عظیم ادبی شخصیت کو خراجِ تحسین و عقیدت
جناب احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کئی جہتوں کی حامل تھی۔
یکم جون 2016ء کو سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف قومی اسمبلی میں آئے تو یہ پہلا موقع تھا کہ وہ صحافیوں میں گھُل مل گئے۔ جنرل صاحب نے اخبار نویسوں کے مختلف سوالات کے غیر مبہم الفاظ میں جواب دیے۔ یہ جوابات اپنی قدر و اہمیت کی بنیاد پر قومی اخبارات کی شہ سرخیوں کا باعث بنے۔ اُس روز جنرل راحیل شریف نے ''ضربِ عضب'' کی قابلِ فخر کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک شعر یوں پڑھا: ''خدا کرے مری ارضِ پاک پر اترے/ وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ زوال نہ ہو''۔ یہ دعائیہ شعر ہمارے ملک کے نامور شاعر جناب احمد ندیم قاسمی کا ہے۔ یہ دراصل قاسمی صاحب کی ایک لازوال اور بے مثال غزل کا پہلا شعر ہے۔
دس سال قبل انھی تپتے اور دہکتے دنوں میں قاسمی صاحب زندگی کی نوے بہاریں اور خزائیں دیکھنے کے بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ وہ 1916ء میں اس دنیائے رنگ و بُو میں آئے اور اب 2016ء گزر رہا ہے۔ گویا قاسمی صاحب حیات ہوتے تو آج سو برس کے ہوتے۔ یہ عظیم انسان ہمارے درمیان موجود تو نہیں ہے لیکن ان کی یاد میں ''صد سالہ جشنِ قاسمی'' کا آغاز ہوچکا ہے۔
ایسے موقع پر معروف ادبی جریدے ''ماہِ نو'' نے قاسمی صاحب کی شاندار ادبی، سیاسی اور صحافتی خدمات کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کرنے کے لیے نہایت شاندار ''احمد ندیم قاسمی نمبر'' شایع کیا ہے۔ یہ 372 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں نظر افروزی اور دلکشائی کے سارے سامان بدرجہ اتم موجود ہیں۔ چہار رنگی اشاعت۔ اعلیٰ درجے کا گلیزنگ پیپر جو اسے برسہا برس تک محفوظ رکھنے کا سبب بنتا رہے گا۔
کہا جاسکتا ہے کہ زیرِ نظر خصوصی اشاعت جناب احمد ندیم قاسمی کی ذات گرامی اور عظیم خدمات کے عین شایانِ شان ہے۔ مضبوط جِلد جس کا نظر نواز پُشتہ قاسمی صاحب کی تمام معلوم تصنیفات کے ٹائٹلز کا احاطہ کرتا ہے ۔ قاسمی صاحب کی ادبی زندگی کا کونسا ایسا گوشہ ہے جس کا اس خصوصی اشاعت میں جائزہ نہیں لیا گیا۔ ان کی نعت نگاری کے جو پہلو سامنے لائے گئے ہیں، ان میں قاسمی صاحب ہمیں بار بار ایک سچے عاشقِ رسولؐ نظر آتے ہیں۔ ''مَیں تو تجھ سے فقط اِک نقشِ کفِ پا چاہوں/ تُو جو چاہے تو مجھے جنتِ ماویٰ دے دے۔''
جناب احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کئی جہتوں کی حامل تھی۔ باکمال شاعر بھی اور بے مثال افسانہ نگار بھی۔ منفرد نقاد بھی اور ممتاز مدیر بھی۔ ادب و صحافت کی جتنی بھی اصناف ہیں، تقریباً سبھی کے وہ شاہسوار تھے۔ مگر ہمارے نزدیک ان کی صحافیانہ زندگی اور صحافت کے لیے ان کی بے پایاں خدمات ان کی ذات کا سب سے نمایاں اور افضل پہلو ہے۔ ''ماہِ نَو'' کے زیرِ نظر خصوصی شمارے میں جناب احمد ندیم قاسمی کی صحافتی خدمات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس ضمن میں تین مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔ پہلا آرٹیکل جناب حسن عابدی کا تحریر کردہ ہے اور اس کا عنوان ہے: ''ندیم بحیثیتِ صحافی۔'' تین صفحات پر مشتمل اس مضمون میں قاسمی صاحب کی اپنے ماتحت اور واقف کار صحافیوں کے ساتھ رویوں اور سلوک کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس ضمن کا دوسرا مضمون ڈاکٹر سبینہ اویس کا ہے اور اس کا عنوان ہے: ''احمد ندیم قاسمی کی کالم نگاری۔'' ڈاکٹر صاحبہ نے بڑی محنت اور احتیاط سے اپنے چودہ صفحات پر مشتمل اس مضمون میں احمد ندیم قاسمی مرحوم و مغفور کے مختلف ادوار میں لکھے گئے مختلف کالموں کا تحقیقی نظر سے جائزہ لیا ہے۔ اطمینان بخش بات یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر سبینہ اویس نے اس مضمون میں 38 حوالے بھی دیے ہیں جنہوں نے اسے زیادہ وقیع اور معتبر بنا دیا ہے۔ مصنفہ بتاتی ہیں کہ قاسمی صاحبہ نے اپنے دَور کے معروف اخبار نویس، عبدالمجید سالک، کی ایما پر اخباری کالم نگاری کا آغاز کیا تھا اور پھر وہ مختلف ناموں اور عنوانوں کے زیرِ تحت مختلف اخبارات میں برسوں تک روزانہ فکاہی کالم لکھتے اور پڑھنے والوں کو محظوظ کرتے رہے۔
یوں ان کے کالم کئی عشروں تک امروز، ہلالِ پاکستان، احسان، جنگ اور حریت ایسے مشہور اخبارات کی زینت بنتے رہے اور یہ سلسلہ ان کے دمِ واپسیں تک جاری رہا۔ جناب احمد ندیم قاسمی کی صحافتی خدمات اور فن پر زیرِ نظر ''ماہِ نو'' کے خصوصی احمد ندیم قاسمی نمبر میں مسعود اشعر نے بھی قلم اٹھایا ہے۔ جناب مسعود اشعر خود بھی نامور صحافی اور کالم نگار ہیں اور برسوں ملتان میں ''امروز'' کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہے ہیں۔
اس دوران انھوں نے احمد ندیم قاسمی کو اپنے مرکزی ایڈیٹر کی حیثیت سے دیکھا، پرکھا اور برتا۔ احمد ندیم قاسمی کے خصوصی نمبر میں پانچ صفحات پر پھیلا ان کا مضمون ''ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی'' کے زیرِ عنوان شایع ہوا ہے جس میں مضمون نگار نے قاسمی صاحب سے لاتعداد یادوں کا بادبان کھولا ہے اور قاسمی صاحب کی محبوب اور محبت کرنے والی شخصیت کے کئی چھپے گوشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ جناب اشعر ہمارے محبوب شاعر و ادیب اور صحافی، احمد ندیم قاسمی، کا نہایت ہی دلربا چہرہ سامنے لائے ہیں۔
بتاتے ہیںکہ قاسمی صاحب نے اپنے زمانہ ادارت میں ''امروز'' کے صفحات کو کئی علمی اور ترقی پسندانہ جہتوں سے روشناس کرایا۔ مَیں تو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے نامور استاد، ڈاکٹر وقار ملک، اور یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب میں ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ نامور ماہرِ تعلیم، ڈاکٹر شفیق جالندھری، سے گزارش کروں گا کہ ''ماہِ نو'' کے احمد ندیم قاسمی نمبر میں قاسمی صاحب کی صحافتی خدمات کا جس طرح گہری نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔ وہ انھیں اپنی اپنی درسگاہ میں اپنے طلباء و طالبات کو اس سے ضرور روشناس کرائیں۔
''احمد ندیم قاسمی نمبر'' میں چار درجن سے زائد نہایت شاندار اور وقیع مضامین شایع کیے گئے ہیں۔ لکھنے والے اپنے اپنے مقام پر معتبر بھی ہیں اور نہایت معروف بھی؛ چنانچہ ان کے حرفِ مطبوعہ پر یقین اور اعتبار کیا جاسکتا ہے۔
ان قابل لکھنے والوں کے اسمائے گرامی تو ملاحظہ کیے جائیں: آغا سہیل، ابراہیم جلیس، ابنِ انشاء، اعزاز احمد آذر، ڈاکٹر سید اختر جعفری، مرزا ادیب، اشفاق احمد، ڈاکٹر انوار احمد، جلیل عالی، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر جمیل جالبی، حسن عسکری کاظمی، خدیجہ مستور، زاہدہ حنا، سحر انصاری، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر غافر شہزاد، ڈاکٹر فتح محمد ملک، فخر زمان، مشکور حسین یاد، ڈاکٹر ناہید قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، سید وقار عظیم، ہاجرہ مسرور وغیرہ۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی صاحب ایسی بڑی اور اہم شخصیت کے حوالے سے اس خصوصی نمبر کے مرتب کرنے والوں نے بڑی محنت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے؛ چنانچہ ماہِ نو کے ''احمد ندیم قاسمی نمبر'' کے نگرانِ اعلیٰ محمد سلیم اور اس کی مجلسِ ادارت کے ارکان (شبیہ عباس، صائمہ بٹ اور مریم شاہین) بجا طور پر پڑھنے والوں کے خصوصی شکریے اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔
جناب احمد قاسمی کی شخصیت اور ان کی جملہ Contributions کا مرکزی خیال ان کا ترقی پسند ہونا ہے۔ اپنے اس تشخص اور ممتاز انفرادیت کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے بڑی قربانیاں دیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قاسمی صاحب پر ''ماہِ نو'' کی یہ خصوصی اشاعت ایسے دَور میں منصہ شہود پر آئی ہے جب ہمارے وزیرِ اطلاعات جناب پرویز رشید بھی ترقی پسند تحریک اور نظریے کے پرچارک اور حامل رہے ہیں۔
یقینا یہ شاندار کریڈٹ ان کی وزارت کو بھی جاتا ہے اور ہمارا ان کو سیلوٹ ''مارنا'' بھی بنتا ہے۔ اس سے قبل بھی ''ماہِ نو'' ممتاز ادیبوں اور شاعروں پر خصوصی نمبرز شایع کرچکا ہے (مثلاً: فیض احمدفیض نمبر، احمد فراز نمبر، حبیب جالب نمبر وغیرہ) مگر زیرِ نظر ''احمد ندیم قاسمی نمبر'' کی ظاہری اور معنوی شان و شوکت کے سامنے یہ سابقہ نمبرز پاسنگ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ اس میں قاسمی صاحب کے عکسِ تحریر بھی شامل ہیں اور درجنوں نادر و نایاب فوٹوز بھی۔ یقینا پاک وہند اور ہر وہ مقام جہاں جہاں احمد ندیم قاسمی کا نام جانا پہچانا جاتا ہے، اس نمبر کو پسند اور اس کے مندرجات کی تحسین کی جائے گی۔ اس کے لیے اس نمبر کے نگرانِ اعلیٰ محمد سلیم کے ذوقِ انتخاب کو داد اور شاباش دی جانی چاہیے۔ پرچے کی قیمت حیران کن حد تک کم ہے۔ صرف پانچ سو روپے۔