ایدھی خالد جالب

میں کالم لکھنے بیٹھا ہوں،یہ 11 جون 2016 اور رمضان شریف کی 5 تاریخ ہے

ISLAMABAD:
میں کالم لکھنے بیٹھا ہوں،یہ 11 جون 2016 اور رمضان شریف کی 5 تاریخ ہے، صبح کے 7 بج رہے ہیں، اور میرے موبائل فون کی بیل بج رہی ہے، بس یونہی خیال آرہا ہے کہ اتنی صبح کون ہے، کوئی پریشانی کی بات اب نہیں رہی، پریشانیاں جھیلنے میں تو ہم نے ریکارڈ قائم کرلیے ہیں۔ میں موبائل فون سن رہا ہوں، لاہور سے میری پوتی تابندہ جالب بول رہی ہے۔ آج کل اسکول بند ہیں تو بچے چھٹیاں گزارنے لاہور گئے ہوئے ہیں۔

ہمارے چاروں طرف پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں، انتہائی بری خبروں نے ہمیں گھیر رکھا ہے، لاہور کی 17 سالہ زینت کو گھر والوں نے جلاکر مار دیا، زمین پر اﷲ کا روپ ماں بھی جلانے والوں میں شامل تھی۔ مانسہرہ کی عنبرین بھی جلادی گئی۔

زینت کا قصور تھا کہ اس نے اپنی پسند کی شادی کرلی تھی، زینت کو جینے کا حق دینا چاہیے تھا، اس کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہیے تھا مگر زینت کے گھر والوں نے اپنی جھوٹی اناؤں کی بھینٹ اسے چڑھادیا۔ ''دیکھو آج وی صدیاں پچھے ایتھے دا انسان'' بہت پہلے رحمت عالم محمدؐ بتا چکے مگر ہم اپنی اناؤں کے اسیر، وحشی بن جاتے ہیں، خدا اور رسولؐؐ کو بھول جاتے ہیں، خیر زینت اور عنبرین ہی کیا ہم تو خدا رسول، قرآن کو ہر معاملے میں بھولے بیٹھے ہیں، خیر یہ رونا پیٹنا میں بہت کرچکا، یہ باتوں سے نہیں مانیںگے، یہ لاتوں سے مانیںگے۔

کالم لکھنے بیٹھا تو پہلے سے ہی ایدھی صاحب ذہن میں موجود تھے۔ انھی کے بارے میں بات ہوگی، پہلے ایدھی صاحب کی ایک بات سن لیجیے، یہ بات انھوں نے کراچی پریس کلب میں کی تھی۔ ایدھی صاحب سال 2009 کا ''حبیب جالب امن ایوارڈ'' وصول کرنے پریس کلب آئے تھے۔ انھوں نے کہا تھا ''میں آنے والے دنوں میں 'خونی انقلاب' دیکھ رہا ہوں''۔

ایدھی صاحب کے ''خونی انقلاب'' کو وقت کے ظالم، بے رحم، بے درد، اپنی ظالمانہ حرکتوں سے قریب تر لارہے ہیں۔ جالب بھی اﷲ سے کہہ رہا ہے:

الٰہی کوئی آندھی اس طرف بھی

پلٹ دے ان کلاں داروں کی صف بھی

زمانے کو جلال اپنا دکھادے

جلادے تخت و تاج ان کے جلادے

سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بطور اعتراف انھی ایدھی صاحب کی عیادت کو سابق دور حکمرانی کے اہم حاکم رحمان ملک پہنچے اور پیشکش کی ''ایدھی صاحب! آپ قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں، زرداری صاحب آپ کا بیرون ملک علاج کروانا چاہتے ہیں''۔


ایدھی صاحب عرصہ ہوا خاصے بیمار ہیں، ڈاکٹر ادیب رضوی کے ہاں ان کا ڈائیلائیسز ہونا ہے۔ وہ چار پانچ سال سے وہیل چیئر پر ہیں، رحمان ملک کی بیرون ملک علاج والی پیشکش کا جواب ایدھی نے یوں دیا ''میںاپنی اسی زمین کا آدمی ہوں، میرا رشتہ اسی مٹی سے ہے، میرا جینا مرنا یہیں ہے''۔

ایدھی کے پاس روپیہ پیسہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں! ان کے پاس کردار کی دولت ہے اور اتنی زیادہ ہے کہ کوئی دوسرا ایدھی نہیں ہے۔ یہ جن کا وطن کی مٹی سے کوئی رشتہ ناتا نہیں ہے، یہی یہ سارے سیاست دان، قبضہ گروپ والے وڈیرے، جاگیردار، سردار، خان ان کے معالج باہر کے ہیں۔ کردار کی دولت کا امیر ترین عبدالستار ایدھی کا معالج ادیب رضوی ہے جو لاکھوں غریبوں کا بھی معالج ہے اور ایدھی کی مٹی کا ہی آدمی ہے۔

ایدھی نے انسانیت کی جو خدمت کی ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے، جہاں ماں باپ بھی ساتھ چھوڑ جائیں ایدھی خود انڈر گراؤنڈ ٹینک میں اترتے ہیں اور چار دن پرانی تعفن زدہ بچے کی لاش کو کندھے پر اٹھاکر باہر لاتے ہیں۔ خود غسل دیتے ہیں، کفن پہناتے ہیں اور تدفین کرتے ہیں۔ ایک نہیں ایدھی کی زندگی میں ایسے ہزاروں واقعات ہیں۔

یہ ہیں عبدالستار ایدھی جن کا ''اپنی مٹی'' سے اتنا گہرا تعلق ہے۔ پھر بھلا یہ غیر کی مٹی سے تعلق کیسے جوڑیں۔ جو بیرون ملک علاج کرواتے ہیں، در اصل ان کا بیرونی مٹی سے گہرا تعلق ہے، ان کی بیرونی شہریت ہے، بیرونی پاسپورٹ ہے، ان کی دولت بیرونی بینکوں میں پڑی ہے، ان کے گھر بیرونی ہیں، لہٰذا وہ سارے ''بیرونیے'' بیرون جائیں، آئیں۔

آئیں پھر جائیں، پھر آئیں پھر جائیں، وہ بھی ان کا وطن اور لوٹ کھسوٹ کے لیے یہ بھی ان کا وطن۔ میں سوچ رہا ہوں بھلا اپنے فقیر منش شاعر خالد علیگ کا ''بیرون'' سے کیا واسطہ، رشتہ ناتا، وہ 80-82 سال کے تھے جب ان کا انتقال ہوا، ساری عمر کراچی کے مضافاتی بستی لانڈھی کے چھوٹے سے گھر میں گزار دی، نہ کوئی گلہ، نہ شکوہ، نہ شکایت۔ میں نے خالد بھائی کے گھر کی بے سروسامانی دیکھ رکھی ہے، خالد بھائی بیمار ہوئے، لیاقت نیشنل اسپتال میں داخل ہوئے، متحدہ قومی موومنٹ سندھ حکومت میں شامل تھی۔ متحدہ والے اسپتال پہنچ گئے۔ سرکار آپ کا علاج کروائے گی۔ خالد علیگ نے جواب دیا ''نہیں، یہ منظور نہیں ہے'' متحدہ والے باز نہ آئے تو خالد علیگ اسپتال چھوڑ کر گھر آگئے۔ گورنر عشرت العباد نے پانچ لاکھ روپے خالد علیگ کے لیے بھجوائے، خالد علیگ نے ٹھکرادیے اور آخرکار ساتھ ایمان کے غریب مزدوروں، مچھیروں کے قبرستان ریڑھی میں ابدی نیند سوگئے۔ میں نے بھی آخری دیدار کیا، ان کی آنکھیں کھلی تھیں، ''منتظر آنکھیں'' ان کا آخری شعر ہے۔

میں اپنی جنگ لڑ بھی چکا ہار بھی چکا

اب میرے بعد میری لڑائی لڑے گا کون

خالد بھائی! آپ کی لڑائی جاری ہے معرکہ ہونے کو ہے۔

ایک ایسا ہی فقیر منش شاعر اور بھی گزرا ہے دنیا والے جسے جالب جالب کہتے تھے۔ جنرل ضیا نے میانوالی جیل میں ڈالا، سخت گرمی کے دن تھی، بہت سی بیماریاں لیے جالب میانوالی کی جیل میں تھے، جیل سے وہ اور بیماریاں بھی لے کر باہر آئے۔ جنرل ضیا نے اپنے گورنر پنجاب جنرل جیلانی کو عیادت کے لیے بھیجا، جنرل جیلانی نے پیشکش کی ''حکومت آپ کا بیرون ملک علاج کروانا چاہتی ہے'' جالب کا مختصر جواب تھا ''جہاں غریبوں کو ڈسپرین نہیں ملتی میں کیوں بیرون ملک علاج کے لیے جاؤں''۔

نواز شریف حکومت آئی، وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں اسپتال آئے ''اوئے جالب! (ہاتھ جوڑتے ہوئے) خدا کے واسطے ہمارا پیچھا چھوڑ، ہم تمہیں سرکاری خرچ پر باہر بھجوارہے ہیں، جالب کا جواب ''اوئے وائیں! کیا جیلیں اس لیے کاٹی تھیں کہ ہم بیرون ملک علاج کروائیں اور غریبوں کو ڈسپرین نہ ملے''۔ پھر بی بی بے نظیر بھٹو آگئیں، وہ بھی عیادت کو آئیں، جالب صاحب! آپ ملک و قوم کا سرمایہ ہیں، حکومت آپ کو بیرون ملک علاج کے لیے بھیجے گی۔ جالب صاحب کا وہی جواب تھا ''بی بی! یہاں لوگوں کو ڈسپرین نہیں ملتی، میں کیسے بیرون ملک علاج کے لیے چلا جاؤں'' اور پھر جالب صاحب بھی ساتھ ایمان کے اپنی قبر میں اتر گئے۔ میں جب کسی ترقی پسند کہلانے والے بیمار قلم کار کے لیے اس کے ترقی پسند ساتھیوں کے دستخط شدہ بیان پڑھتا ہوں ''فلاں کا سرکاری خرچ پر علاج کروایا جائے، ترقی پسند ادیب شاعر دانشور، مزدور رہنماؤں کی گورنر، وزیراعلیٰ سے اپیل''، تو دل بڑا کڑھتا ہے۔

یارو! کیوں ظالموں سے علاج کی بھیک مانگتے ہو، اپنے غیرت مند ساتھیوں کی طرح مرنا قبول کیوں نہیں کرتے۔
Load Next Story