کیا نیا تعلیمی بجٹ سدھار لائے گا
تعلیمی منصوبوں کی شفافیت کے لیے کڑی نگرانی ناگزیر ہے
پاکستان میں حکومت کی جانب سے تعلیم کے شعبے میں مسلسل برتی جانے والی غفلت دیکھ عام آدمی اب شدید مایوسی کا شکار ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں بالخصوص اسکولوں کے بارے میں اب یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ ان کا مقصد صرف اور صرف کچھ لوگوں کو ملازمتوں کی صورت میں کھپانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔شہری علاقوں کے اسکولوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں اب بہت کم تعداد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یہ گنے چنے بچے اکثرایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مالی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔اس کے مقابلے میں اب گلی گلی نجی تعلیمی ادارے کُھل رہے ہیں اور ان میں کافی رش بھی دیکھا جارہا ہے ۔ لوگوں کا خیال ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں کو نسبتاً معیاری تعلیم دی جار ہی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ ان سرکاری اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ اپنے بچوں کی تعلیم کے معاملے میں پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں پرا عتماد کرتے ہیں جو افسوس ناک امر ہے۔
دیہی علاقوں کی بات کریں تو مزید بھیانک صورتحال سامنے آتی ہے۔ کم وبیش سبھی صوبوں کے ہزاروں دیہی اسکول بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ کئی اسکول ایسے ہیں جن کا وجود صرف محکمہ تعلیم کی فائلوں میں ہے ۔ان اسکولوں کے اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔
دیہی علاقوں کے اسکولوں کی عمارات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے نہیں بلکہ کھنڈر ہیں ۔جو اسکول کسی نہ کسی درجے میں کام کر رہے ہیں ان کی کارکردگی کا بھانڈا اس وقت پھوٹ جاتا ہے جب ان اداروں کے پڑھے ہوئے طلبہ مزید تعلیم کے لیے شہری علاقوں کے کالجوں کا رخ کرتے ہیں ۔ ان طلبہ میں سے اکثر داخلہ ٹیسٹوں میں ہی ناکامی کے بعد مایوس ہو جاتے ہیں ۔
ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ تعلیم جیسے اہم شعبے کو یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ ہر حکومت انتخابات میں تعلیم کے فروغ اور ایجوکیشن ایمرجنسی نافذ کرنے کے دعوؤں کے ساتھ آتی ہے ۔جب جون کے مہینے میں سالانہ بجٹ بنایا جاتا ہے تو انہیں وہ تمام وعدے بھول جاتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی اور تعلیم کے شعبے سے عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم تعلیم کے لیے سب سے کم بجٹ رکھتے ہیں۔ اس بجٹ سے صرف اساتذہ کی تنخواہیں ہی پوری ہو سکتی ہیں۔تعلیمی شعبے میں نئی پیش رفت کے لیے اس بجٹ میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ اب بجٹ کو لفظوں کا ہیر پھیر اور اعداد وشمارکی ایک بے رنگ سی کہانی سمجھنے لگے ہیں ۔
جب ریاست تعلیم کے شعبے سے غفلت برتتی ہے تو اس سے پورا معاشرتی عمل متاثر ہوتا ہے ۔ہمارے ہاں اب ہر سال ہزاروں طلبہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہو رہے ہیں ۔ ان طلباء میں سے اکثر کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شعبے میں عملی کام سے بالکل نابلد ہوتے ہیں ۔ تعلیمی دورانیے میں انہیں کسی نہ کسی درجے میں نظری ابحاث (Theory)پڑھا دی جاتی ہیں لیکن اس علم کی عملی تطبیق(Practical) کی مشق پر توجہ نہیں دی جاتی جس کے نتیجے میں ان ڈگری بردار نوجوانوں کے کافی عرصہ تک بے زورگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
بہت سے سرکاری تعلیمی اداروں سے جب معیاری تعلیم کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہاں کا اسٹاف سہولیات کی کمی کا شکوہ کرتا ہے۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کو مناسب سہولیات فراہم کرے تاکہ یہ شکایت بھی جاتی رہے اور لوگوں نجی تعلیمی اداروں میں بھاری فیسں ادا کرنے کی بجائے سرکاری تعلیمی اداروں میں پورے اعتماد کے ساتھ اپنے بچوں کو بھیج سکیں ۔
سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے انتظامی امور کو تاحال جدید خطوط پر استوار نہیں کیا۔ کچھ اداروں نے اپنی ویب سائٹس تو بنا دی ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین بھی بھرتی کیے ہیں لیکن جب کسی بھی شخص کو اس ادارے کے متعلق اہم اور بنیادی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے تو اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بہت سی یونیورسٹیوں کی ویب سائٹس کا یہ حال ہے کہ وہ مہینوں سے اپ ڈیٹ نہیں ہوئیں ۔ معمولی قسم کی معلومات لینے کے لیے بھی طلبہ کو دور دراز سے سفر کرکے آنا پڑتا ہے ۔ اس نوع کی غفلت کا سبب صرف اور صرف اداروں میں انتظامی مشینری کا دیانت داری سے اپنے فرائض انجام نہ دینا ہے ۔
رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں بجٹ پیش کیا گیا جس میں جس میں اضافے کی بجائے گزشتہ برس کی نسبت کمی کی گئی۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں کچھ نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے رقم مختص کی گئی ہے اوربتایا گیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ،وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت اوروزارت کیڈ کے تحت 50نئے اور 96جاری تعلیمی منصوبوں کی تکمیل عمل میں لائی جائے گی ۔ان منصوبوں کی شفافیت کو یقینی بنانا اس حکومت کے لیے ایک چینلج ہو گا۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہر سال تعلیمی اداروں میں بہت سا پیسہ کمیشن مافیا کی نذر ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اصل مقصد پورا نہیں ہو پاتا۔اس لیے ضروری ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں (اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں )کے انتظامی شعبوں کی کارکردگی کی کڑی نگرانی کی جائے اور مقررہ مدت میں مطلوبہ اہداف حاصل کیے جائیں تاکہ عوام کی جیب سے ٹیکسوں کی صورت میں نکلی ہوئی دولت کے زیادہ سے زیادہ ثمرات لوٹ کر انہی کی طرف آئیں۔
ایک جائزے کے مطابق اس وقت پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں اور جنہیں اسکول کی سہولت میسر ہے، ان میں سے بڑی تعداد پرائمری کی سطح سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ حکومت کو چاہئے کہ تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کم سے کم کرنے اور دیہی و شہری علاقوں میں تعلیم کے معیار کو یکساں طور پر بہتر بنانے کے لیے مؤثر پالیسیاں ترتیب دے کر سنجیدگی سے اس پر عمل درآمد یقینی بنائے۔
سرکاری تعلیمی اداروں بالخصوص اسکولوں کے بارے میں اب یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ ان کا مقصد صرف اور صرف کچھ لوگوں کو ملازمتوں کی صورت میں کھپانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔شہری علاقوں کے اسکولوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں اب بہت کم تعداد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یہ گنے چنے بچے اکثرایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مالی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔اس کے مقابلے میں اب گلی گلی نجی تعلیمی ادارے کُھل رہے ہیں اور ان میں کافی رش بھی دیکھا جارہا ہے ۔ لوگوں کا خیال ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں کو نسبتاً معیاری تعلیم دی جار ہی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ ان سرکاری اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ اپنے بچوں کی تعلیم کے معاملے میں پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں پرا عتماد کرتے ہیں جو افسوس ناک امر ہے۔
دیہی علاقوں کی بات کریں تو مزید بھیانک صورتحال سامنے آتی ہے۔ کم وبیش سبھی صوبوں کے ہزاروں دیہی اسکول بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ کئی اسکول ایسے ہیں جن کا وجود صرف محکمہ تعلیم کی فائلوں میں ہے ۔ان اسکولوں کے اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔
دیہی علاقوں کے اسکولوں کی عمارات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے نہیں بلکہ کھنڈر ہیں ۔جو اسکول کسی نہ کسی درجے میں کام کر رہے ہیں ان کی کارکردگی کا بھانڈا اس وقت پھوٹ جاتا ہے جب ان اداروں کے پڑھے ہوئے طلبہ مزید تعلیم کے لیے شہری علاقوں کے کالجوں کا رخ کرتے ہیں ۔ ان طلبہ میں سے اکثر داخلہ ٹیسٹوں میں ہی ناکامی کے بعد مایوس ہو جاتے ہیں ۔
ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ تعلیم جیسے اہم شعبے کو یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ ہر حکومت انتخابات میں تعلیم کے فروغ اور ایجوکیشن ایمرجنسی نافذ کرنے کے دعوؤں کے ساتھ آتی ہے ۔جب جون کے مہینے میں سالانہ بجٹ بنایا جاتا ہے تو انہیں وہ تمام وعدے بھول جاتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی اور تعلیم کے شعبے سے عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم تعلیم کے لیے سب سے کم بجٹ رکھتے ہیں۔ اس بجٹ سے صرف اساتذہ کی تنخواہیں ہی پوری ہو سکتی ہیں۔تعلیمی شعبے میں نئی پیش رفت کے لیے اس بجٹ میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ اب بجٹ کو لفظوں کا ہیر پھیر اور اعداد وشمارکی ایک بے رنگ سی کہانی سمجھنے لگے ہیں ۔
جب ریاست تعلیم کے شعبے سے غفلت برتتی ہے تو اس سے پورا معاشرتی عمل متاثر ہوتا ہے ۔ہمارے ہاں اب ہر سال ہزاروں طلبہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہو رہے ہیں ۔ ان طلباء میں سے اکثر کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شعبے میں عملی کام سے بالکل نابلد ہوتے ہیں ۔ تعلیمی دورانیے میں انہیں کسی نہ کسی درجے میں نظری ابحاث (Theory)پڑھا دی جاتی ہیں لیکن اس علم کی عملی تطبیق(Practical) کی مشق پر توجہ نہیں دی جاتی جس کے نتیجے میں ان ڈگری بردار نوجوانوں کے کافی عرصہ تک بے زورگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
بہت سے سرکاری تعلیمی اداروں سے جب معیاری تعلیم کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہاں کا اسٹاف سہولیات کی کمی کا شکوہ کرتا ہے۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کو مناسب سہولیات فراہم کرے تاکہ یہ شکایت بھی جاتی رہے اور لوگوں نجی تعلیمی اداروں میں بھاری فیسں ادا کرنے کی بجائے سرکاری تعلیمی اداروں میں پورے اعتماد کے ساتھ اپنے بچوں کو بھیج سکیں ۔
سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے انتظامی امور کو تاحال جدید خطوط پر استوار نہیں کیا۔ کچھ اداروں نے اپنی ویب سائٹس تو بنا دی ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین بھی بھرتی کیے ہیں لیکن جب کسی بھی شخص کو اس ادارے کے متعلق اہم اور بنیادی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے تو اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بہت سی یونیورسٹیوں کی ویب سائٹس کا یہ حال ہے کہ وہ مہینوں سے اپ ڈیٹ نہیں ہوئیں ۔ معمولی قسم کی معلومات لینے کے لیے بھی طلبہ کو دور دراز سے سفر کرکے آنا پڑتا ہے ۔ اس نوع کی غفلت کا سبب صرف اور صرف اداروں میں انتظامی مشینری کا دیانت داری سے اپنے فرائض انجام نہ دینا ہے ۔
رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں بجٹ پیش کیا گیا جس میں جس میں اضافے کی بجائے گزشتہ برس کی نسبت کمی کی گئی۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں کچھ نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے رقم مختص کی گئی ہے اوربتایا گیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ،وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت اوروزارت کیڈ کے تحت 50نئے اور 96جاری تعلیمی منصوبوں کی تکمیل عمل میں لائی جائے گی ۔ان منصوبوں کی شفافیت کو یقینی بنانا اس حکومت کے لیے ایک چینلج ہو گا۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہر سال تعلیمی اداروں میں بہت سا پیسہ کمیشن مافیا کی نذر ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اصل مقصد پورا نہیں ہو پاتا۔اس لیے ضروری ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں (اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں )کے انتظامی شعبوں کی کارکردگی کی کڑی نگرانی کی جائے اور مقررہ مدت میں مطلوبہ اہداف حاصل کیے جائیں تاکہ عوام کی جیب سے ٹیکسوں کی صورت میں نکلی ہوئی دولت کے زیادہ سے زیادہ ثمرات لوٹ کر انہی کی طرف آئیں۔
ایک جائزے کے مطابق اس وقت پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں اور جنہیں اسکول کی سہولت میسر ہے، ان میں سے بڑی تعداد پرائمری کی سطح سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ حکومت کو چاہئے کہ تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کم سے کم کرنے اور دیہی و شہری علاقوں میں تعلیم کے معیار کو یکساں طور پر بہتر بنانے کے لیے مؤثر پالیسیاں ترتیب دے کر سنجیدگی سے اس پر عمل درآمد یقینی بنائے۔