چور کو مت مارو‘چور کی ماں کو مارو

وگ ہماری بے ضابطگیوں کو جنگل کے قانون سے نہ جانے کیوں تشبیہ دیتے ہیں جب کہ مجھے تو جنگل میں بڑا واضح قانون نظر آیا۔


Kishwar Zohra November 23, 2012

جب سے آنکھ کھلی ارد گرد انسانوں کی دُنیادیکھ رہی ہوں، جس میں فرشتہ صفت بھی دیکھے اور اپنے جیسے عام انسانوں کو بھی برتا اور بد سے بدتر لوگ بھی دیکھے۔

ان بدتر لوگوں کی جانوروں سے تشبیہ یوں نہیں دوں گی کہ جانوروں میں وفا بھی دیکھی،اور پال کر، تربیت دے کر ان کا نظم و ضبط بھی دیکھا اور اس سے بڑھ کر ایک ایسا موقعہ بھی آیا کہ جس میں مجھے افریقہ جا کر وہاں کے جنگلی جانوروں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔وہاں پہنچنے سے قبل مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ جنگلات تھے جہاں چھوٹے ، بڑے چوپائے اور چرند پرند انسان کی قید میں نہیں بلکہ آزاد ہیں اور اپنے فطری تقاضوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔یہاں کی کچھ باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا کیونکہ میں جب کہیں کوئی غیر منضبط کام یاواقعہ دیکھتی تھی تو ایک کہاوت سننے میں آئی کہ ''یہ کیا جنگل کا قانون ہے؟'' لیکن جب میں جنگل میں گئی تو قانونِ قدرت کو دیکھ کر میری تو آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ صبح کی پہلی پو کے وقت دیکھا کہ پانی کے تالاب کے پاس شیر بھی تھا، گیدڑ بھی، بکری بھی اور لاتعداد دیگر چوپائے اور درختوں پر چہچہاتی ہوئی چڑیاں۔

لوگ ہماری بے ضابطگیوں کو جنگل کے قانون سے نہ جانے کیوں تشبیہ دیتے ہیں جب کہ مجھے تو جنگل میں بڑا واضح قانون نظر آیا ۔ اگلے روز دوپہر میں مجھے دیکھنے کا موقع ملاکہ جنگل کا وہ بادشاہ جس کی چنگھاڑ سن کر چرند پرند اور چھوٹے بڑے چوپائے سرعت سے اپنی راہ لیتے ہیں، اپنی لحیم شحیم جسامت کے ساتھ چلتا ہوا آرہا تھا اور اسی وقت دوسری جانب سے ہاتھیوں کا ایک جھُنڈ خراماں خراماںآتا نظر آیا جس میں چھوٹے بڑے سبھی طرح کے ہاتھی تھے۔لیکن شیر اور ہاتھیوں کے اس غول کے درمیان جب فاصلہ کم رہ گیا تو شیر اپنی جگہ رک کرکھڑا ہوا اور پھر دائیں جانب مُڑ گیا اور ہاتھیوں نے وہیں سے یو ٹرن کاٹا اور سکون کے ساتھ جس رُخ سے آئے تھے اُسی رُخ کی طرف رواں ہو گئے ۔یہ تھا طاقت کا توازن... اور یہ تھا جنگل کا قانون !!!

اس مشاہدے کو رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ طاقت کا توازن جہاں نہیں ہو گا ، وہاں انتشار اور بگاڑ ایک فطری عمل ہے۔دُنیا اب ایک ایسے دور میں داخل ہو چکی ہے کہ طاقت کا توازن اب اسلحے، گولہ بارود کی صورت میں نظر آتا ہے۔مسلح طاقتور اور غیر مسلح کمزور...ایک مسلح انسان سو غیر مسلح انسانوں پر بھاری۔

اسلحے کی اس دوڑ میں جس کے خلاف ایم کیو ایم نے 2011ء میں'' اسلحے سے پاک معاشرے کی تشکیل کے لیے '' حکومتی ایوانوں میں آواز اٹھائی اور تحریری طور پر ایک بل بھی پیش کیا لیکن کیا سنجیدگی سے اس کو نافذ العمل بنانے کی کوشش کی گئی؟ اگر آج کی تاریخ میں کوشش کی بھی گئی تو وہ ایک انتہائی غیر متوازن قسم کا فیصلہ نظر آتا ہے۔ مجھے اپنی دادی سے سُنی ہوئی ایک کہاوت یاد آرہی ہے کہ...چور کو مت مارو چور کی ماں کو مارو اصل جڑ وہی ہے۔اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے کراچی ہی کا انتخاب ایک غیر منصفانہ اور ناتجربہ کاری کا فیصلہ ہے۔ہماری نظرکراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے پہلے اُس طرف کیوں نہ گئی کہ اسلحہ کہاں بنتا ہے؟ ،کون بناتا ہے؟، کیسے آتا ہے اور کیونکر آتا ہے؟اور کون سے محاذ پر استعمال ہوتا ہے، یقینا سرحدوں پر یہ استعمال نہیں ہو رہا بلکہ ملک کے اندر اسلحے کی طاقت کئی طرح استعمال ہو رہی ہے ایک وہ روایتی لوگ جو اپنے رواج کے مطابق اسے اپنے زیور سے تعبیر کرتے ہیں، اور اپنے معاشرے میں اسے اس طرح متوازن رکھتے ہیں کہ ہر شخص مسلح ہوتا ہے کوئی فرد بنا سوچے سمجھے اپنا ہتھیار نہیں اٹھاتا۔

کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مدِ مقابل بھی اُتنا ہی طاقتور ہے جتنا کہ وہ خود...دوسرا اسلحے کا استعمال وہ ہے جس نے افغانستان کی جنگ کے بعد پاکستان کی طرف رُخ کیا اور اس کے زور پراس سر زمین پر غلبہ پانے کی کوشش کی جسے ہم ''کلاشنکوف کلچر'' کہہ سکتے ہیں۔ جس کا ہم پاکستانیوں سے دوردور کا واسطہ نہیں۔ اسلحہ کا ایک استعمال وہ بھی ہے جسے آپ حفظِ ماتقدم کہتے ہیں ، بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ اسلحے کے کلچر کا وہ تسلط ہمارے اوپر اسلام کے نام پر بھی کیا جا رہا ہے، اس میں ملوث عناصر جو اپنی اس طاقت سے من مانی کر تے ہوئے ایک مافیا کا روپ اختیار کر رہے ہیں اور اسلام کے نام پر بہت سے معصوم مقامیوں کو بھی اپنے ساتھ صف ِ آرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ہماری بد نصیبی کہ نام نہاد مذہبی جماعتیں ان سے متاثر نظر آتی ہیں اور اپنے رویّے سے قائدِ اعظم کے پاکستان کی نفی کر رہی ہیں جو ہمارے لیے بہت بڑا المیہ ہے۔

ایسے گروہوں نے کراچی سمیت پورے پاکستان میں علاقہ غیر جیسے ''نو گو ایریا'' بنا لیے ہیں اور بہت آسانی سے اسلحہ میسر بھی ہوتا ہے۔کیا کراچی میں ہونے والے آپریشن کی ''نیک خواہشات'' رکھنے والے اس بات کی یقین دھانی کراسکیں گے کہ تسلسل سے ان کے پاس کراچی میں آ نیوالے غیر قانونی اسلحہ کو روکا جا سکے گا...یقینا نہیں۔اس کا راستہ اگر ہے تو وہ یہی ہے کہ جو غیر قانونی اسلحہ بناتا ہے پہلے اس کی سرکوبی کی جائے اور پھر اس کی ترسیل میں ملوث لوگوں کو اس غیر قانونی فعل سے روکا جائے۔ یہ وہی بات ہو گی جیسا کہ میں نے عرض کیا چور کو مت مارو...چور کی ماں کو مارو۔

(مضمون نگار ممبر قومی اسمبلی ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں