بے روزگاری سے جنگ آزما

’’گئیر‘‘درمنداورباہمت نوجوانوں کی تنظیم،جو بلاسودقرضوں کے ذریعےمستحق افرادکو اپنے پیروں پرکھڑا ہونےمیں مدد دے رہی ہے

’’وصولی کی شرح 95 فی صد ہے، اب تک 350 افراد کو قرضے دے چکے ہیں‘‘ تنظیم کے بانی عمر جاوید اندھیروں میں دیپ جلاتی اپنی جدوجہد کی کہانی سناتے ہیں۔ فوٹو: فائل

کوئی خبر زندگی بدل سکتی ہے؟

آج خبروں کے سمندر میں جہاں ہر پَل ''بریکنگ نیوز'' مختلف چینلز کی زینت بنتی رہتی ہیں، مسابقت کی میراتھون دوڑ میں سب اوّل آنے کے لیے بے تاب ہیں، ہر پل، اِک نئی خبر، اور خبروں کی تلاش میں ہر وقت ہلکان و سرگرداں ہمارے صحافی۔ ہر طرف خبریں ہی خبریں، اطلاع ہی اطلاع، پھر یہ سوال تو بجا ہے ناں کہ کوئی خبر زندگی بدل سکتی ہے؟

ہاں زندگی بدل سکتی ہے کوئی خبر، جی چھوٹی سی ایک خبر، جسے عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے، بدل دیتی ہے کچھ لوگوں کا جیون، لیکن ان کا جیون دھارا موڑ دیتی ہے۔ جن کے سینے کے پنجر میں گوشت کا ایک دھڑکتا ہوا لوتھڑا ہی نہ ہو۔ وہ تو سب کے ہوتا ہے، جو دل ہو، دلِ زندہ، جو حساس ہوں، صرف اپنے لیے ہی زندہ نہ ہوں، اپنے لیے ہی آسائشیں وسہولیات کے خواہاں نہ ہوں، وہ سب کا سوچیں، کچھ کر گزرنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہوں، جو صرف تقریریں نہ کریں، میدانِ عمل میں اُترنے اور پھر کھڑے رہنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، وہ اندھیروں کی شکایت کے بجائے اپنے حصے کا چراغ روشن کریں۔

وہ جب میدانِ عمل میں اُتریں تو کوئی طعنہ، کوئی دھمکی، کوئی خیال اُن کا راستہ نہ روک سکے۔ ہاں! ایسے ہی دردمند و دل فگار، نادروکم یاب لوگوں کی زندگی بدل ڈالتی ہے، بس کوئی چھوٹی سی خبر، اور پھر یہ تو ہم ایسوں کے لیے چھوٹی سی خبر تھی، ان کے لیے تو زندگی و موت کا مسئلہ بن گئی، راتوں کی نیند اور دن کا چین اُڑا کر لے گئی، اس نے خبر سنی اور پھر میدانِ عمل میں کُود گیا۔ جاننا چاہتے ہیں کیا تھی وہ خبر۔۔۔۔۔؟ آئیے! عمر جاوید سے سنتے ہیں، جو

GEAR گیئر (Generating Employment Alternative For Selfe Reliance) یعنی ''فراہمی متبادل روزگار برائے خود انحصاری'' نامی ایک تنظیم کے روح رواں ہیں۔ یہ تنظیم بے روزگار افراد کو غیرسودی قرضے فراہم کرکے اندھیری زندگیوں میں چراغ روشن کررہی ہے۔

عمرجاوید ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے ہیں، وہ ایم بی اے ہیں، جوانِ رعنا اور ''ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند'' کی تصویر وتعبیر۔ عمر جاوید کہتے ہیں، میں نے ایک خبر دیکھی کہ ایک مفلوک الحال، بے روزگار شخص نے غربت و بے روزگاری کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر اپنے بچے ایدھی سینٹر کے حوالے کردیے۔ میں نے یہ خبر دیکھی اور بے چین ہوگیا اور سوچنے لگا کہ کیا قیامت یہی نہیں ہے، اپنے لخت جگر ، وہ بچے جن کا خواب والدین دیکھتے ہیں، جن کی مسکراہٹ سے زندگی پاتے ہیں۔

جن کی معصوم شرارتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جن کے لیے محنت و مشقت کرتے ہیں، وہ بچے کوئی کیسے کسی کے سپرد کرسکتا ہے؟ لوگ تو اپنے بچے کو اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں، خود بھوکے رہتے اور بچوں کو کھلاتے پلاتے ہیں، ان کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں، خود کو تکلیف میں ڈال کر ان کے لئے راحت کا سامان کرتے ہیں، کیسے کوئی اپنے بچے کسی کے حوالے کرسکتا ہے؟ وہ بچے ، جو اگر پل بھر کے لیے نظروں سے اوجھل ہوجائیں، تو ان کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔

کوئی کیسے کرسکتا ہے انہیں کسی کے بھی حوالے؟ لوگ تو اپنے عزیز ترین رشتے داروں کے حوالے بھی نہیں کرتے، کجا کہ کسی سینٹر کے حوالے کردیں۔ بس میں ان اسباب پر سوچنے لگا۔ میں نے ٹھان لی تھی کہ جو کچھ ہوسکا کر گزروں گا۔ میں نے یہ خبر اور اپنے تاثرات اپنے استاد ایم اخلاق احمد کو ای میل کردیں۔ اخلاق صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ یہ ہمارے معاشرے میں کیا ہورہا ہے؟ ہمیں واقعی کچھ کرنا چاہیے۔ میں اور اخلاق صاحب دونوں ہی بزنس پڑھاتے ہیں،بلکہ میں نے تو ان سے پڑھا بھی ہے، تو ہم نے سوچ بچار شروع کیا کہ کیا کیا جائے۔ یہاں اور بھی بہت سے ادارے ہیں جو فلاح و بہبود کے کام کرتے ہیں، کوئی بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے، کوئی راشن فراہم کرتا ہے اور ان اداروں کا وجود غنیمت ہے، ورنہ تو ہمارے سماج کی حالت نہ جانے کتنی ابتر ہوتی۔

ہم نے سائنسی بنیادوں اور جدید معاشی اصولوں پر سوچنا شروع کیا۔ اخلاق صاحب تو پہلے بھی اس طرح کے کام کر رہے تھے، لیکن ہم نے انہیں مربوط کرنے کا فیصلہ کیا، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کسی کو بھیک دینے کے بجائے انہیں قرضِ حسنہ دیں، انہیں کاروبار کرنے کا طریقہ بتائیں، انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں، ہم نے پہلے مرحلے کا آغاز کیا، اخلاق صاحب نے کورنگی میں پانچ ایسی خواتین تلاش کیں جو سلائی کا کام جانتی تھیں، لیکن ان کے پاس سلائی مشینیں نہیں تھیں۔ ہم نے اپنے دوستوں سے پچاس ہزار روپے جمع کیے اور انہیں سلائی مشینیں لے کر دیں، لیکن ساتھ ہی ہم نے انہیں پابند کیا کہ وہ یہ رقم آسان اقساط میں واپس بھی کریں گی۔

ان خواتین نے دو ماہ بعد اپنی قسطیں باقاعدہ ادا کرنا شروع کیں اور ان کا کام بھی شروع ہوگیا، جس سے ہمیں حوصلہ ملا کہ اس کام کا دائرہ ہمیں بڑھانا چاہیے۔ ہمارا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ کسی کی بھی عزتِ نفس کو پامال کیے بغیر اُس شخص کو اپنے پاؤں بن کر کھڑا ہونا سکھائیں اور اس قابل بنائیں کہ وہ بجائے خود مانگنے کے دوسروں کو دینے کے قابل ہوسکے۔ ہم نے اپنا یہ نظریہ اپنے دوستوں کو بتایا اور کچھ لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ فنڈز بھی ہم خود ہی اپنی جیب سے جمع کر رہے تھے۔ ہمارا خواتین کو مشینیں خرید کردینے کا تجربہ کام یاب رہا تھا۔ ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا، سب نے اپنی تن خواہ میں سے کچھ رقم اس کام کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں کام چلنے لگا۔

ہم نے اپنے دوستوں پر انحصار کیا اور انہوں نے ہمیں مایوس نہیں کیا۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ کام بہت زیادہ پھیل جائے گا۔ ابتدا میں ہم نے پانچ خواتین کو روزگار فراہم کیا اور یہ سات ہوگئیں، پھر دس افراد ہوگئے۔ جب ہم کسی کی مدد کرتے تھے تو اپنے دوستوں کو بتاتے تھے کہ یہ ٹھیلا یا کیبن یا کوئی مشین فلاں شخص کو خرید کردی ہے۔ اس سے ہمارا اعتبار قائم ہوتا چلا گیا، لیکن پھر دوسری طرف قرضِ حَسنہ لینے والوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو ہمیں زیادہ رقم کی ضرورت پیش آنے لگی۔ پھر ہم نے اپنی ازسرِ نو تنظیم کی اور اس کا نام G.E.A.R رکھا۔

دراصل یہ نام میری ایک ہم جماعت مریم حسین نے رکھا تھا، جسے ہم سب نے پسند کیا۔ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلینج اصل حق دار کی تلاش تھی، جو واقعی مستحق ہو، محنتی ہو اور اپنے حالات بدلنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہو۔ اس پیسے کو درست استعمال کرکے قسطوں میں اصل رقم بھی واپس کردے اور اپنے حالات بھی بدل ڈالے۔ اس لیے کہ پھر یہی رقم جو اس نے لوٹائی ہے کسی اور مستحق کے کام آسکے۔ ابتدا میں جب کام شروع کیا تھا تو کورنگی کے مستحق افراد کو روزگار فراہم کرنے میں مدد کی۔

ایک سال کے بعد ہم نے دیگر علاقوں میں بھی مستحق افراد کی تلاش شروع کردی۔ ایک صاحب جو سرجانی ٹاؤن میں رہتے تھے، انہوں نے کچھ لوگوں کی نشان دہی کی کہ مستحق ہیں، وہ لوگ دیکھنے میں واقعی مستحق لگتے تھے۔ ہم نے انہیں قرض فراہم کیا، لیکن بدقسمتی سے وہ سب لوگ رقم لے کر بھاگ گئے، ہمارے تقریباً ڈھائی لاکھ روپے ڈوب گئے، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری، ہم نے غلطی کی تھی، سو ہم نے اپنی غلطی سے سیکھا۔ بڑے کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنی غلطیوں سے کچھ سبق حاصل کرے تو وہ غلطی نہیں ہوتی۔ اپنی اس غلطی سے سبق سیکھا اور اپنا معیار بدلا۔

اب اگر کسی کو قرضِ حَسنہ درکار ہوتا ہے تو ہم یا ہمارے رضاکار خود سروے کرتے ہیں، پھر مطمئن ہونے کے بعد ایک فارم پُر کرواتے ہیں اور اُس پر ایک ضمانتی بھی لیتے ہیں، جو اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ اگر قرض دار نے رقم واپس نہیں کی تو وہ ادا کرے گا۔ دوسرا ہم نے نقد رقم کے بجائے خود اس کی پسند کا کام ، جیسے کیبن، ٹھیلا یا کوئی مشین، خود خرید کر دینا شروع کی۔ ہمیں یہ اس لیے بھی کرنا پڑا کہ فنڈز ہمارے دوستوں کی امانت ہے اور اسے صحیح جگہ استعمال کرنا ہماری ذمے داری۔ اس طریقۂ کار سے ہم نے اپنے پروگرام کو مزید محفوظ اور معتبر بنالیا۔

اب ہم مستحق افراد کو تلاش نہیں کرتے بلکہ وہ خود رابطہ کرتے ہیں۔ طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ جیسے میں پڑھاتا ہوں تو میرے شاگردوں کو معلوم ہے کہ میں یہ کام کرتا ہوں ۔ اس طرح ہمارے رضاکار اور ممبرز کو بھی لوگ جانتے ہیں کہ ہم یہ کام کرتے ہیں، تو مستحق افراد ان افراد کے توسط سے آتے ہیں اور وہ ان کے اپنے علاقوں کے رہائشی ہوتے ہیں۔ پہلے ہم مستحق افراد کے مکمل انٹرویوز کرتے ہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، کیا اس کا تجربہ بھی ہے؟ جب ہم مطمئن ہوجاتے ہیں، پھر اسے روزگار فراہم کرتے ہیں، نہ صرف روزگار بلکہ اس کی راہ نمائی اور کونسلنگ بھی کرتے ہیں۔

اب ہم تیس ہزار روپے تک فراہم کرتے ہیں۔ اس میں اُسے کوئی اپنا کام بھی کرنا ہوتا ہے، آپ کہیں گے کہ یہ رقم موجودہ دور میں بہت کم ہے، لیکن ہم اب ابتدائی مراحلہی میں ہیں، لیکن تیس ہزار سے کوئی کیبن، کوئی ٹھیلا یا کوئی مشین خریدی جاسکتی ہے۔ جب وہ شخص پہلے لی ہوئی رقم واپس کردیتا ہے تو ہم اُسے کاروبار کے لیے مزید فنڈ فراہم کردیتے ہیں۔ اس طرح بہ تدریج وہ اپنا کاروبار مستحکم کرتا چلا جاتا ہے۔

ہم اب تک تقریباً 350 ایسے مستحق افراد کو روزگار فراہم کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ آپ انہیں 350 افراد نہ سمجھیں، یہ دراصل 350 خاندان ہیں، جو اس فرد پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم اپنے لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ محنت ، ایمان داری سے کام کریں۔ ناپ تول پورا رکھیں اور ہر چیز حفظانِ صحت کے اصولوں پر بنائیں ۔ اس طرح ان کا کاروبار مزید ترقی کرے گا۔ ہمیں خوشی ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں، جس سے ایک مثبت رجحان بھی فروغ پارہا ہے۔ ہمارے قرض کی واپسی کی شرح اس وقت 95% فی صد ہے، جس پر ہم قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ صد فی صد ہوجائے گی۔

حکومتی ضوابط اتنے سخت کردیے گئے ہیں کہ ہمیں اپنی تنظیم کا بینک اکاؤنٹ کھولنے میں ڈھائی سال کا عرصہ لگا۔ تقریباً تین ماہ پہلے ہی ہماری تنظیم باقاعدہ رجسٹر ہوئی ہے۔ اب ہمارا کام پہلے سے زیادہ مربوط ہوگیا ہے۔ ہم ہر سال اپنے حسابات آڈٹ بھی کرائیں گے۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے فلاح و بہبود کے کام کرنے میں بھی خاصی مشکلات ہیں۔ حکومتی ضابطے بھی سخت ہیں، ان ضوابط کو آسان ہونا چاہیے، ہمارا سارا عملہ رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیتا ہے۔ اس لیے ہمارے تنظیمی اخراجات صفر ہیں۔ اب تک ہم صرف کراچی میں کام کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ کراچی کتنا بڑا شہر ہے۔

اس شہر میں کتنے مسائل ہیں، اب تک تو ہم صرف کراچی کے چند علاقوں میں کام کرسکے ہیں، انشاء اﷲ مستقبل میں ہم بہت آگے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ہم سُرخ رو رہے۔ ہم نے ابتدا میں کورنگی میں ایک چھوٹی سی دکان لی اور اس پر اشتہار لگایا کہ قرضِِ حسنہ کے لیے ہم سے رجوع کریں۔ بس پھر کیا تھا ہمیں فون پر دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں، پیسوں کا تقاضا کیا جانے لگا، اور ہم نے فوراً ہی وہ دکان نما دفتر بند کردیا، ہمیں کہا جانے لگا،''ہم آپ کو جانتے ہیں، کہ آپ کہاں رہتے ہیں، کن راستوں سے گزرتے ہیں، ہمیں پیسے دو۔'' سیدھی سی بات ہے، ہم نے اس کا مقابلہ کیا۔

یہ دوسری بات ہے کہ ہمیں مشکلات تو پیش آئیں، ہمارے ہاں تو کوئی اچھا کام کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ ہم اپنے لوگوں سے رابطے اور اپنے کام کی تشہیر و ترویج کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ ہے۔ پھر فیس بُک پر ہم ہیں، ہمیں کبھی فنڈ کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہم اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں کہ اتنے فنڈ کی ضرورت ہے، آپ یقین مانیے کہ بس کچھ ہی دیر بعد مطلوبہ فنڈ جمع ہوجاتا ہے۔ ہماری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جنہیں ہمارے کام کے بارے میں معلوم ہوا۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ کو جتنا فنڈ درکار ہو ، مجھے بتا دیا کریں، بس شرط یہ ہے کہ ہمارا ایک آدمی آپ کے ساتھ ہوگا۔ ہم نے انہیں ہی جنرل سیکریٹری بنادیا۔

وہ حامد علی صدیقی تھے۔ وہ ہمارے بہت اچھے معاون ہیں، ہم ان کے مشوروں سے مستفید بھی ہوتے ہیں، ہمارے لوگ بہت اچھے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنا اعتبار قائم کیا جائے۔ ہم سب پروفیشنلز ہیں، جدید معاشی و سماجی اور مارکیٹ کی صورت حال کے مطابق ہم کام کر رہے ہیں۔ اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ ہمارے سماج میں بہت بڑی تعداد اچھے لوگوں کی ہے بس انہیں مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم مستقبل میں دیگر اداروں کے ساتھ بھی تعاون کریں گے، جہاں ہماری ضرورت ہوگی، ہم ضرور پہنچیں گے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے، ہم اس بے روزگاری کے اندھیرے کو ضرور پسپا کرکے رہیں گے۔ ہماری خواہش ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے کوئی خودکشی نہ کرے، اپنے بچے کسی سینٹر کے حوالے نہ کرے، ہم آئندہ کبھی ایسی خبریں نہ سنیں، ہم نے اپنا کام پورے اخلاص سے شروع کیا ہے، ہم اسے مستقل مزاجی سے کر رہے ہیں اور اس کے مثبت نتائج بھی ہمیں مل رہے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا، عملی جدوجہد سے ہی سماج کو بدلا جاسکتا ہے۔

کوئی خبر زندگی بدل سکتی ہے؟

ہاں! زندگی بدل سکتی ہے کوئی خبر، اگر یہ خبر ان کی نظر سے گزرے جو دل رکھتے ہوں، دلِ زندہ۔

جبر کی رات چراغوں کی حفاظت میں کٹی
تیرگی ہم نے تِرے ہاتھ پہ بیعت نہیں کی

گیئر کا قیام


2009ء میں چند دردمند اور ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے دوستوں نے معاشرے میں غربت و افلاس کے مارے ہوئے لوگوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دردمند اور حساس دوست جو سماج میں معاشی مساوات چاہتے تھے اور کوئی ایسا قدم جو ایسے نادار و بے کس لوگوں کی دادرسی پر مبنی ہو جن سے ان کی عزتِ نفس بھی متاثر نہ ہو اور وہ باعزت طریقے سے معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر اپنے اور اپنے زیرِ کفالت افراد کو ایک باعزت اور آسائشوں سے پُر زندگی فراہم کرسکیں۔

G.E.A.R(Generating Employment Alternatives For Self Reliance)کے نام سے ایک چھوٹی سی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی، جس کے اغراض و مقاصد میں معاشرے میں مفلوک الحال لوگوں کے لیے روزگار کے باعزت مواقع فراہم کرنا، لوگوں کو معاشی طور پر مضبوط بنانا اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے سماج میں تبدیلی لانا تھا۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسے خوددار افراد کو جو کوئی ہنر جانتے ہوں، یا اپنا کاروبار کرنا چاہیں، بلا سود قرض کی فراہمی کا راستہ چُنا گیا۔

ضرورت مند افراد کو G.E.A.R نے بلاسود قرض فراہم کرنا شروع کیے، لیکن یہ قرض نقد کی صورت میں فراہم نہیں کیے جاتے، بلکہ انہیں کاروبار جیسے کوئی مشین، ٹھیلا، یا کیبن لگا کر دیے جاتے ہیں، درزی کو سلائی مشین، سبزی بیچنے والوں کو ٹھیلے وغیرہ۔ اس میں بھی افراد کی پسند کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ وہ کس قسم کا کاروبار کرسکتے ہیں۔ صرف روزگار فراہم کرنے تک بات محدود نہیں رکھی جاتی، بلکہ انہیں ماہرانہ مشورے بھی دیئے جاتے ہیں، تاکہ وہ اپنے کاروبار کو مزید بہتر کرسکیں۔

قرض کی واپسی انتہائی آسان اقساط میں لی جاتی ہے اور اگر قرض کی رقم ادا کردی جائے تو وہ اپنے کاروبار کی ترقی کے لیے دوبارہ سے قرض لے سکتے ہیں۔G.E.A.R گیئر اب تک 350 افراد کو قرض دے کر اپنا روزگار فراہم کرکے اپنے پاؤں پر کھڑا کرچکی ہے اور قرض لینے والے تمام لوگ اپنی اقساط باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور اسی رقم سے کسی دوسرے ضرورت مند کی مدد کی جاتی ہے۔

GEAR کی ٹیم

ایم اخلاق احمد(صدر)، عمر جاوید(نائب صدر)، حامد علی صدیقی(جنرل سیکریٹری)، کاشف نثار(جوائنٹ سیکریٹری)، عرفان احمد(فنانس سیکریٹری)، اسد علی(آئی۔ ٹی منیجر)

رضاکار اور اراکین

میجر (ریٹائرڈ)شہاب، خرم حسین، شاہ زیب خان، عرفان احمد، مریم حسین، محمد یاسر ، جنید احمد، سراج احمد ،نسیم غوری، محمود زیدی، کیبت خان

رابطے کے پتے

GEAR website: www.gear.org.pk
GEAR Facebook Page http : //
www.facebook.com/gearselfreliance

غلام دستگیر خرّم(رکن و رضاکار)

غلام دستگیر خرّم ایم بی اے ا ور گیئر کے ممبر اور رضاکار ہیں۔ وہ گیئر سے کیسے منسلک ہوئے؟ انہوں نے بتایا:

میں یونیورسٹی میں ایم بی اے کا طالب علم تھا۔ میں نے اسی سال اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ اخلاق صاحب ہمارے بہت اچھے استاد ہیں۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ گیئر کیا ہے، کیسے کام کرتی ہے ، اور آپ میں سے کون اس کارِِخیر میں ہمارا دست و بازو بننا چاہتا ہے۔ میں نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا، انہوں نے بہت سراہا اور اس طرح میں گیئر کا حصہ بنا۔ میں نے اپنے علاقے کے 60 بے روزگار لوگوں کو قرضہ دلایا۔ انہیں ماہرانہ رائے اور مشورے دیے۔

اب میں ان 60 افراد کو دیکھتا ہوں اور نگرانی کرتا ہوں۔ وہ اپنی ماہانہ اقساط میرے پاس جمع کراتے ہیں اور میں گیئر کے اکاؤنٹ میں جمع کرادیتا ہوں۔ مجھے اس کام سے دلی مسرت اور سکون ملتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ گیئر نے مجھے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے منتخب کیا۔ مجھے زندگی کا اصل مقصد و مطلب سمجھایا، میں اپنے دیگر دوستوں کو بھی اس عظیم کام کا حصہ دار بننے کی دعوت دیتا ہوں، جو لوگ کچھ کر گزرنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہوں وہ ضرور گیئر کا حصہ بنیں۔ صرف زبانی جمع خرچ سے ہم سماج تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہمیں پورے عزم و حوصلے سے اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے، اور یقین رکھنا چاہیے کہ ہم ضرور کام یاب ہوں گے۔

میں اپنا وقت جب لوگوں کے دکھ درد بانٹنے میں گزارتا ہوں تو اس سے مجھے مزید کام کرنے کی ہمت اور حوصلہ ملتا ہے۔ میں خوش ہوں، کہ میری وجہ سے کچھ لوگ آسودہ اور بہتر زندگی کی جانب گام زن ہیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ عظیم کام بہت تیزی سے آگے بڑھے اور ہمارے تمام لوگ آسودہ، مطمئن اور اچھی زندگی گزاریں۔ بے روزگاری، بے یقینی سماج میں منفی رویوں کو جنم دیتی ہے، یہ جو کچھ ہمارے اِرد گرد ہورہا ہے، اس کا بنیادی اور اہم سبب بے روزگاری بھی ہے۔ اگر ہم یہ حل کرنے میں کام یاب ہوجائیں تو امن قائم ہوجائے گا، ہمیں ہمیشہ مثبت اور اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

G.E.A.R کے منصوبے

گیئر مستقبل میں اپنے برانڈ سے کاروبار متعارف کرانا چاہتی ہے۔ پورے شہر کے مختلف علاقوں میں وہ اپنے چھوٹے کاروبار کو وسعت دے کر ضرورت مند افراد کی مدد کا ارادہ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر برگر کے اسٹال جو گیئر کے نام سے رجسٹرڈ ہوں وہاں حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق اشیاء خورونوش ارزاں نِرخوں پر عوام کو فراہم کی جاسکیں اور ان کا عملہ جنہیں روزگار کی تلاش ہے، ان پر مشتمل ہو۔ اس طرح روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ عوام الناس تک ارزاں نِرخوں پر اشیاء بھی فراہم کی جاسکیں گی۔

G.E.A.R کا خوف

گیئر کو اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ایک خوف کا سامنا ہے ، اور وہ ہے بھتّا کلچر، گیئر کی ٹیم اس بات پر انتہائی سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ اگر انہوں نے اپنے منصوبے کے مطابق شہر میں کاروباری اسٹال لگائے تو ان سے بھی بھتّا طلب کیا جائے گا۔ یہ بھتّا کسی بھی شکل میں ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا جس کا انہیں یقین بھی ہے کہ ایسا ہوگا، تو پھر گیئر کی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟ اس خوف کے سدِباب کے لیے وہ مختلف طریقوں پر غور کر رہی ہے۔ ان کا یہ خوف اس لیے بھی بجا ہے کہ ابتدا میں انہوں نے ایک چھوٹا سا دفتر لے کر اس پر ایک بینر لگایا تھا کہ روزگار کے لیے بلاسُود قرض فراہم کیے جاتے ہیں۔ پہلے دن ہی انہیں فون پر دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں کہ اتنے پیسے ہمیں ادا کیے جائیں، دھمکیاں ملنے کے بعد گیئر کو اپنا دفتر بند کرنا پڑا۔

تنظیمی اخراجات

گیئر کے تنظیمی اخراجات صفر ہیں۔ اس کا تمام عملہ اور ممبرز اپنی خدمات رضاکارانہ سرانجام دیتے ہیں۔ مستقبل میں گیئر تمام یونیورسٹیز میں، گیئر چیپٹر قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ گیئر کے مقاصد کے حصول میں افرادی قوت فراہم کی جاسکے۔ یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات کو فلاح و بہبود اور بے روزگاری کے خلاف متحد ہوکر اپنے حصے کا کام کرنا سکھایا جاسکے، اور طلبہ وطالبات بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے چیلینج کو قبول کرتے ہوئے اسے احسن طریقے سے حل کرنا سیکھ سکیں۔

اس طرح طلبہ وطالبات عملاً سماج کا حصہ بن سکیں گے اور فلاح و بہبود کا کام مربوط اور تنظیم کے ساتھ کرسکیں گے۔ اس طریقۂ کار سے وہ ذمے دار شہری بن کر اپنے بے روزگار شہریوں کو مدد بھی فراہم کرسکیں گے۔ اس کام سے ان کی تسکین بھی ہوگی۔ مثبت کام کرکے طلبہ وطالبات دیگر منفی سرگرمیوں سے خود کو بچا بھی سکیں گے۔

کام یابی کی کہانیاں

٭راشد احمد اورنگی ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں جن میں سے ایک بچی زیرِ تعلیم ہے۔ پہلے وہ مکینک تھے، ان کے بھائی کے گردے خراب ہوگئے تو انہوں نے بے مثال ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا ایک گردہ اپنے بھائی کو عطیہ کردیا۔ اس کے بعد وہ وزنی کام نہیں کرپاتے، لیکن روزگار تو چاہیے ہی تھا۔ انہوں نے ایک رکشہ لیا اور G.E.A.R نے ان کی مدد کی۔ اب راشد احمد رکشہ چلاتے ہیں اور اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کرتے ہیں۔ باقاعدگی سے وہ اپنی اقساط جمع کراتے ہیں اور خوش ہیں۔

٭محمد شکیل کے چار بیٹے ہیں۔ پہلے وہ ایک فٹنس کلب میں کام کرتے تھے، جہاں سے آمدن بہت کم تھی، لیکن وہ اسٹیکرز کی ڈیزائننگ جانتے تھے۔ کسی نے انہیں G.E.A.R کے متعلق بتایا اور انہوں نے قرض کی درخواست دی، جو منظور کرلی گئی۔ اب وہ اپنا کاروبار شروع کرچکے ہیں۔ وہ اسٹیکرز بناکر فاضل پرزہ جات کی دکانوں کو فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کاروبار اچھا ہے اور وہ اب مطمئن ہیں۔ آسودگی سے زندگی گزار رہے ہیں۔

٭ناصر احمد کے دو بچے ہیں، پہلے وہ اسکول کے باہر چنے بیچتے تھے اور بہت عسرت میں رہتے تھے۔ انہوں نے قرض لیا ہے اور چھوٹا سا ایک کیبن لگا لیا ہے، جس میں وہ بچوں کے لیے ٹافیاں، بسکٹ وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔ صبح وہ اسکول کے باہر چنے بیچتے اور دوپہر کے بعد کیبن چلاتے ہیں۔ اس طرح ان کی آمدن میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب وہ اپنا قرض اُتارنے کے قریب ہیں اور چاہتے ہیں کہ مستقبل میں وہ اپنے کاروبار کو مزید فروغ دیں۔
Load Next Story