موت نے جیسے ہمارا گھر دیکھ لیا تھا ایک کے بعد ایک تین بھائی دنیا سے چلے گئے
نمازِعید ہتھکڑی پہن کر پڑھی غزل میں جدت لانے والے شاعر حسن عباس رضا کی رودادِ غم۔
حسن عباس رضا کو ادب سے دل چسپی رکھنے والے حضرات غزل میں جدت پیدا کرنے کے حوالے سے جانتے ہیں۔
ان کی اب تیرہ مختلف کتب شایع ہو کر ارباب علم و ادب سے داد وصول کر چکے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شاعری گہرے غم سے لبریز ہے۔ یہ غم کہاں سے در آیا۔ اس کا سراغ قارئین کو ان واقعات سے ملے گا۔ جو انہوں نے ''میں بھلا نہ سکا'' کے سلسلہ میں گفت گو کرتے ہوئے سنائے:
''ہم چھے بہن بھائی ہیں۔ جن میں پانچ ہم بھائی تھے اور ایک ہماری بہن۔ اس جان کاہ واقعے کو ایک عرصہ گزر گیا، مگر میرے دل و دماغ پر ایسے چھایا ہوا ہے جیسے کل کا واقعہ ہو۔ ویسے بھی دل پر لگے زخم تازہ ہی رہتے ہیں۔ انسان ان کو بھلانے کی جتنی بھی کوشش کرے، مگر ناکام رہتا ہے۔ میرا ایک جواں سال بھائی روزگار کے سلسلے میں کیوبا گیا۔ میں اب آپ کو کیسے بتائوں کہ ہم نے کتنی خوشیوں سے اسے رخصت کیا تھا۔
وہ وہاں جا کر سیٹ ہو گیا۔ بڑا اچھا روزگار تھا۔ وہاں ایک دن اس کا ایک بھارتی سے جھگڑا ہو گیا۔ جس نے اشتعال میں آ کر اسے چاقو سے شدید زخمی کر دیا۔ یہ گہرے زخم جان لیوا ثابت ہوئے اور اس کا انتقال ہو گیا، جس کی اطلاع ہمیں فون پر دی گئی۔ یہ خبر ہمارے گھر پر بجلی بن کر گری، لمحوں میں قیامت صغریٰ برپا ہو گئی، کیا اذیت ناک لمحے تھے۔ بہن اور ماں کے رونے کی آواز ہمارا سینہ چیرے جاتی تھی۔ یہ قیامت کا منظر 29 دنوں پر پھیل گیا کہ 29 دن بعد اس کی لاش اسلام آباد ایرپورٹ پر ہمارے حوالے کی گئی۔ ماں جواں بیٹے کے ماتھے پرسہرا باندھنے کے خواب دیکھ رہی تھی، سب خواب کرچی کرچی ہوگئے۔ سہرے کے پھول جواں لاش پر ڈالنے پڑے۔
بہن اپنے بھائی کی لاش سے لپک کر آہ و بکا کر رہی تھی۔ ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے پگھلتا ہوا سیسہ ہمارے کانوں میں انڈیلا جا رہا ہے۔ ان دنوں لگ رہا تھا کہ ہمارے گھر کے در و دیوار بھی نوحہ کناں ہیں۔ تعزیت کرنے والے آتے اور رو رو کر اس اذیت کے طوفان کی شدت میں مزید اضافہ کرتے تھے۔
کچھ عرصہ بعد اس بھائی سے بڑا بھائی عزیز و اقارب سے مل کر آ رہا تھا کہ راستے میں موٹر سائیکل کا الم ناک حادثہ ہوا اور وہ گرتے ہی مالک حقیقی سے جا ملا۔ یہ ہمارے خاندان کو دوسرا دھچکا تھا۔ وہ سارا منظر پھر برپا ہوا۔ ان جاں کاہ واقعات کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ تیسرا بھائی ہارٹ اٹیک میں جاں بحق ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ موت کی دیوی نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ وہ اپنی پیاس ہمارے خاندان کے لہو سے بجھا رہی ہے۔
آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہماری والدہ تین جواں سال بیٹوں کی موت سے کس کیفیت سے دوچار ہوئی ہوں گی۔ ایسا لگتا تھا کہ صدمات نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔ گھر کے تمام افراد ایک خوف ناک اداسی کے سمندر میں ڈوبے رہتے۔ کسی سے بات نہ کرتے کہ کس کا سینہ زخموں سے چور نہیں تھا، گھر میں ہر سو اداسیوں کے ڈیرے تھے۔
ماں بیٹوں کو یاد کرکے ہر وقت روتی رہتی تھی۔ انہیں دیکھ کر ہماری آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی۔ میں اندر سے اتنا ٹوٹ گیا تھا، کہ سوچتا تھا کہ میں اب کیسے جُڑ سکوں گا۔
مجھے ملازمت ملی خوشی تو جیسے ہم سے روٹھ گئی ہو۔ ملازمت اطمینان قلب کا باعث ضرور بن رہی تھی۔ یہ 1982 کا واقعہ ہے۔ پہلے دن ڈیوٹی پر حاضر ہوا۔ مجھے وہیں پتا چلا کہ آرمی اور پولیس نے ہمارے گھر چھاپا مارا ہے۔ جیسے تیسے گھر پہنچا تو پتا چلا کہ پولیس میری بہت سی قیمتی کتابیں اور ''خیابان'' کے تمام شمارے اٹھا کر لے گئی ہے۔ ''خیابان'' کے نام سے ہم نے ایک ادبی مجلہ نکالا تھا۔ اس میں احمد فراز مرحوم کی ایک نظم شایع کی تھی ، جو اس وقت کے آمر حکم راں جنرل ضیاء الحق کو گراں گزری، جس کی پاداش میں یہ تمام کارروائی عمل میں لائی گئی۔
پولیس میرے بوڑھے باپ کو ساتھ لے گئی۔ کہہ گئی کہ جب حسن عباس رضا پیش ہو گا، انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ میں یہ سن کر خود تھانے میں پیش ہو گیا۔ مجھے حوالات میں بند کر دیا گیا، لیکن میرے والد محترم کو رہا کر دیا گیا۔ میں چودہ دن حوالات میں رہا۔ اس دوران عید آئی۔ نمازِ عید میں نے ہتھکڑی پہن کر پڑھی، کہ پولیس کا یہی تقاضا تھا۔ میری گرفتاری پر دوست احباب اور ترقی پسند بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تمام احباب نے بہت سرگرمی دکھائی، پھر میری ضمانت ہو گئی۔ حوالات سے رہائی ملی، گو یہ واقعہ پہلے واقعات جیسا اذیت ناک نہیں۔ لیکن ناقابل فراموش یقیناً ہے کہ چودہ دن بہت ہی کرب ناک گزرے۔