جھاڑو پونچھا لگاتے ہاتھوں نے جب تھاما قلم

ایک غریب ہندوستانی عورت بے بی ہیلڈر کی حیران کُن کہانی، جو گھریلو ملازمہ سے ’’مصنفہ‘‘ بن گئی۔


Iqbal Khursheed November 25, 2012
فوٹو: فائل

اِس کہانی کا آغاز ضرور روایتی ہے، پر اختتام۔۔۔غیرمتوقع، بلکہ بڑی حد تک تحیرخیز!

بچپن کا دالان عبور کرنے سے قبل ہی وہ شفقت مادری سے محروم ہوگئی۔ ابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے کہ اُسے ایک سخت گیر آدمی کے کھونٹے سے باندھ دیا گیا، بیاہ کے سمے وہ زندگی کے بارہویں برس میں تھی۔ اگلے برس وہ ماں بن چکی تھی۔

آگے کیا ہوا؟ کیا وہ گھریلو ذمے داریوں کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے بے چہرگی کے المیے کا شکار ہوگئی؟ ایسا المیہ جو اِس خطے کی عورت کے مشترکہ مقدر کا حصہ ہے۔ ایسا ہونا متوقع تو تھا، مگر ایسا ہوا نہیں۔ اپنے بے ترتیب بچپن، بکھرائو کی شکار جوانی اور غربت کے مہیب سایے کو پچھاڑتے ہوئے وہ ہندوستانی ادب کے افق پر ستارہ بن کر چمکی۔ اور ایسی چمکی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ جس کسی نے اِس کارنامے کی بابت سنا، وہ انگشت بہ دنداں رہ گیا۔ اور یہ ردعمل متوقع تھا!!

ایک بے آسرا ماں کے لیے، جو اپنے تین بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے گھریلو ملازمہ کا روپ دھار چکی ہو، بھلا کہاں ممکن تھا کہ وہ برتن مانجھنے، پونچھا لگانے، احکامات بجانے لانے کے مصروف، طویل اور اُکتا دینے والے عمل میں سے کچھ پَل نکال کر مطالعہ کر سکے۔

بے بی ہیلڈر جو زندگی جی رہی تھی، اُس میں کتاب وہ شے تھی، جس کا اُس کے ہاتھ میں نظر آنا تقریباً غیرامکانی تھا۔ اُس کی تلخ زندگی کے بے رنگ شب و روز شاید یونہی گزرتے رہتے کہ اُسے ایسے گھر میں ملازمت مل گئی، جس کے انسان دوست، علم و ادب سے وابستہ مالک، پرمود کمار نے ایک روز اُسے شیلف میں لگی کتابوں سے گرد جھاڑنے کے بجائے، ایک شایق ادب کے مانند اُن میں دل چسپی لیتے دیکھ لیا۔

اُن کے لیے یہ ایک حیران کن امر تھا۔ ایک گھریلو ملازمہ اور کتابیں؟

پرمود کمار نے اِس غریب عورت کو اپنے شیلف میں سجی کتابوں سے دوستی کرنے کی اجازت دے دی۔ چند روز بعد ایک قلم، چند صفحات تھما دیے، اور اپنی زیست کی بابت لکھنے پر اُکسایا۔

کوئی اور ہوتا تو شاید اُوب جاتا کہ پختہ عمر میں کچھ نیا سیکھنا، یاد ماضی کے مانند عذاب ہے، تاہم ہیلڈر کا معاملہ مختلف تھا۔ اس نے اپنی زندگی قلم بند کرنے کی سعی کی، اور اِس پُرپیچ عمل کے لیے ملازمت اور گھر کے جھمیلوں سے آزادی کے بعد میسر آنے والا مختصر وقت وقف کر دیا۔ نتیجہ ایک ایسی کتاب کی صورت سامنے آیا، جس نے نہ صرف ناقدین کو حیران کر دیا، بلکہ عوامی سطح پر بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔

اِس کتاب کی اشاعت کا قصّہ دل چسپ ہے۔ علم بشریات کے ریٹائرڈ استاد، پرمود کمار نے جب بنگلا میں تحریر کردہ اُس کی ابتدائی تحریر دیکھی، تو اُنھیں حیرت نے آلیا۔ اُس میں زندگی دوڑتی تھی۔ اُنھوں نے اپنی ملازمہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یہ سلسلہ جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

چند ماہ بعد ہیلڈر اور پرمود کمار ایک ایسی میز کے سامنے بیٹھے تھے، جس پر دَھرے پلندے پر ایک بکھرا ہوا، مگر متاثر کن ماجرا درج تھا۔ جملوں کو سیدھا کرنے، چست کرنے کی ذمے داری پرمود کمار نے نبھائی۔ پروفیسر نے کچھ اوراق کی فوٹو کاپی کروا کر پبلشنگ کے کاروبار سے نتھی ایک دوست کو بھجوا دی، جسے اِن میں نازی دور میں تحریر کردہ اینا فرینک کی ڈائری سے امکانات نظر آئے۔ مزید لکھنے کا مشورہ دیا گیا۔ یوں دھیرے دھیرے ایک کتاب کے خدوخال ابھرنے لگے۔ پرمود کمار نے بنگلا میں لکھا مسودہ ایک ادبی حلقے کے سامنے رکھا، جس کی جانب سے اِسے پسند کیا گیا۔ یوں اِسے شایع کرنے کا خیال پنپنے لگا۔

2002 میں کلکتہ کے ایک چھوٹے پبلشر نے اِس کا ہندی ترجمہ شایع کیا۔ ردعمل حیران کن رہا۔ یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔ اخبارات کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا نے بھی اِسے خصوصی توجہ دی۔ اگلے دو برس میں اِس کے دو ایڈیشن شایع ہوچکے تھے۔

سب سے زیادہ اِسے خواتین نے پسند کیا، جنھیں لگ بھگ اِن ہی مسائل کا سامنا تھا، جن سے مصنفہ گزری۔ کئی عورتوں نے پُرنم آنکھوں کے ساتھ ہیلڈر سے کہا،''تم نے ہماری کہانی بیان کی ہے۔ ہم نے ٹھیک تمھارے مانند کرب سہا، جو زندگی کو گہنا گیا، ہمارے وجود کا حصہ بن گیا۔ ایسے میں یہ کتاب ہمیں حوصلہ دیتی ہے!''

نقادوں نے اِسے ایک ایسی ادبی تخلیق قرار دیا، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جو زندگی کے روایتی ڈھب پر سوالات اٹھاتی ہے، اُن کھٹنائوں کا ذکر کرتی ہے، جن سے عورت گزرتی ہے۔ ساتھ ہی اِس میں مردوں کے منفی رویوں کا بھی ذکر ملتا ہے، جنھوں نے عورت کو ہمیشہ خود سے کم تر جانا۔ کتاب کی اشاعت کے بعد ایک بڑے اخبار نے اِس پر یوں تبصرہ کیا: ''یقینی طور پر ایک ایسی کہانی، جو زندگی کا روشن پہلو دکھاتی ہے۔''

بنگلا زبان میں اِس کتاب کا عنوان ''اندھیرا اُجالا'' تھا۔ 2005 میں اِسے ملیالم زبان میں ڈھالا گیا۔ وہیں سے اِس خیال نے جنم لیا کہ اِس اُجلی داستان کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے۔ 2006 میں یہ کتاب "A Life Less Ordinary" کے عنوان سے مارکیٹ میں آئی۔ ایک بار پھر اِس نے بیسٹ سیلر ہونے کی روایت برقرار رکھی۔ بین الاقوامی توجہ بھی حاصل کی۔ نیویارک ٹائمز نے ہیلڈر کی تخلیق کو "Angela's Ashes" کا ہندوستانی ورژن قرار دیا۔ واضح رہی کہ1996 میں شایع ہونے والی آئرش نژاد امریکی ادیب، فرینک میکورٹ کی یادداشتیں "Angela's Ashes" نے تہلکا مچا دیا تھا۔ یہ کتاب پلٹزر پرائز کی حق دار ٹھہری تھی۔

بے شک ہیلڈر کی بپتا کا اسلوب، چاہے اُس پر پرمود کمار نے کتنی ہی محنت کی ہو، "Angela's Ashes" سی جادوئی گرفت نہیں رکھتا تھا۔ یہ سادہ اور سلیس تھا، کسی کسی سطح پر کردار نگاری ابہام بھی پیدا کرتی تھی، لیکن اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ محرومیوں کی شکار ہندوستانی عورتوں کے کرب کی بڑی گرفت سے منظر کشی کرتی تھی۔ وہ مسائل بیان کرتی تھی، جو ہندوستان کی سطح پر خال خال ہی موضوع بنے۔ یہی سبب ہے کہ اس کی پزیرائی کا سلسلہ جاری رہا۔

2008 میں ہیلڈر کی خود نوشت کا ترجمہ جرمن زبان میں ہوا۔ اُس نے جرمنی کا سفر بھی کیا، جہاں اُس نے کئی سیمینارز میں شرکت کی۔ آنے والے برسوں میں اِس کتاب کا دائرہ اثر پھیلتا گیا۔ فرانسیسی، کورین اور جاپانی تراجم کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ 2012 آتے آتے اِس کا ترجمہ 21 زبانوں میں ہوچکا تھا، جن میں آدھی سے زاید زبانیں غیرملکی تھیں۔

پہلی ہی کتاب سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والی ہیلڈر کو شہرت کی دیوی تبدیل نہیں کر سکی۔ ستاروں پر کمند ڈالنے والی یہ عورت آج بھی پرمود کمار کے گھر ملازمہ ہے۔ مطمئن ہے۔ خود کو ماسی ہی تصور کرتی ہے، مصنفہ خیال کرتے ہوئے اُسے لجا آتی ہے۔ وہاں آنے والوں کو، چاہے وہ مسٹر کمار کے مہمان ہوں، یا اُس سے ملنے آئے ہوں، پہلے پانی پیش کرتی ہے، پھر چائے کا انتظام کرتی ہے، اِس کے بعد ہی بیٹھتی ہے۔

بنگلا میں بُنی، سادہ پیرائے میں رقم کردہ، جذبۂ ترحمی سے پاک اِس کتاب کا آغاز، ہیلڈر کی دُکھیاری ماں کے ذکر سے ہوتا ہے، جو کروڑوں ہندوستانی خواتین کی مانند مسائل میں گھری نظر آتی ہے۔ مصنفہ نے اپنی ماں کی تھکن، اُس کے تفکرات، اُس کے شوہر کے پُرتشدد رویے کی موثر انداز میں عکاسی کی ہے۔ اُس دن کا ذکر بھی ہے، جب شوہر کے مظالم اور شراب کی لت سے تنگ آکر ماں گھر سے نکلی، اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ اُس نے اپنی بیٹی کو بھی چھوڑ دیا!

38 سالہ، کشمیر میں پیدا ہونے والی ہیلڈر کی کہانی میں اُس وقت ایک پریشان کن موڑ آتا ہے، جب سوتیلی ماں گھر میں قدم رکھتی ہے۔ بے روزگار باپ کی زبان تلخ ہوجاتی ہے، رویہ شدید ہوجاتا ہے، اور گھر میں اذیتوں کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے۔ ہیلڈر نے اُس واقعے کا بھی ذکر کیا، جب اپنی سہیلی کو یہ بتانے پر کہ اُس کے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، ظالم باپ نے مار مار اُس کا حشر نشر کر دیا۔

کشمیر کی سرسبز وادیوں سے نکلنے کے بعد ہیلڈر کا ٹوٹا پھوٹا خاندان مغربی بنگال کے شہر دُرگاپور جا بسا، جہاں اُسے ایک اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ یوں زندگی کے حسین ترین دنوں سے اس کی ملاقات ہوئی۔ مگر اُن دنوں کا سانس مختصر تھا۔ چَھٹی جماعت کے بعد سکڑتے وسائل، بگڑتے حالات اُسے اسکول سے دور لے گئے۔

کتاب میں اُس سانحے کا بھی ذکر ملتا ہے، جب بڑی بہن کی فقط اِس وجہ سے شادی کر دی گئی کہ گھر کا سربراہ اُس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔ اُس تذبذب کا بھی ذکر آتا ہے، جس سے مصنفہ اپنی شادی کے وقت گزری۔ اُسے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تجربہ اپنے ساتھ کیا تبدیلیاں لائے گا۔ اُس لمحے تو وہ فقط سہیلیوں کے ساتھ دالان میں کھیلنے کی خواہش مند تھی۔ ہاں، اُس نے اپنی ایک سہیلی سے یہ ضرور کہا تھا،''اچھا ہے، میری شادی ہورہی ہے۔

اس طرح کم از کم میں پُرتکلف کھانے سے تو لطف اندوز ہو سکوں گی۔'' جس گھر میں افلاس کا ڈیرا ہوا، وہاں کے بچے پُرتکلف دعوت سے زیادہ بھلا کیا سوچ سکتے ہیں، چاہے اِس کے اہتمام کے لیے اُنھیں قربان کیا جارہا ہو!
شادی کی رسوم سے جان چھڑاتے ہی ننھی ہیلڈر پھر اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھر کے دالان میں کھیل رہی تھی۔

رخصتی کے بعد پریشان کن تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا۔ گھریلو ذمے داریاں یک دم کاندھوں پر آن پڑیں، اور شوہر کا رویہ شدید ہوگیا۔ پھر وہ حاملہ ہوگئی۔ چند ماہ بعد تیرہ سالہ ہیلڈر ماں بن چکی تھی۔ اگلے دو برس میں اُس نے مزید دو بچوں کو جنم دیا۔ اِس عرصے میں وہ محلے کے گھروں میں چھوٹے موٹے کام کرتی رہی۔ اور پھر ایک روز، اُس کے ظالم شوہر نے ایک بھاری پتھر اُس کے سر پر دے مارا، صرف اِس لیے کہ اُس نے ہیلڈر کو گائوں کے ایک شخص سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اِس حادثے نے اُس پر سکتہ طاری کر دیا۔ زندگی سُکڑتی محسوس ہونے لگی کہ اُس کی بڑی بہن بھی شوہر کے تشدد کی بھینٹ چڑ چکی تھی، اور اب ہیلڈر کو اپنی زندگی خطرے میں نظر آرہی تھی۔

اُس نے اپنے شوہر سے ناتا توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب جیٹھانی کو پتا چلا، اُس نے سمجھایا، عورت، مرد کے سہارے، سماجی قیود میں زندگی بسر کرتی ہے، یہ غلطی مت کرو! لیکن ہیلڈر کے نزدیک یہ غلطی نہیں، بلکہ غلطی کی دُرستی تھی۔ وہ اپنی راہ کا تعین کر چکی تھی۔

یہ 1999 کا ذکر ہے۔ شوہر کے ہاتھوں ستائی ہوئی 25 سالہ مظلوم لڑکی، ٹرین میں سوار ہوئی اور دہلی پہنچ گئی۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ نے خود کو دہرایا کہ اُس کی ماں نے بھی تو اِسی مانند اپنے شوہر کو چھوڑ دیا تھا! نہیں تاریخ نے خود کو نہیں دہرایا۔ اُس کی ماں نے شوہر کی ساتھ اپنی اولاد کو بھی چھوڑ دیا تھا، لیکن ممتا کے جذبے سے لبریز ہیلڈر کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ دہلی جانے والی ٹرین میں سوار ہوتے وقت تینوں بچے اس کے ساتھ تھے۔

دہلی پہنچنے کے بعد اُس نے ایک کچی بستی کو ٹھکانا بنایا، اور بستی کی بے آسرا عورتوں کی طرح ایسے گھروں کی تلاش میں نکل پڑی، جہاں صفائی ستھرائی کا کام مل سکے۔ متوسط طبقے میں ماسی رکھنے کے رواج کے سہارے گزر بسر کا کچھ امکان پیدا ہوا، مگر گھریلو ملازمہ کا کام سہل نہیں ہوتا، مالکان کے منفی اور سخت گیر رویے کے باعث ہیلڈر کو شدید دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اِسی عرصے بڑا بیٹا، جو ابھی عمر میں چھوٹا ہی تھا، انتہائی قلیل معاوضے کے عوض ملازمتیں کرنے لگا۔ مشکل حالات کے باوجود وہ خواہش مند تھی کہ اولاد تعلیم حاصل کرے۔ سو اُس نے بیٹی اور دونوں بیٹوں کو اسکول میں داخل کروا دیا۔ وقت کی تبدیلی بالآخر ہیلڈر کو گڑگائوں لے گئی، جہاں سابق مُدرّس، پرمود کمار مقیم تھے، جنھوں نے ہیلڈر کو زندگی کی نئی راہ سُجھائی۔

اِس کتاب میں ہیلڈر نے اپنے باپ اور شوہر کو براہ راست مورد الزام نہیں ٹھہرایا، لیکن اُس کی تحریر واضح کرتی ہے کہ وہ اپنی مشکلات کے لیے انھیں ہی قصوروار خیال کرتی ہے۔

ماضی کھنگالتے ہوئے ہیلڈر بتاتی ہے کہ اُس نے یہ کہانی سرونٹ کوارٹر میں بیٹھ کر لکھی، جہاں وقت کی قلت تھی۔ لکھتے سمے وہ یہی سوچا کرتی تھی کہ کسی مخلص، کسی خیرخواہ کے سامنے اپنے دکھ بیان کررہی ہے۔ اِس مشق سے دل ہلکا ہوجاتا۔ اِس عمل کو اُس نے ہمیشہ کتھارسس تصور کیا۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ کل اُسے کوئی پڑھے گا بھی! ہیلڈر کے مطابق عورت کے لیے ایسے نظام میں زندگی گزارنا انتہائی دشوار ہے، جہاں قدم قدم پر اسے دھتکارا جاتا ہے، اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔

جہاں تک انسان دوست پرمود کمار کا تعلق ہے، وہ اِس کتاب کا کریڈٹ لینا پسند نہیں کرتے۔ اُن کا کہنا ہے،''میں نے فقط ہجے اور جملوں کی ساخت دُرست کی۔ رموزواوقاف کے برتائو پر نظر ڈالی۔ غلطیوں کی نشان دہی کی۔ بات یہ ہے کہ ہیلڈر نے تیزی سے سیکھا۔ وقت کے ساتھ غلطیاں کم سے کم ہوتی گئیں۔ چند ہی ماہ بعد اُس کی تحریر میں ربط نظر آنے لگا۔ کاغذ بچانے کے لیے وہ احتیاط سے لکھا کرتی، جس سے تحریر چست ہوتی گئی۔''

آج ہیلڈر گڑگائوں میں اپنے بچوں کے ساتھ مقیم ہے۔ بڑا بیٹا اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا ہے۔ بنگلا میں تحریر کردہ اس کی دوسری کتاب بھی منظر عام پر آچکی، جسے خاصا پسند کیا گیا۔ اِس وقت وہ اپنی تیسری کتاب پر کام کر رہی ہے۔ کتابوں سے ہونے والی آمدنی سے کولکتہ میں ایک گھر بنا لیا ہے، لیکن اُس کا گڑ گائوں چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہیلڈر کا کہنا ہے،''میں لکھتی رہوں گی، اِس سے مجھے خوشی ملتی ہے، لیکن ساتھ ہی ملازمت بھی جاری رکھوں گی، اِسی کے لیے طفیل تو میں نے خود کو پہچانا۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں