رمضان اور ہم
رمضان اور عیدین مسلمانوں کے دو اہم تہوار ہیں جس کی بڑے اہتمام سے تیاری بھی کی جاتی ہے
رمضان اور عیدین مسلمانوں کے دو اہم تہوار ہیں جس کی بڑے اہتمام سے تیاری بھی کی جاتی ہے لیکن اس کی تیاری کرنے والے عموماً دو طرح کے مسلمان نظر آتے ہیں، ایک وہ جو رمضان سے قبل رمضان کی تیاری کرتے ہیں، دوسرے وہ جو رمضان سے قبل ہی عید کی تیاری کرنا شروع کردیتے ہیں، عید کا چاند نظر آنے کے بعد بھی رات گئے تک جاری رکھتے ہیں۔ یوں تو ہر ایک کا حق ہے کہ وہ جیسے چاہے جیے، جیسے چاہے ان تہواروں کی تیاری کرے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے شہری زندگی کے معمولات بہت متاثر ہوتے ہیں اور جید علماء بھی شدید اختلافات رکھتے ہوئے عوام کو وعظ اور نصیحت کرتے نظر آتے ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے والے عام طور پر رمضان کے مہینے سے قبل ہی اپنی ضروری خریداری اور مصروفیات ختم کرلیتے ہیں اور پھر پورے رمضان عبادت اس روایتی طریقے سے کرتے ہیں جس کی جید علماء تائید بھی کرتے ہیں، تاہم ایک بڑی تعداد اب جس طریقے سے رمضان کا مہینہ گزارتی ہے اس سے نہ صرف شہری زندگی کے معمولات بری طرح متاثر ہورہے ہیں بلکہ جید علماء تو سخت تنقید کرتے ہوئے اس طریقہ کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے جوڑتے ہیں۔
شہریوں کی ایک بڑی تعداد شاپنگ سینٹرز میں اس طرح خریداری کررہی ہوتی ہے کہ شاید زندگی میں دوبارہ موقع نہ ملے، اسی سبب صرف شاپنگ سینٹرز سے لے کر دودھ دہی اور افطاری کی دکانوں تک کے باہر گاڑیوں اور لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے، جس کے سبب آپ کو کتنی ہی ایمرجنسی کیوں نہ ہو، گزرنے کے لیے راستہ نہایت تنگ اور مشکل تر ملتا ہے۔
ایک چلن تو یہ پختہ ہوگیا ہے کہ جناب جس گلی یا سڑک پر چاہیں راستہ بند کریں اور رات بھر کرکٹ کھیلیں، خاص کر ہفتے کی رات کو، کیونکہ اگلے روز چھٹی ہوگی اور پھر جتنا چاہیں پڑے سوتے رہیں کہ روزہ رکھ کر جاگیں گے تو روزہ محسوس بھی ہوگا۔ راقم کا ہفتے کی رات ایک اسپتال سے واپس گھر جانا ہوا تو محض بیس، پچیس منٹ کے سفر میں تقریباً چھ سات جگہ راستے بند پائے کہ نوجوان لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے اور کنڈے کی لائٹس جگمگا رہی تھیں۔ ابھی جمعے کی ہی بات ہے کہ امام مسجد اپنے خطبے میں فرما رہے تھے کہ مسلمانوں ہوش میں آؤ، یہ رمضان اس لیے نہیں ہے کہ کچھ وقت شاپنگ میں گزار دو، کچھ ہوٹل اور چائے خانوں میں یا رات کو کرکٹ کھیل کر صبح دیر تک سوکر اور شام کو کسی ٹی وی چینل پر کمرشل اسلامی رمضان نشریات دیکھ کر جس میں الٹا اسلامی تعلیمات اور شعائر اسلامی کا مذاق اڑایا جاتا ہو، یہ تمام آپ کے رمضان کو تباہ کرکے اللہ کی ناراضگی کو دعوت دیتی ہیں۔
خطبے میں امام صاحب کا شکوہ بجا تھا، خاص کر یہ بات بھی بجا تھی کہ ناظرین کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ وہ رمضان نشریات دیکھ کر کوئی بڑا ثواب کما رہی ہے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، مثلاً اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلام میں میوزک، مخلوط مجلس یا پروگرام، بے پردگی اور دکھاوے کی کوئی گنجائش نہیں، اسلام سادگی کا درس دیتا ہے، کسی کی مدد خاموشی سے کرنے کو اچھا عمل قرار دیتا ہے۔ عصر سے مغرب کا وقت اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا کرنے کا وقت کہا جاتا ہے، رات عبادت میں زیادہ سے زیادہ گزارنے کی ہوتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب باتیں کسی چینل کی رمضان نشریات کا حصہ ہوتی ہیں؟ ہمارے ایک ساتھی تو اپنے گھر کا ٹی وی ہی بند کرکے رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھئی ہمیں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے، رمضان کی برکت یا ٹی وی، دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
ہم اگر اپنے اسلاف پر نظر ڈالیں، ان محترم اسلامی شخصیات کی زندگی پر نظر ڈالیں جنھیں ہم اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں تو نہ صرف ہمیں بھرپور رہنمائی ملتی ہے بلکہ اس رہنمائی سے عمل کرکے ہماری زندگی آسان تر بھی بن سکتی ہے۔ حضرت علیؓ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فقر اور درویشی ان کا خاصہ تھی، ہفتوں گھر کا چولہا نہیں جلتا تھا، بھوک کی شدت ستاتی تو پیٹ پر آپ پتھر باندھ لیتے تھے۔
عہد فاروقی میں جب آپ کا وظیفہ مقرر ہوا تو آپ اپنی ضرورت کے علاوہ تمام مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے، خلیفہ بننے کے بعد بھی سادہ سا لباس اور غذا ان کی خاص پہچان تھی۔ آپؓ فرماتے تھے کہ خلیفہ وقت کو مسلمانوں کے مال میں صرف اتنا حق ہے کہ سادگی کے ساتھ خود کھائے اور اپنے اہل وعیال کو کھلائے، بقیہ سارا مال خلق خدا کے لیے ہے۔ دورِ خلافت میں آپ کی رہائش (وہی پرانی والی) مٹی اور گارے سے بنی ہوئی حجرے پر مشتمل تھی، جب دارالخلافہ مدینے سے کوفہ منتقل ہوگیا تو آپ نے ایک میدان میں سادہ خیمہ لگوا کر اس میں قیام کیا اور فرمایا کہ حضرت عمرؓ نے ہمیشہ محلات کو حقارت کی نظر سے دیکھا، مجھے بھی اس کی حاجت نہیں، میرے لیے میدان میں خیمہ کافی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے اپنے دور خلافت میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میری تلوار کون خریدتا ہے؟ واللہ اگر میرے پاس تہبند کی قیمت ہوتی (جس کی مجھے اشد ضرورت ہے) تو اس کو فروخت نہ کرتا۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ امیرالمومنین میں آپ کو تہبند کی قیمت بطور قرض دیتا ہوں۔ ایک مرتبہ آپ نے رات بھر ایک باغ میں مزدوری کی اور تھوڑے سے جو حاصل کیے اور صبح کو پکوانے کا انتظام کیا، ابھی کھانا تیار ہی ہوا تھا کہ ایک مسکین نے صدا لگائی، پھر ایک مسکین یتیم نے اور پھر ایک مشرک قیدی نے سوال کر ڈالا، آپؓ نے ایک ایک کرکے تینوں کو یہ کھانا تقسیم کردیا اور خود بھی فاقہ کیا اور اپنے گھر والوں کو بھی کرایا۔ آپؓ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ زمیں پر بلا تکلف سوجایا کرتے تھے، معمولی لباس میں بازار کا گشت کرتے تھے۔ غرض آپؓ کی شخصیت کے لاتعداد پہلو ہیں اور ہر پہلو آج ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ یہاں راقم نے صرف ایک پہلو کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے ''مثل عیسیٰ۔ علی مرتضیٰ'' نامی کتابچے میں تفصیلی ذکر کیا ہے۔
ویسے تو تمام خلفائے راشدین سمیت تمام اسلامی نامور شخصیات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں لیکن حضرت علیؓ کو ہمارے ہاں عوامی سطح پر متفقہ طور پر بہت زیادہ احترام دیا جاتا ہے، اسی لیے راقم نے ان کی شخصیت کے حوالے سے یہاں تذکرہ کرنا مناسب سمجھا کہ عام لوگ بھی اس طرف غور کریں کہ جن عظیم شخصیتوں سے اظہار محبت اور محبت کے دعوے وغیرہ کرتے ہیں، انھوں نے ہمیں کس طرح زندگی گزار کر دکھائی اور ہم کس قدر مخالف سمت میں جارہے ہیں، حتیٰ کہ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی ہماری اکثریت دنیا کمانے میں، وہ بھی غلط طریقے سے کمانے کی دھن میں لگی ہوئی ہے، جب کہ ہمارے ہیرو عام دنوں میں بھی سادہ زندگی گزارتے اور لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ کس طرح صحابی رمضان کے مہینے میں رات گئے تک قرآن پڑھتے اور عام دنوں میں بھی کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے اور اس پر غور کرتے اور سب سے بڑھ کرخود آپ ﷺ اپنے صحابیوں سے قرآن کی تلاوت کی فرمائش کرتے اور سنتے، ایسے کہ آنسو نکل آتے۔ آئیے غور کریں، ہم کیا کر رہے ہیں؟
دیکھنے میں آیا ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے والے عام طور پر رمضان کے مہینے سے قبل ہی اپنی ضروری خریداری اور مصروفیات ختم کرلیتے ہیں اور پھر پورے رمضان عبادت اس روایتی طریقے سے کرتے ہیں جس کی جید علماء تائید بھی کرتے ہیں، تاہم ایک بڑی تعداد اب جس طریقے سے رمضان کا مہینہ گزارتی ہے اس سے نہ صرف شہری زندگی کے معمولات بری طرح متاثر ہورہے ہیں بلکہ جید علماء تو سخت تنقید کرتے ہوئے اس طریقہ کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے جوڑتے ہیں۔
شہریوں کی ایک بڑی تعداد شاپنگ سینٹرز میں اس طرح خریداری کررہی ہوتی ہے کہ شاید زندگی میں دوبارہ موقع نہ ملے، اسی سبب صرف شاپنگ سینٹرز سے لے کر دودھ دہی اور افطاری کی دکانوں تک کے باہر گاڑیوں اور لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے، جس کے سبب آپ کو کتنی ہی ایمرجنسی کیوں نہ ہو، گزرنے کے لیے راستہ نہایت تنگ اور مشکل تر ملتا ہے۔
ایک چلن تو یہ پختہ ہوگیا ہے کہ جناب جس گلی یا سڑک پر چاہیں راستہ بند کریں اور رات بھر کرکٹ کھیلیں، خاص کر ہفتے کی رات کو، کیونکہ اگلے روز چھٹی ہوگی اور پھر جتنا چاہیں پڑے سوتے رہیں کہ روزہ رکھ کر جاگیں گے تو روزہ محسوس بھی ہوگا۔ راقم کا ہفتے کی رات ایک اسپتال سے واپس گھر جانا ہوا تو محض بیس، پچیس منٹ کے سفر میں تقریباً چھ سات جگہ راستے بند پائے کہ نوجوان لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے اور کنڈے کی لائٹس جگمگا رہی تھیں۔ ابھی جمعے کی ہی بات ہے کہ امام مسجد اپنے خطبے میں فرما رہے تھے کہ مسلمانوں ہوش میں آؤ، یہ رمضان اس لیے نہیں ہے کہ کچھ وقت شاپنگ میں گزار دو، کچھ ہوٹل اور چائے خانوں میں یا رات کو کرکٹ کھیل کر صبح دیر تک سوکر اور شام کو کسی ٹی وی چینل پر کمرشل اسلامی رمضان نشریات دیکھ کر جس میں الٹا اسلامی تعلیمات اور شعائر اسلامی کا مذاق اڑایا جاتا ہو، یہ تمام آپ کے رمضان کو تباہ کرکے اللہ کی ناراضگی کو دعوت دیتی ہیں۔
خطبے میں امام صاحب کا شکوہ بجا تھا، خاص کر یہ بات بھی بجا تھی کہ ناظرین کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ وہ رمضان نشریات دیکھ کر کوئی بڑا ثواب کما رہی ہے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، مثلاً اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلام میں میوزک، مخلوط مجلس یا پروگرام، بے پردگی اور دکھاوے کی کوئی گنجائش نہیں، اسلام سادگی کا درس دیتا ہے، کسی کی مدد خاموشی سے کرنے کو اچھا عمل قرار دیتا ہے۔ عصر سے مغرب کا وقت اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا کرنے کا وقت کہا جاتا ہے، رات عبادت میں زیادہ سے زیادہ گزارنے کی ہوتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب باتیں کسی چینل کی رمضان نشریات کا حصہ ہوتی ہیں؟ ہمارے ایک ساتھی تو اپنے گھر کا ٹی وی ہی بند کرکے رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھئی ہمیں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے، رمضان کی برکت یا ٹی وی، دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
ہم اگر اپنے اسلاف پر نظر ڈالیں، ان محترم اسلامی شخصیات کی زندگی پر نظر ڈالیں جنھیں ہم اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں تو نہ صرف ہمیں بھرپور رہنمائی ملتی ہے بلکہ اس رہنمائی سے عمل کرکے ہماری زندگی آسان تر بھی بن سکتی ہے۔ حضرت علیؓ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فقر اور درویشی ان کا خاصہ تھی، ہفتوں گھر کا چولہا نہیں جلتا تھا، بھوک کی شدت ستاتی تو پیٹ پر آپ پتھر باندھ لیتے تھے۔
عہد فاروقی میں جب آپ کا وظیفہ مقرر ہوا تو آپ اپنی ضرورت کے علاوہ تمام مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے، خلیفہ بننے کے بعد بھی سادہ سا لباس اور غذا ان کی خاص پہچان تھی۔ آپؓ فرماتے تھے کہ خلیفہ وقت کو مسلمانوں کے مال میں صرف اتنا حق ہے کہ سادگی کے ساتھ خود کھائے اور اپنے اہل وعیال کو کھلائے، بقیہ سارا مال خلق خدا کے لیے ہے۔ دورِ خلافت میں آپ کی رہائش (وہی پرانی والی) مٹی اور گارے سے بنی ہوئی حجرے پر مشتمل تھی، جب دارالخلافہ مدینے سے کوفہ منتقل ہوگیا تو آپ نے ایک میدان میں سادہ خیمہ لگوا کر اس میں قیام کیا اور فرمایا کہ حضرت عمرؓ نے ہمیشہ محلات کو حقارت کی نظر سے دیکھا، مجھے بھی اس کی حاجت نہیں، میرے لیے میدان میں خیمہ کافی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے اپنے دور خلافت میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میری تلوار کون خریدتا ہے؟ واللہ اگر میرے پاس تہبند کی قیمت ہوتی (جس کی مجھے اشد ضرورت ہے) تو اس کو فروخت نہ کرتا۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ امیرالمومنین میں آپ کو تہبند کی قیمت بطور قرض دیتا ہوں۔ ایک مرتبہ آپ نے رات بھر ایک باغ میں مزدوری کی اور تھوڑے سے جو حاصل کیے اور صبح کو پکوانے کا انتظام کیا، ابھی کھانا تیار ہی ہوا تھا کہ ایک مسکین نے صدا لگائی، پھر ایک مسکین یتیم نے اور پھر ایک مشرک قیدی نے سوال کر ڈالا، آپؓ نے ایک ایک کرکے تینوں کو یہ کھانا تقسیم کردیا اور خود بھی فاقہ کیا اور اپنے گھر والوں کو بھی کرایا۔ آپؓ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ زمیں پر بلا تکلف سوجایا کرتے تھے، معمولی لباس میں بازار کا گشت کرتے تھے۔ غرض آپؓ کی شخصیت کے لاتعداد پہلو ہیں اور ہر پہلو آج ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ یہاں راقم نے صرف ایک پہلو کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے ''مثل عیسیٰ۔ علی مرتضیٰ'' نامی کتابچے میں تفصیلی ذکر کیا ہے۔
ویسے تو تمام خلفائے راشدین سمیت تمام اسلامی نامور شخصیات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں لیکن حضرت علیؓ کو ہمارے ہاں عوامی سطح پر متفقہ طور پر بہت زیادہ احترام دیا جاتا ہے، اسی لیے راقم نے ان کی شخصیت کے حوالے سے یہاں تذکرہ کرنا مناسب سمجھا کہ عام لوگ بھی اس طرف غور کریں کہ جن عظیم شخصیتوں سے اظہار محبت اور محبت کے دعوے وغیرہ کرتے ہیں، انھوں نے ہمیں کس طرح زندگی گزار کر دکھائی اور ہم کس قدر مخالف سمت میں جارہے ہیں، حتیٰ کہ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی ہماری اکثریت دنیا کمانے میں، وہ بھی غلط طریقے سے کمانے کی دھن میں لگی ہوئی ہے، جب کہ ہمارے ہیرو عام دنوں میں بھی سادہ زندگی گزارتے اور لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ کس طرح صحابی رمضان کے مہینے میں رات گئے تک قرآن پڑھتے اور عام دنوں میں بھی کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے اور اس پر غور کرتے اور سب سے بڑھ کرخود آپ ﷺ اپنے صحابیوں سے قرآن کی تلاوت کی فرمائش کرتے اور سنتے، ایسے کہ آنسو نکل آتے۔ آئیے غور کریں، ہم کیا کر رہے ہیں؟