جب شوٹنگ کے دوران میںسرپٹ دوڑتے گھوڑے سے گرپڑی
میں دریا میں ڈبکیاں کھارہی تھی اور ڈائریکٹر سمجھ رہا تھا کہ سین میں حقیقت کا رنگ بھر رہی ہوں۔
معروف اداکارہ بہاربیگم کا فلمی سفر پچاس برس سے زاید عرصہ پر محیط ہے۔
1956 ء میں پنجابی فلم ''چن ماہی'' سے ان کے فلمی کیریر کا آغاز ہوا۔ اردو اور پنجابی فلموں میں مختلف النوع کرداروں کے ذریعے انہوں نے بہترین اداکارہ کی حیثیت سے خود کو منوایا۔ فلموں میں وہ ہیروئن کی حیثیت سے بھی جلو گر ہوئیں، مگر کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر انہیں زیادہ مقبولیت ملی۔ مختلف پنجابی فلموں میں سلطان راہی کی ماں کا کردار بھی ان کی وجہِ شہرت رہا۔ فلم انڈسٹری میں ورسٹائل اداکارہ کے طور پر مشہور بہار نے اپنی فلمی یادوں میں سے جودو واقعات ہمیں سنائے، وہ کچھ یوں ہیں:
ریاض شاہد مرحوم کی فلم ''ایک تھی ماں'' کی شوٹنگ کے دوران گھوڑے سے گر کر زخمی ہونا ایسا واقعہ ہے، جس کی یاد ذہن میں آج بھی تر و تازہ ہے۔ ایک سین میں سدھیر صاحب کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھی اور وہ سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ اچانک وہ بیٹھ گیا اور اس کا منہ زمین سے لگا تو بے قابو ہوگیا۔ سدھیر صاحب نے گھوڑے کو اٹھانے کے لیے لگام زور سے کھینچی تو وہ ٹوٹ گئی، جس سے وہ اور میں سنبھل نہ سکے اور دھڑام سے نیچے گرے۔
زمین پر تیزی سے گرنے سے میرا دایاں گال زمین سے رگڑ کھا گیا اور میرا چہرہ بری طرح چِھل گیا۔ جنگل کی زمین خاصی سخت ہوتی ہے، اس لیے بھی زیادہ رگڑ لگی۔ میرا نیا نیا فلمی کیریر تھا۔ مجھے اب یہ پریشانی درپیش تھی کہ چہرے پر نشان باقی رہ گیا تو کیا ہوگا۔ ڈاکٹر نے علاج شروع کردیا۔ دوا وہ نہیں لگاتے تھے، کیوںکہ اس سے نشان رہ جانے کا خدشہ تھا۔ ڈیڑھ ماہ میں زیر علاج رہی تب کہیں جاکر زخم ٹھیک ہوا اور چہرہ داغ سے محفوظ رہا۔
اس سارے عرصے میں بہت زیادہ کرب میں مبتلا رہی۔ ہر وقت اپنے چہرے کے بارے میں فکر دامن گیر رہتی۔ یوں سمجھیے کہ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ یوں کٹا جیسے ڈیڑھ برس ہو۔ سدھیر صاحب کے بارے میں بتادوں کہ وہ بہت اچھے گھڑ سوار تھے، مگر جب حادثہ ہونا ہو، ہو ہی جاتا ہے۔ گھوڑا خاصا تنومند تھا اور سدھیر صاحب کے دوست کا تھا۔ یہ واقعہ واہ کینٹ کے قریب ایک گائوں میں شوٹنگ کے دوران پیش آیا۔ اس کے علاوہ جو دوسرا واقعہ میرے حافظے میں ہمیشہ محفوظ رہا۔ اس کا قصہ بھی میں بیان کردیتی ہوں۔
فلم ''دو راستے'' میں اعجاز درانی کے ساتھ سین چل رہا تھا۔ وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو میں ان کے پیچھے بھاگتی ہوں، کشتی چل پڑی اور مجھے اندازہ نہیں ہوپایا کہ دریا آگیا ہے۔ دریا شروع ہونے سے پہلے جو چکنی مٹی ہوتی ہے، اس میں میرا پائوں پھسل گیا اور میں دریا میں جاگری اور ڈبکیاں کھانے لگی، میرے اوسان خطا ہونے لگے۔ ڈائریکٹر سمجھ رہا تھا کہ میں سین کی ڈیمانڈ کے مطابق کردار میں حقیقی رنگ بھر رہی ہوں۔ یہ تو خدا بھلا کرے ادھر موجود ٹیکنیکل اسٹاف کے کسی رکن، غالباً لائٹ مین کا، جس کو گمان گزرا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے، تو اس نے دریا میں چھلانگ لگائی اور مجھے بڑی مشکل سے وہ کنارے تک لایا۔ وہ اگر معاملے کی نزاکت کا احساس نہ کرتا تو جانے کیا ہوجاتا۔ اس واقعے کے بارے میں سوچتی ہوں تو آج بھی دل لرز جاتا ہے۔ یہ واقعہ میانوالی میں کالا باغ کے علاقے میں شوٹنگ کے دوران پیش آیا تھا۔
1956 ء میں پنجابی فلم ''چن ماہی'' سے ان کے فلمی کیریر کا آغاز ہوا۔ اردو اور پنجابی فلموں میں مختلف النوع کرداروں کے ذریعے انہوں نے بہترین اداکارہ کی حیثیت سے خود کو منوایا۔ فلموں میں وہ ہیروئن کی حیثیت سے بھی جلو گر ہوئیں، مگر کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر انہیں زیادہ مقبولیت ملی۔ مختلف پنجابی فلموں میں سلطان راہی کی ماں کا کردار بھی ان کی وجہِ شہرت رہا۔ فلم انڈسٹری میں ورسٹائل اداکارہ کے طور پر مشہور بہار نے اپنی فلمی یادوں میں سے جودو واقعات ہمیں سنائے، وہ کچھ یوں ہیں:
ریاض شاہد مرحوم کی فلم ''ایک تھی ماں'' کی شوٹنگ کے دوران گھوڑے سے گر کر زخمی ہونا ایسا واقعہ ہے، جس کی یاد ذہن میں آج بھی تر و تازہ ہے۔ ایک سین میں سدھیر صاحب کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھی اور وہ سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ اچانک وہ بیٹھ گیا اور اس کا منہ زمین سے لگا تو بے قابو ہوگیا۔ سدھیر صاحب نے گھوڑے کو اٹھانے کے لیے لگام زور سے کھینچی تو وہ ٹوٹ گئی، جس سے وہ اور میں سنبھل نہ سکے اور دھڑام سے نیچے گرے۔
زمین پر تیزی سے گرنے سے میرا دایاں گال زمین سے رگڑ کھا گیا اور میرا چہرہ بری طرح چِھل گیا۔ جنگل کی زمین خاصی سخت ہوتی ہے، اس لیے بھی زیادہ رگڑ لگی۔ میرا نیا نیا فلمی کیریر تھا۔ مجھے اب یہ پریشانی درپیش تھی کہ چہرے پر نشان باقی رہ گیا تو کیا ہوگا۔ ڈاکٹر نے علاج شروع کردیا۔ دوا وہ نہیں لگاتے تھے، کیوںکہ اس سے نشان رہ جانے کا خدشہ تھا۔ ڈیڑھ ماہ میں زیر علاج رہی تب کہیں جاکر زخم ٹھیک ہوا اور چہرہ داغ سے محفوظ رہا۔
اس سارے عرصے میں بہت زیادہ کرب میں مبتلا رہی۔ ہر وقت اپنے چہرے کے بارے میں فکر دامن گیر رہتی۔ یوں سمجھیے کہ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ یوں کٹا جیسے ڈیڑھ برس ہو۔ سدھیر صاحب کے بارے میں بتادوں کہ وہ بہت اچھے گھڑ سوار تھے، مگر جب حادثہ ہونا ہو، ہو ہی جاتا ہے۔ گھوڑا خاصا تنومند تھا اور سدھیر صاحب کے دوست کا تھا۔ یہ واقعہ واہ کینٹ کے قریب ایک گائوں میں شوٹنگ کے دوران پیش آیا۔ اس کے علاوہ جو دوسرا واقعہ میرے حافظے میں ہمیشہ محفوظ رہا۔ اس کا قصہ بھی میں بیان کردیتی ہوں۔
فلم ''دو راستے'' میں اعجاز درانی کے ساتھ سین چل رہا تھا۔ وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو میں ان کے پیچھے بھاگتی ہوں، کشتی چل پڑی اور مجھے اندازہ نہیں ہوپایا کہ دریا آگیا ہے۔ دریا شروع ہونے سے پہلے جو چکنی مٹی ہوتی ہے، اس میں میرا پائوں پھسل گیا اور میں دریا میں جاگری اور ڈبکیاں کھانے لگی، میرے اوسان خطا ہونے لگے۔ ڈائریکٹر سمجھ رہا تھا کہ میں سین کی ڈیمانڈ کے مطابق کردار میں حقیقی رنگ بھر رہی ہوں۔ یہ تو خدا بھلا کرے ادھر موجود ٹیکنیکل اسٹاف کے کسی رکن، غالباً لائٹ مین کا، جس کو گمان گزرا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے، تو اس نے دریا میں چھلانگ لگائی اور مجھے بڑی مشکل سے وہ کنارے تک لایا۔ وہ اگر معاملے کی نزاکت کا احساس نہ کرتا تو جانے کیا ہوجاتا۔ اس واقعے کے بارے میں سوچتی ہوں تو آج بھی دل لرز جاتا ہے۔ یہ واقعہ میانوالی میں کالا باغ کے علاقے میں شوٹنگ کے دوران پیش آیا تھا۔