انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امریکا مطلب پرست دوست ہے۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امریکا مطلب پرست دوست ہے۔ ہماری سیکیورٹی کو اہمیت نہیں دیتا۔ ضرورت پڑنے پر ہمارے پاس آتا ہے۔ کام نکل جائے تو پوچھتا تک نہیں۔ مطلب نہ ہو تو امریکا کا رویہ بدل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ تعلقات غور طلب ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری سے کہا تھا کہ میں سوچتا رہا ہوں کہ اسٹرٹیجک اور ٹرانزیشنل تعلقات میں کیا فرق ہے۔
اس میں پہلی چیزاعتماد ہے کہ دونوں میں اعتماد ہونا چاہیے۔ اگر آپ بھارت کے ساتھ اتنے تعلقات بڑھائیں گے کہ سیکیورٹی عدم توازن ہو گا تو اس کا مطلب ہے کہ اسٹرٹیجک تعلق آگے نہیں چل سکتا۔ مشیر خارجہ کے اس بیان پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ پچھلے ستر سال سے ہماری خارجہ پالیسی امریکی خوشنودگی پر مبنی رہی ہے۔ پھر اس پر گلہ شکوہ کیسا۔ مشیر خارجہ کا بیان ہی بتاتا ہے کہ دنیا خاص طور پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں ہماری کیا عزت ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ امریکا ہمارے پاس صرف اس وقت آتا ہے جب اس کو ہماری ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بڑا ہی مایوس کن فقرہ تو یہ ہے ہماری اوقات۔
پاک امریکا تعلقات کی پوری تاریخ اعتماد کے بحران سے عبارت ہے۔ امریکا جیسی واحد عالمی قوت کے ساتھ پاکستان جیسے ملک کے تعلقات برابری کی سطح پر کیسے ہو سکتے ہیں جو ہر معاملہ میں امریکا کا دست نگر رہا ہو۔ جب برابری کی سطح پر تعلقات نہیں ہوں گے تو اعتماد کا بحران تو پیدا ہو گا۔ ہمارے حکمران طبقات نے امریکی خوشنودگی کے حصول کے لیے ہر حد پار کرلی۔
ان کے پیش نظر ہر دور میں ذاتی اقتدار اور ذاتی مفاد رہا' پاکستان اور پاکستانی قوم کا مفاد نہیں۔ ان حکمران طبقات نے پاکستانی تاریخ میں پاکستانی عوام کو اپنے اقتدار اور مفادات کی قربان گاہ پر لٹکائے رکھا۔ مثال کے طور پر موجودہ روس ماضی کا سوویت یونین ایک زمانے تک ہمارا بدترین دشمن تھا۔ افغانستان کی جنگ میں امریکی محبت میں ہم نے اپنے لاکھوں آدمی مروا دیے۔ امریکی پروپیگنڈے کا اسیر ہو کر کہ سوویت یونین گرم پانیوں تک نہ پہنچ سکے۔ ہم نے خامخواہ سابق سوویت یونین کی مخالفت کی۔ اب امریکی بے وفائی کے بعد چین کے بعد روس ہی ہمیں سہارا نظر آ رہا ہے۔
سوویت یونین کے خاتمے کا دنیا کی پس ماندہ کمزور قوموں کو نہ صرف نقصان ہوا بلکہ امریکی مظالم سے خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور پاکستان کے پرخچے اڑ گئے۔ پاکستان دہشت گردوں اور دہشت گردی کا گڑھ بن گیا۔ اسلحہ مافیا نے فرقہ واریت پھیلا کر پورے ملک کو میدان جنگ بنا ڈالا۔ کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیاں ہیروئن کے نشے نے تباہ کر دیں۔ جب کہ بھارت نے ہر حالت میں اپنے ملک اور عوام کا مفاد پیش نظر رکھا۔ ہر طرح کے امریکی دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے خاص طور پر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران ہر قسم کے دباؤ کا مقابلہ کیا۔جب کہ پاکستانی حکمرانوں نے امریکی دباؤ کا کیا مقابلہ کرنا تھا' وہ تو لیٹ ہی گئے اور سو جوتے سو پیاز کھانے کے باوجود ابھی تک لیٹے ہوئے ہیں۔ اب تو آپ کو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ عوام دوست عوام دشمن قیادت کیا ہوتی ہے۔
اسٹرٹیجک گہرائی کے نسخے نے پاکستان کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سوچ اس کے پیچھے یہ تھی کہ اپنے اثرورسوخ کو افغانستان تک پھیلا کر بھارت کا مقابلہ کیا جائے۔ اس کے لیے مذہب کے ہتھیار کو استعمال کیا گیا۔ چنانچہ افغانستان اور پاکستان میں مذہبی گروہوں کو تخلیق کیا گیا۔ ریاستی سطح پر مذہبی جنونیت کو فروغ دیا گیا جو دہشت گردی کی شکل اختیار کر گئی اور آخر کار اس نے پاکستان کی قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کر ڈالا۔
ذاتی اقتدار اور امریکی مفادات ہی تھے جس کے لیے اپنے ہاتھوں ہم نے اپنا ملک توڑ کر بنگلہ دیش بنا ڈالا۔ مشہور زمانہ نظریہ ضرورت کے تخلیق کردہ اور جنرل ایوب خان کے وزیر قانون جسٹس منیر احمد لکھتے ہیں کہ صدر ایوب نے میرے ذریعے بنگالیوں کو کہلوایا کہ وہ مغربی پاکستان سے ناطہ توڑ کر اپنا ملک علیحدہ کر لیں لیکن بنگالیوں نے یہ بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکثریت میں ہیں۔ انھیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کا ٹوٹنا امریکا کی ضرورت تھی کیونکہ سیاسی طور پر باشعور بنگالیوں کی موجودگی میں امریکا سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑ کر دنیا کا بادشاہ نہیں بن سکتا تھا۔
امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے یہ بھی فرمائش امریکا سے کی ہے کہ امریکا بھارت سے اتنے تعلقات بڑھائے جتنا ہم پسند کریں یعنی امریکا کو ڈکٹیشن دی جا رہی ہے... یہ تو وہی بات ہوئی کہ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔ پاکستانی قوم اپنے جغرافیہ کی یرغمال بن کر رہ گئی ہے۔ اس جغرافیے نے پاکستانی قوم کو تباہی بربادی کے سوا کچھ نہیںدیا۔ لیکن پاکستان پر حکمرانی کرنے والے طبقوں کو سب کچھ مل گیا۔ انھوں نے پاکستانی عوام کا خون بیچ کر دولت کے پہاڑ کھڑے کر لیے۔
جولائی کے آخر سے اگست کے آخر کا وقت پاکستان کے حالات کے حوالے سے اہم وقت ہے۔
اس میں پہلی چیزاعتماد ہے کہ دونوں میں اعتماد ہونا چاہیے۔ اگر آپ بھارت کے ساتھ اتنے تعلقات بڑھائیں گے کہ سیکیورٹی عدم توازن ہو گا تو اس کا مطلب ہے کہ اسٹرٹیجک تعلق آگے نہیں چل سکتا۔ مشیر خارجہ کے اس بیان پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ پچھلے ستر سال سے ہماری خارجہ پالیسی امریکی خوشنودگی پر مبنی رہی ہے۔ پھر اس پر گلہ شکوہ کیسا۔ مشیر خارجہ کا بیان ہی بتاتا ہے کہ دنیا خاص طور پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں ہماری کیا عزت ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ امریکا ہمارے پاس صرف اس وقت آتا ہے جب اس کو ہماری ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بڑا ہی مایوس کن فقرہ تو یہ ہے ہماری اوقات۔
پاک امریکا تعلقات کی پوری تاریخ اعتماد کے بحران سے عبارت ہے۔ امریکا جیسی واحد عالمی قوت کے ساتھ پاکستان جیسے ملک کے تعلقات برابری کی سطح پر کیسے ہو سکتے ہیں جو ہر معاملہ میں امریکا کا دست نگر رہا ہو۔ جب برابری کی سطح پر تعلقات نہیں ہوں گے تو اعتماد کا بحران تو پیدا ہو گا۔ ہمارے حکمران طبقات نے امریکی خوشنودگی کے حصول کے لیے ہر حد پار کرلی۔
ان کے پیش نظر ہر دور میں ذاتی اقتدار اور ذاتی مفاد رہا' پاکستان اور پاکستانی قوم کا مفاد نہیں۔ ان حکمران طبقات نے پاکستانی تاریخ میں پاکستانی عوام کو اپنے اقتدار اور مفادات کی قربان گاہ پر لٹکائے رکھا۔ مثال کے طور پر موجودہ روس ماضی کا سوویت یونین ایک زمانے تک ہمارا بدترین دشمن تھا۔ افغانستان کی جنگ میں امریکی محبت میں ہم نے اپنے لاکھوں آدمی مروا دیے۔ امریکی پروپیگنڈے کا اسیر ہو کر کہ سوویت یونین گرم پانیوں تک نہ پہنچ سکے۔ ہم نے خامخواہ سابق سوویت یونین کی مخالفت کی۔ اب امریکی بے وفائی کے بعد چین کے بعد روس ہی ہمیں سہارا نظر آ رہا ہے۔
سوویت یونین کے خاتمے کا دنیا کی پس ماندہ کمزور قوموں کو نہ صرف نقصان ہوا بلکہ امریکی مظالم سے خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور پاکستان کے پرخچے اڑ گئے۔ پاکستان دہشت گردوں اور دہشت گردی کا گڑھ بن گیا۔ اسلحہ مافیا نے فرقہ واریت پھیلا کر پورے ملک کو میدان جنگ بنا ڈالا۔ کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیاں ہیروئن کے نشے نے تباہ کر دیں۔ جب کہ بھارت نے ہر حالت میں اپنے ملک اور عوام کا مفاد پیش نظر رکھا۔ ہر طرح کے امریکی دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے خاص طور پر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران ہر قسم کے دباؤ کا مقابلہ کیا۔جب کہ پاکستانی حکمرانوں نے امریکی دباؤ کا کیا مقابلہ کرنا تھا' وہ تو لیٹ ہی گئے اور سو جوتے سو پیاز کھانے کے باوجود ابھی تک لیٹے ہوئے ہیں۔ اب تو آپ کو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ عوام دوست عوام دشمن قیادت کیا ہوتی ہے۔
اسٹرٹیجک گہرائی کے نسخے نے پاکستان کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سوچ اس کے پیچھے یہ تھی کہ اپنے اثرورسوخ کو افغانستان تک پھیلا کر بھارت کا مقابلہ کیا جائے۔ اس کے لیے مذہب کے ہتھیار کو استعمال کیا گیا۔ چنانچہ افغانستان اور پاکستان میں مذہبی گروہوں کو تخلیق کیا گیا۔ ریاستی سطح پر مذہبی جنونیت کو فروغ دیا گیا جو دہشت گردی کی شکل اختیار کر گئی اور آخر کار اس نے پاکستان کی قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کر ڈالا۔
ذاتی اقتدار اور امریکی مفادات ہی تھے جس کے لیے اپنے ہاتھوں ہم نے اپنا ملک توڑ کر بنگلہ دیش بنا ڈالا۔ مشہور زمانہ نظریہ ضرورت کے تخلیق کردہ اور جنرل ایوب خان کے وزیر قانون جسٹس منیر احمد لکھتے ہیں کہ صدر ایوب نے میرے ذریعے بنگالیوں کو کہلوایا کہ وہ مغربی پاکستان سے ناطہ توڑ کر اپنا ملک علیحدہ کر لیں لیکن بنگالیوں نے یہ بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکثریت میں ہیں۔ انھیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کا ٹوٹنا امریکا کی ضرورت تھی کیونکہ سیاسی طور پر باشعور بنگالیوں کی موجودگی میں امریکا سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑ کر دنیا کا بادشاہ نہیں بن سکتا تھا۔
امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے یہ بھی فرمائش امریکا سے کی ہے کہ امریکا بھارت سے اتنے تعلقات بڑھائے جتنا ہم پسند کریں یعنی امریکا کو ڈکٹیشن دی جا رہی ہے... یہ تو وہی بات ہوئی کہ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔ پاکستانی قوم اپنے جغرافیہ کی یرغمال بن کر رہ گئی ہے۔ اس جغرافیے نے پاکستانی قوم کو تباہی بربادی کے سوا کچھ نہیںدیا۔ لیکن پاکستان پر حکمرانی کرنے والے طبقوں کو سب کچھ مل گیا۔ انھوں نے پاکستانی عوام کا خون بیچ کر دولت کے پہاڑ کھڑے کر لیے۔
جولائی کے آخر سے اگست کے آخر کا وقت پاکستان کے حالات کے حوالے سے اہم وقت ہے۔