو گی اور اسی میں خوش بھی ہو گی- چاہے میرے پاس اس سے بہت زیادہ سہی اور میں بڑی آسانی سے روزانہ بھی چونتیس سو روپے کی ''دو روٹیاں'' خرید سکتی ہوں ، مگر اللہ کی کی ہوئی اس تقسیم کا کوئی مقصد ہے-

مال، دولت، اولاد اور حکومت اللہ تعالی نے اسی لیے آزمائش بنائے ہیں ، کسی کو دے کر اور کسی کو نہ دے کر، کسی کو دینے کے بعد اس سے چھین کر اور کسی سے چھیننے کے بعد اسے دوبارہ دے کر... دنیا کا نظام یہی ہے اور دنیا ہے ہی آزمائش گاہ- جو اس دنیا میں خود کو آزمائش میں سمجھتا ہے اس کے لیے آخرت میں اعزاز ہیں مگر جس نے سب کچھ اسی دنیا کو سمجھ لیاہے اس کے لیے یہ دنیا ہی سب کچھ ہے اور آخرت میں وہ محروم رہنے والا ہے-

اپنی دولت کے مظاہرے اپنے جیسوں میں ہی کرنا مناسب ہوتا ہے، اپنے سے کمتر لوگوں کے سامنے اپنی دولت یا اختیار کا مظاہرہ صرف انھیں احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے، میں نے ا س کے بعد اصول بنا لیا کہ اگر کھانا باہر سے منگوانا ہی پڑے تو اس کی رقم کی ادائیگی ملازموں کے ہاتھ نہ کروائیں، اس سے ان کے ذہن میں جو سوچ آتی ہے اس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
Load Next Story