گرمیوں کی چھٹیاں کارآمد بنائیں

طویل تعطیلات میں والدین کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں


مالک خان سیال June 12, 2016
طویل تعطیلات میں والدین کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ فوٹو: فائل

موسم گرما کی چھٹیوں میں طلبہ کو تعلیمی وبا مقصد سرگرمیوں میں مصروف رکھنا ایک اہم ترین ہدف ہے تا کہ چھٹیوں سے پہلے پڑھائے گئے اسباق چھٹیوں کے دوران یا بعد میں بھی ازبر رہ سکیں۔

اساتذہ اور والدین دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعطیلات کے دورانیے کو طلباء کے لیے مفید بنائیں۔ چھٹیوں میں طلبہ کی نگرانی نہ کی جائے تو ان کا منفی قسم کی تفریحی سرگرمیوں میں مصروف ہو جانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔

تعلیمی نفسیا ت میں آموزش کے قوانین کے مطابق ایک اہم قانون (قانون برائے دہرائی Law of Repitition (میںجب تک پڑھائے گئے سبق کو بذاتِ خو د نہیں دہرائیں گے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ لہذا آموزش کے اس اہم قانون کی روشنی میں طلبہ و طالبات کو موسمِ گرما کی چھٹیوں کے دوران بھی اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ منسلک رکھنا بہت ضروری ہے تا کہ چھٹیوں سے پہلے پڑھائے گئے کورسز کو چھٹیوں کے دوران اور بعد میں بھی موثر اور کارآمد بنایا جا سکے ۔

عام طورپرہوم ورک کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ کام جو ایک استاد اپنے شاگردوں کو روزانہ کی بنیاد پر اسباق کے اختتام پر تفویض کرتا ہے اور بعد میں اس کام کی پڑتال بھی کرتا ہے اور اس سے اپنی تدریس اور بچوں کی علمی سطح کا جائزہ لیتا ہے کہ وہ کہاں تک کامیاب ہوا ہے۔

اسکول میں بچوں کو جو کام گرمیوں کی چھٹیوں کے لیے دیاجاتا ہے اس کا مقصدطلباء کی ذہنی قابلیت کو پروان چڑھانا،طلباء کو فارغ اوقات میں مصروف رکھنا، طلباء کی خوشخطی میں بہتری لانا، بچوں کی تحریر میں روانی پیدا کرنا،ان میں احساس ذمہ داری اجاگر کرنا، سکول میں پڑھائے گئے اسباق/ابواب کی دہرائی کاموقع دینا، اپنی نصابی کُتب کے علاوہ بھی معلومات حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنا، طلباء میں تجسس پیدا کرنااور بچوں کی خوداعتمادی میں اضافہ کرناہے۔

گرمیوں کی چھٹیوں کاکام جدید ضروریات اور بچوں کی دلچسپی کے مطابق ہو،سماجی اور معاشرتی امور بارے وضاحت طلب ہو،آسان ہو،دلچسپ ہو، طلباء کی دلچسپی قائم رکھنے والا ہو، مقامی وسائل کے مطابق ہو، ضرورت کے مطابق ہو، طلباء کی عمر سے مطابقت رکھتا ہو، ذہنی سطح کے مطابق ہو، ایسا ہو جس سے خوشگوار اثرات مرتب ہوں، اعلیٰ نتائج فراہم کرنے والا ہو، فطری طور پر بچوں کے ذہنی سطح کے مطابق ہو، سوالات خود بنا کرلکھوائے جائیں (یعنی تحریری صورت میں ہو) اوریہ کام چھٹیوں کے دورانیہ کے مطابق ہو۔نیزچھٹیوں کاکام مقاصدِ تعلیم سے ہم آہنگ ہونا چاہیے اوریہ کام کلاس ورک سے ملتا جلتا ہونا چاہیے تاکہ طلباء آسانی سے کرسکیں۔ اچھے سوالات شامل کیے جائیں، سوالات میں آسان زبان استعمال کی جائے، طلباء کی صلاحیت کے مطابق سوالات شامل کیے جائیں، تمام سوالات آپس میں مربوط ہوںاورصرف ہاں یا ناں میں جواب طلب نہ ہوں۔

طلباء کی ذہنی نشوونما اور علم میں اضافے کے لیے چھٹیوں کاکام بہت اہمیت کاحامل ہے۔ اس کے ذریعے اساتذہ اپنے پڑھائے ہوئے اسباق کاجائزہ لیتے ہیں۔ چھٹیوں کا کام تفویض کرتے ہوئے طلباء کی عمر اور وقت کو ملحوظ خاطر رکھنا بے حد ضروری ہے۔ چھٹیوں کاکام اتنا ہی دیا جائے جتنا بچے مناسب وقت میں بآسانی کرسکیں۔ چھٹیوں کے کام کی اہمیت اور افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے مگر یہ کام مخصوص انداز اور طریقہ سے دیاجائے اور اس کوچھٹیوں کے بعد دوبارہ جانچا بھی جائے توبچے کی تعلیمی نشوونما اور بہتری کے لیے بہت موثر ذریعہ ہے۔ اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

چھٹیو ں میں طلبہ و طالبات کو با مقصد علمی، ادبی اور تفریح سر گرمیوںمیں مصرو ف رکھنا ضروری ہے ۔ اس مقصد کے لیے درج ذیل طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔مطا لعہ کی عادت پیدا کر نے کے لیے لائبریری ممبرشپ دلوائی جا ئے ۔ مختلف لینگوئج کو رسز کا اہتما م کیا جائے۔ کمپیوٹر میں مہارت پیدا کرنے کے لیے کورسز کروائے جائیں۔ خوشخطی کی کلاسز کا انتظام کیا جائے۔ تعلیمی سیر، عجائب گھر، سائنس میوزیم، تاریخی مقامات وغیرہ کا اہتمام کیا جائے۔

معلومات پر مبنی ٹیلی ویژن پروگرامز سب گھر والے مِل کر دیکھیں۔ اخبار بینی کی عادت پیدا کی جائے۔ بچوں میں لکھنے کی عادت پیدا کرنے کے لیے روزانہ ڈائری لکھوانے کا اہتمام کیا جائے۔ چھٹیوں کا ہوم ورک صرف تحریری نہ ہو بلکہ بچوں کو تحقیقی اور تخلیقی پروجیکٹ دئیے جائیں تاکہ ان میں تعلیمی مہارتیں پیدا ہوں۔ سماجی بہبود کے حوالے سے کوئی نہ کو ئی ذمہ داری بچے کو ضرور دی جائے مثلاً گھر کے بزرگ یا بچے کی دیکھ بھال وغیرہ۔

اسکول کے اندر سمر کیمپ کے ذریعے بھی طلبہ و طالبات کو موسمِ گرما کی چھٹیوں میں روزانہ یا ہفتہ وارتعلیمی سر گرمیوں میں مصروف رکھا جا سکتا ہے۔اس سلسلہ میں صبح سے لے کر دو یا تین گھنٹے تک مختلف سر گرمیوں کو سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ طلبہ و طالبات کو روزانہ کی بنیاد پر ٹا ئم ٹیبل تیا ر کر کے بھی دیا جا سکتا ہے ۔تا کہ وہ دن کا مخصوص حصہ صرف تعلیمی سر گرمیوں میں گزار سکیں۔

اس کے علاوہ لکھائی کی مہارت کے لیے انگریزی اور اردو مضامین، سائنس مضامین کے ماڈلز کی تیاری، اخبارات، میگزین اور کتابیں پڑھنا، علم کے اضافے کے لیے معلوماتی پروگرامات دیکھنا، انگریزی کی لکھائی اور بولنے کی مہارت کے لیے انگریزی پروگرامات دیکھنااور چارٹس کی تیاری وغیرہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

استاد اور شاگرد تعلیم یا علم کے پروگرام کے دو لا زمی عنا صر ہیں ۔ایک مثا لی معلم طلبہ کو سکول میں پڑھا نے کے بعد گرمیوں کی چھٹیو ں کے لیے بھی کام دیتا ہے ۔گرمیوں کی چھٹیوں کا کام بچوں کی ضروریات اور دلچسپیوں کے مطابق ہو نا چا ہیے ۔براہ راست کتب سے سوالات کے انتخا ب کی بجائے معلم یا معلمہ خود تخلیقی نوعیت کے سوالات بنا کر طلبہ کو ان کے جوابات تیا ر کر نے کی تر غیب دیں۔جماعت کے طلبہ سے مشاورت کر کے چھٹیوں کا کام تفویض کیا جا ئے اور چھٹیوں کا کام تحریری اور زبانی یاداشت دونوں طرح کا ہونا چا ہیے ۔چھٹیو ں کا کام اتنا زیا دہ نہ ہو کہ طلبہ کی تفریح، آرام و سکون،ذاتی اور گھریلو مصروفیات کا وقت بھی چھین لیا جائے ۔چھٹیوں کا کام سزا کے طور پر نہ دیاجائے۔

گرمیوں کی تعطیلات میں والدین بچوں کی تعلیمی کمزوریوں کو کم سے کم کرنے کے لیے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بہتر منصوبہ بندی کے لیے والدین اساتذہ سے مل کر بچوں کی کمزوریوں کو جاننے کی کوشش ضرور کریں۔ کسی بھی مضمون یا صلاحیت میں کمزوری کے پیش نظر چیک لسٹ بنائی جا سکتی ہے کہ بچے کی چھٹیوں سے قبل صورتحال کیا ہے اور بعد میں رفتہ رفتہ کیا پوزیشن ہو گی۔ کمزوری کے پیش نظر سرگرمیاں ترتیب دی جائیں اور انہیں لاگو کرنے کے لیے نظام الاوقات مرتب کیا جائے۔

والدین یہ ہدف بھی بنائیں کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ناظرہ قرآن بچے کو ہر صورت پڑھانا ہے۔ اس کے لیے صبح اور شام قریبی مسجد یا مدرسے میں بچے کو داخل کروائیں یا خود پڑھائیں۔ موسم کی شدت کے پیش نظر بچے کی صحت کا خیال رکھنا اور گرمی اور دھوپ سے بچانا بھی بے حد ضروری ہے۔اس کے لیے دن کے اوقات میں ان ڈور سرگرمیاں بنائی جائیں اور سہ پہر کے بعد کھیلنے کودنے یا باہر نکلنے پر توجہ دی جائے۔

گرمی میں مشروبات اور سادہ غذا کا شیڈول بنانا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ رمضان کا مبارک مہینہ بھی چھٹیوں کے اندر آ رہا ہے۔ اس حوالے سے والدین بچوں کو روزے رکھنے، درس و تدریس سننے، نماز یں پڑھنے، ذکر و اذکار کرنے، پاک صاف اور با وضو رہنے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور ثواب سمیٹنے کی بھی ترغیب دیں۔روزانہ بنیادوں پر بچوں کو احادیث، آیات، دعائیں وغیرہ کا نصاب بنا کر بچوں کو یاد کرنے کے لیے باقاعدہ ہوم ورک دیں تا کہ اس کا جائزہ بھی لیا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں