سعودی عرب کا نائن الیون حملے سے کوئی تعلق نہیں امریکی سی آئی اے چیف

2002 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرحملے کے بعد تیارکردہ تحقیقاتی رپورٹ میں سعودی عرب کوحملے کا ذمہ دار قرار دیا گیا،جان برینین


ویب ڈیسک June 12, 2016
سعودی عرب اورامریکا کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی خبریں بے بنیاد ہیں، چیف سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی جان برینن فوٹو:فائل

امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے چیف جان برینن کا کہنا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملے میں سعودی عرب بطور ریاست ملوث نہیں اور کسی سعودی حکام نے اس حملے کی حمایت نہیں کی۔

عرب ٹی وی "العربیہ" کو انٹرویو دیتے ہوئے جان برینن کا کہنا تھا کہ 2002 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد تیار کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں سعودی عرب کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا گیا جس پر بعدازاں نظرثانی کی گئی جب کہ تفتیش کاروں نے رپورٹ کی تیاری میں کی گئی غلطیوں کا بھی ازالہ کردیا جب کہ ہم نے ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں بتایا ہے کہ سعودی عرب کا نائن الیون حملوں میں کوئی کردار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے 28 صفحات میں یہ بات واضح کردی گئی ہے سعودی عرب بطور ریاست، کوئی ادارہ یا کوئی سرکاری عہدیدار ان حملوں میں بالواسطہ یا براہ راست ملوث نہیں تھا، ہم اس رپورٹ کے منظر عام پر لانے کے حامی ہیں اور امید ہے کہ سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی اسے جلد جاری کرے گی۔

سی آئی اے چیف نے کہا کہ اس وقت کے سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ اور سابق سینیٹر باب گراہم نے مبینہ طور پر رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی حکام نے حملہ آوروں کو معاونت فراہم کی جس کا ذکر تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا، میرے خیال میں ان 28 صفحات کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیئے تاہم سعودی عرب کی حملوں میں سازش کو ثبوت تسلیم نہیں کرنا چاہیئے۔

جان برینن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اورامریکا کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی خبریں بے بنیاد ہیں، دونوں دوست ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات خوش گوار سطح پر قائم ہیں جب کہ امریکا سعودی عرب کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہترین تعلقات اور دو طرفہ تعاون قائم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں