مودی کی پھرتیاں
سربراہان مملکت کے بیرون ملک دورے بھنڈی گوشت کھانے کے لیے نہیں ہوتے،
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی گزشتہ ہفتے امریکا کے دورے پر تھے۔ حالیہ دو سالہ اقتدار کے دوران ان کا امریکا کا چوتھا دورہ، جب کہ امریکی صدر اوباما سے ساتویں ملاقات تھی۔ تین ملاقاتیں دیگر ممالک میں مختلف مواقع پر ہوئیں۔ اس دورے کے دوران انھوں نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (NSG) میں بھارتی شمولیت کے لیے امریکا کو آمادہ کرنے کے علاوہ کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔ جن میں سائبر کرائمز میں تعاون، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے کے ملک کی تنصیبات استعمال کرنے کا اختیار اور سب سے بڑھ کر بھارت میں 6 امریکی جوہری پلانٹس کی تنصیب وغیرہ شامل ہیں۔
سربراہان مملکت کے بیرون ملک دورے بھنڈی گوشت کھانے کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ وہ وسیع تر قومی مفادات کے حصول کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے کوئی ملک جو حکمت عملیاں طے کرتا ہے، وہ ڈپلومیسی کہلاتی ہیں۔ ڈپلومیسی سخت گیر اصولوں کے بجائے لچک دار ان رویوں کی عکاس ہوتی ہے، جو وقت و حالات کے تحت اپنے اہداف تبدیل کرنے میں کسی قسم کی جھجھک کا شکار نہ ہوں۔ کسی ملک کی کامیاب ڈپلومیسی یہ ہوتی ہے کہ وہ پڑوسیوں سمیت کرۂ ارض پر موجود مختلف ممالک سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرے۔ اس وقت دنیا میں ڈپلومیسی کے تین عام اور ایک خصوصی ٹریک مستعمل ہے۔
پہلا ٹریک: یہ ٹریک مختلف سطح کے سرکاری مشنز پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں دو ممالک کے وزرا، سول اور ملٹری نمایندے باہم مذاکرات کے ذریعہ متنازع امور طے کرنے علاوہ نئے معاہدوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے مذاکرات کرتے ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچ کر معاہدے کو دستاویزی شکل دیتے ہیں۔ یہ ٹریک عوام سے پوشیدہ نہیں رکھا جاتا، بلکہ ان دوروں کی ذرایع ابلاغ کے ذریعہ تشہیر کی جاتی ہے۔
دوسرا ٹریک: یہ غیر سرکاری مذاکرات ہوتے ہیں، جن میں عام طور پر دونوں اطراف کی ایسی شخصیات حصہ لیتی ہیں، جو ان ممالک کی مقتدر اشرافیہ کے لیے قابل قبول ہوں۔ یہ ٹریک عام طور پر اس وقت استعمال کیا جاتا ہے، جب متنازع امور بہت زیادہ الجھ گئے ہوں اور انھیں پہلے یا رسمی ٹریک کے ذریعہ حل کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہو۔ اس ٹریک کو عام طور پر منظر عام پر لانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ذرایع ابلاغ میں تشہیر ہوجانے سے اس کے لیے اہداف کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کو شش کی جاتی ہے کہ جس قدر ممکن ہو، اسے خفیہ رکھا جائے۔ اس ٹریک کے کامیاب ہوجانے کے بعد ایک بار پھر پہلے ٹریک کی طرف آنا پڑتا ہے اور معاملات کو سرکاری طور پر دستاویزی شکل دی جاتی ہے۔
تیسرا ٹریک: یہ عوام کے عوام سے روابط کا سلسلہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ ٹریک خاصا مقبول ہوا ہے۔ دونوں اطراف کی سماجی اور پیشہ ورانہ تنظیمیں اور نجی شعبہ کے کاروباری گروپس ایک دوسرے کے ساتھ روابط بڑھاتے ہیں اور اپنی اپنی حکومتوں کو بہتر تعلقات کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ ان تینوں ٹریکوں کی کامیابی کے بعد خصوصی ٹریک کا مرحلہ آتا ہے، یعنی سربراہان مملکت ایک دوسرے ملک کا دورہ کرکے پہلے ٹریک کے دوران طے ہونے والے امور کی دستاویز پر دستخط کرکے رسمی منظوری دیتے ہیں۔
ڈپلومیسی کی درج بالا تعریف کے تناظر میں نریندر مودی کے دورۂ امریکا اور وہاں ہونے والے معاہدوں کا جائزہ لیا جائے، تو اس کا پس منظر زیادہ بہتر طور پر سمجھ میں آسکتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ امریکا میں 30 لاکھ سے زائد بھارتی شہری مختلف پوزیشنز پر کام کررہے ہیں، جن میں NASA جیسے ادارے بھی شامل ہیں۔ یہ بھارتی شہری مسلسل تیسرے ٹریک کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے غیر سرکاری سفیر بن کر اپنے ملک کی تاریخ، ثقافتی اقدار اور سماجی ڈھانچہ کو انتہائی رومانوی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں اپنے سفارت خانے کی بھرپور مدد اور معاونت حاصل رہتی ہے۔ اس عمل کی وجہ سے صرف سرکاری سطح پر ہی نہیں بلکہ امریکی عوام میں بھارت اور بھارتی عوام کے لیے انسیت پیدا ہورہی ہے۔
اس کے علاوہ بھارت سے غیر سرکاری سطح پر سماجی اور پیشہ ورانہ تنظیموں کے نمایندے، تجارتی وفد اور ثقافتی طائفے، سرکاری سرپرستی میں سال بھر امریکا سمیت دنیا کے کسی نہ کسی ملک کے دوروں پر رہتے ہیں۔ جو ڈپلومیسی کے دوسرے ٹریک کا بھرپور استعمال ہے۔ پھر مختلف وزارتی مشن اور سرکاری اہلکار اپنے سفارت خانوں کی مدد سے دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ سیاسی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کے لیے روابط کررہے ہوتے ہیں۔ یوں پہلے ٹریک پر بھی عمل جاری رہتا ہے۔ چنانچہ بھارت ڈپلومیسی کے تینوں ٹریکوں کو انتہائی چابکدستی کے ساتھ استعمال میں لارہا ہے۔ جس کی وجہ سے تمام تر اندرونی خرابیء بسیار اور اقلیتوں کے ساتھ معاندانہ رویوں کے باوجود دنیا کے سامنے اپنی مختلف شکل پیش کرنے میں کامیاب ہے۔
اس کے برعکس پاکستانی کمیونٹی بھارتی کمیونٹی کی طرح مربوط انداز میں اپنے ملک کا کیس پیش کرنے میں ناکام ہے۔ جس کی بنیادی وجہ دنیا بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں کی غیر فعالیت اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ عدم تعاون ہے۔ زیادہ تر سفارت خانوں میں سفیروں سمیت اہم پوزیشنوں پر فائز عہدیدار سفارشی ہیں، جو کسی وزیر یا سفیر یا اعلیٰ سرکاری اہلکار کی اولاد یا بھانجے بھتیجے ہوتے ہیں۔
اس لیے نہ تو ان کی پیشہ ورانہ تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی اہلیت۔ یہ محض مراعات کی خاطر اپنی پسند کے ملک میں پوسٹنگ کراتے ہیں۔ بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلانا اور جائیداد بنانا ان کا ہدف ہوتا ہے۔ ان کا پاکستان یا پاکستانیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی جس شخص کے Stake اپنے ملک میں نہ ہوں اس میں وطنیت کا جذبہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کا المیہ بھی یہی ہے کہ اس کے بیشتر سیاسی رہنماؤں، سفارتکاروں اور بیوروکریٹس کے Stakes یہاں نہیں ہیں، اس لیے ان سے حب الوطنی کا تصور عبث ہے۔
اب پھر بھارت کی طرف آتے ہیں۔ بھارت نے اپنے اہداف آزادی سے بہت پہلے طے کرلیے تھے۔ 1933 میں الہ آباد میں کانگریس کے اجلاس کے موقع پر پنڈت موتی لعل نہرو نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آزادی کے بعد ہندوستان سے ریاست و رجواڑے اور جاگیرداری ختم کرکے جمہوری نظم حکمرانی کو رائج کیا جائے گا۔ ملک کی صنعتی ترقی کے لیے تعلیم اور انفرااسٹرکچر کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔
سیکولر آئین اور جاگیرداری کے خاتمے نے انھیں اپنی سمت کا تعین کرنے میں بہت زیادہ مدد دی۔ اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت میں حکومت کانگریس کی ہو یا دائیں بازو کی BJP کی، دونوں عوام کی خواہشات کے مطابق اپنے ملک کو خطے کی معاشی سپر پاور بنانے کے اہداف کو ترجیحی بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچنے میں مصروف رہتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان روز اول سے ریاست کے منطقی جواز اور طرز حکمرانی کے بارے میں ابہام کا شکار چلا آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے مستقبل کے اہداف مسلسل غیر واضح اور مبہم ہیں، جو تمام تر خرابی بسیار کا سبب ہیں۔ خاص طور پر جناح کے تصور پاکستان سے انحراف اور شدت پسند عناصر کی بالواسطہ اور بلاواسطہ سرپرستی نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچادیا ہے۔
کتنی حیران کن بات ہے کہ SEATO اور CENTO پر دستخط کرنے کے تقریباً 60 برس بعد ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ''پاک امریکا تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت ہے''۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت کے ترقی پسند دانشور اور سیاسی رہنما ہمارے ریاستی منصوبہ سازوں سے زیادہ ذہین، دور اندیش اور محب وطن تھے، جنھوں نے ان معاہدوں کے مضمرات اور ان کے منفی اثرات کے ہر پہلو سے اسی وقت آگاہ کردیا تھا۔ مگر کند ذہن اور کوتاہ بین اسٹبلشمنٹ نے انھیں جیل میں ڈال کر ضدی بچوں کی طرح امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے اقدامات کو منطقی جواز فراہم کرنے کے لیے سرکاری دانشوروں سے لاف گزاف کرائی گئی۔
آج اسٹبلشمنٹ کا نیا رومانس چین کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ مگر مختلف فورمز پر اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بین الاقوامی تعلقات کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر مجھے یہ خدشہ مسلسل ستائے جارہا ہے کہ جس طرح آج پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنے کے بارے میں غور کررہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ 25 سے 30 برس بعد کی حکومت یہی کچھ چین کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو۔ لیکن منصوبہ سازوں کے ذہن میں یہ بات بہرحال رہنا چاہیے کہ امریکا ہزاروں میل دور ہے، جب کہ چین بغل ہی میں موجود ہے۔
جو فیصلہ کریں سوچ سمجھ کر کریں۔ یہ بھی سمجھ لیں کہ مختلف قومیتوں اور کمیونٹیز پر غداری کا الزام لگادینے سے آپ کی حب الوطنی کو سند نہیں مل جاتی۔ نئے معاہدے کسی ایک صوبے کے مفاد کے لیے نہ ہوں بلکہ پورے ملک کے لیے ہوں۔ اس سلسلے میں ملک کی تمام قومیتوں اور حلقوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کے ساتھ سردمہری کے جو مختلف ادوار آتے رہے ہیں، ان میں ہماری اپنی کوتاہیوں اور غلط حکمت عملیوں کا کتنا عمل دخل ہے۔ اگر یہ سب کچھ سمجھ لیا تو مودی کی کامیاب سفارت کاری بھی سمجھ میں آجائے گی۔