صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروانِ حسینؓ
کراچی میں کیا نہیں ہورہا ،تھوڑی تھوڑی دیر بعد سفید چادر والے تابوت اور ورثاء کی وہی چیخیں ہیں، وہیں بہتے آنسو۔۔۔۔!
آج محرّم کی 8 تاریخ ہے، اب تو عرصہ ہوا، ہمارے شہر میں محرم ہی رہتا ہے،کراچی میں روز آٹھ، دس لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں، کبھی کبھی مرنے والوں کی تعداد پندرہ بیس، پچیس بھی ہوجاتی ہے۔ محرم کا چاند ہمارے ہاں کربلا کے سارے کرداروں کے ساتھ نکلتا ہے۔
''دمشق'' میں یزید بیٹھا ہے، ''کوفے '' میں ابنِ زیاد کو والی مقرر کیا جاتا ہے، اور اس کے سپرد یہ کام کیا جاتا ہے کہ حسینؓ ان کے خاندان اور ساتھیوں کو رُسوا کرو، ان پر ظلم کی انتہائیں کر ڈالو اور آخر میں قتل کردو۔
ہمارے شہر کراچی میں کیا کچھ نہیں ہورہا ہے ۔ دہشت گرد اور ٹارگٹ کلرز اس شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں، لوگ مر رہے ہیں، گھر جل رہے ہیں، عورتیں، بچے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں، خون میں لت پت زخمیوں کو چنگھاڑتی ایمبولینسیں آتی ہیں اور لے جاتی ہیں، اسپتالوں میں مائیں، بہنیں، بھائی، بیٹے، بیٹیاں، دوست احباب جمع ہیں، سراسیمگی کا عالم ہے، پھر سفید چادر میںلپٹا تابوت وارڈ سے باہر آتا ہے، اب مرنے والے کے ورثا کی چیخیں، اور بس چیخیں ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سفید چادر والے تابوت آرہے ہیں اور ورثاء کی وہی چیخیں ہیں، وہیں بہتے آنسو۔۔۔۔!
شہر میں بہت سے نئے قبرستان آباد ہوگئے ہیں، جنازے قبرستان کی طرف جارہے ہیں، اپنے پیاروں کو قبروں میں اُتارا جارہا ہے، اُجڑے گھروں میں سوگ ہے، ماتم ہے، آہیں سسکیاں ہیں، اور خلاؤں میں دور تک کچھ تلاش کرتی آنکھیں ہیں اور بس!
یہ کربلا کا منظر ہے۔ لاشیں گرا کے ، گھر جلا کے، یزیدی لشکر کے درندے بخیر و عافیت اپنے لشکر میں واپس جاچکے ہیں، اب ان کا سپہ سالار ابنِ زیاد، شمر سے صلاح مشورہ کررہا ہے کہ نہتے شہریوں پر اگلا حملہ کہاں اور کیسے کرنا ہے، پورا کوفہ ابنِ زیاد کے ہاتھ پر یزیدی بیعت کرچکا ہے۔ شہر کے رؤسا، علم و دانش والے سب یزید کے ساتھ ہیں، کوفے والے اس بات پر متفق ہیں کہ ''ہمیں کیا پڑی کہ یزید کی دشمنی مول لیں''۔ اہلِ کوفہ سب سمجھتے ہیں کہ یزید پلید ہے، مگر اپنا مال ومتاع بچانے اور عیش وآرام کے لیے ''پلیدی'' قبول ہے۔ حسینؓ کی ''پاکیزگی'' قبول نہیں۔ کوفہ کی تلواریں، خزانے، حسینؓ کے خلاف، ابنِ زیاد کے ساتھ تھے۔ سنا ہے ستّر ستّر، اسّی اسّی سال کے بوڑھے بھی یزید کے لشکر میں شامل تھے۔ یہی سب کچھ آج بھی ہورہا ہے۔اسلام رسوا ہو رہا ہے۔
عباس ٹاؤن کراچی کی امام بارگاہ میں بعد نماز مغربین مجلس ہورہی تھی کہ ایک زوردار بم دھماکا ہوا، یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ دو چار لوگ موٹر سائیکل کھڑی کرکے بھاگے اور اسی وقت دھماکا ہوگیا۔ دھماکا کرنے والے صاف نکل گئے، پولیس، رینجرز دیکھتے ہی رہ گئے۔ اس دھماکے میں دو افراد مارے گئے اور اٹھارہ زخمی ہوئے۔
''یہ دھماکے اور جنازے'' یہ تو یہاں عرصے سے ہورہا ہے، محرم آتا ہے تو حسینؓ، کربلا، یزید سب یاد آجاتے ہیں۔ یہاں ہزاروں مرچکے کیا بڑے کیا چھوٹے، مگر قاتل کوئی نہیں پکڑا جاتا۔ ''سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں'' بلکہ چپ چاپ یزیدِ وقت کے ساتھ ہیں، اپنے مال و متاع اور عیش و آرام کو بچانے کی خاطر۔
اُدھر غزہ میں کربلا بپا ہے، لاشیں، خون، بربریت وہی منظر ہے۔ کربلا میں عباس علمدار، علی اکبر، قاسم حبیب ابنِ مظاہر جیسے جاں نثار، ننھے علی اصغر، یہ سارے کردار غزہ میں پھر سے نظر آرہے ہیں۔ اسرائیل نے اہلِ غزہ سے کہا ہے کہ وہ شہر خالی کردیں اور جواباً ساری دنیا تماشائی بنی خاموش ہے۔ مسلمان ممالک بھی خاموش ہیں۔
یہ حق اور ناحق کی لڑائی شاید کبھی ختم نہیں ہوگی، یہ پیغمبروں کے پیروکار پیغمبروں کی تعلیمات کے اس درجہ منحرف، اس درجہ منکر...! انسان اشرف المخلوقات ہے اور ساتھ ساتھ ذلّتوں کی انتہاؤں میں ڈوبا اور گِرا ہوا بھی یہی انسان ہے۔ پیغمبروں، اوتاروں کے اثرات، انسان کہلانے والے اس درندے پر ہوئے ہی نہیں۔ کون سی درندگی اس نے چھوڑی ہے، انسان تو صعوبتوں میں مبتلا نظر آتے ہیں، انسان تو اُجاڑ بیابانوں میں کہیں ملتے ہیں، کٹیاؤں میں، جھونپڑوں میں، برے حالوں میں، انسانوں کو ڈھونڈو۔ یہ محل سراؤں کے باسی، یہ سب تو ''حاکم'' کے ساتھ ہیں۔ علم و دانش بھی محل سراؤں میں سجدہ ریز ہے۔ یہ جہاں یونہی تھا اور آج بھی یونہی ہے اور حق سچ کی علامت اُٹھائے ہوئے لوگوں کا کارواں بھی ہر دور میں رواں دواں رہا ہے اور رہے گا، اپنے پختہ یقین کے ساتھ کہ یہی یقین انھیں کہیں جھکنے نہیں دیتا، سلام کے تین اشعار امام حسینؓ کی نذر۔ نذر گزار ہے حبیب جالبؔ:
جھکے گا ظلم کا پرچم، یقین آج بھی ہے
مرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے
ہوائیں لاکھ چلیں، میرا رُخ بدلنے کو
دل و نگاہ میں وہ سرزمین آج بھی ہے
صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروانِ حسینؓ
یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے
''دمشق'' میں یزید بیٹھا ہے، ''کوفے '' میں ابنِ زیاد کو والی مقرر کیا جاتا ہے، اور اس کے سپرد یہ کام کیا جاتا ہے کہ حسینؓ ان کے خاندان اور ساتھیوں کو رُسوا کرو، ان پر ظلم کی انتہائیں کر ڈالو اور آخر میں قتل کردو۔
ہمارے شہر کراچی میں کیا کچھ نہیں ہورہا ہے ۔ دہشت گرد اور ٹارگٹ کلرز اس شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں، لوگ مر رہے ہیں، گھر جل رہے ہیں، عورتیں، بچے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں، خون میں لت پت زخمیوں کو چنگھاڑتی ایمبولینسیں آتی ہیں اور لے جاتی ہیں، اسپتالوں میں مائیں، بہنیں، بھائی، بیٹے، بیٹیاں، دوست احباب جمع ہیں، سراسیمگی کا عالم ہے، پھر سفید چادر میںلپٹا تابوت وارڈ سے باہر آتا ہے، اب مرنے والے کے ورثا کی چیخیں، اور بس چیخیں ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سفید چادر والے تابوت آرہے ہیں اور ورثاء کی وہی چیخیں ہیں، وہیں بہتے آنسو۔۔۔۔!
شہر میں بہت سے نئے قبرستان آباد ہوگئے ہیں، جنازے قبرستان کی طرف جارہے ہیں، اپنے پیاروں کو قبروں میں اُتارا جارہا ہے، اُجڑے گھروں میں سوگ ہے، ماتم ہے، آہیں سسکیاں ہیں، اور خلاؤں میں دور تک کچھ تلاش کرتی آنکھیں ہیں اور بس!
یہ کربلا کا منظر ہے۔ لاشیں گرا کے ، گھر جلا کے، یزیدی لشکر کے درندے بخیر و عافیت اپنے لشکر میں واپس جاچکے ہیں، اب ان کا سپہ سالار ابنِ زیاد، شمر سے صلاح مشورہ کررہا ہے کہ نہتے شہریوں پر اگلا حملہ کہاں اور کیسے کرنا ہے، پورا کوفہ ابنِ زیاد کے ہاتھ پر یزیدی بیعت کرچکا ہے۔ شہر کے رؤسا، علم و دانش والے سب یزید کے ساتھ ہیں، کوفے والے اس بات پر متفق ہیں کہ ''ہمیں کیا پڑی کہ یزید کی دشمنی مول لیں''۔ اہلِ کوفہ سب سمجھتے ہیں کہ یزید پلید ہے، مگر اپنا مال ومتاع بچانے اور عیش وآرام کے لیے ''پلیدی'' قبول ہے۔ حسینؓ کی ''پاکیزگی'' قبول نہیں۔ کوفہ کی تلواریں، خزانے، حسینؓ کے خلاف، ابنِ زیاد کے ساتھ تھے۔ سنا ہے ستّر ستّر، اسّی اسّی سال کے بوڑھے بھی یزید کے لشکر میں شامل تھے۔ یہی سب کچھ آج بھی ہورہا ہے۔اسلام رسوا ہو رہا ہے۔
عباس ٹاؤن کراچی کی امام بارگاہ میں بعد نماز مغربین مجلس ہورہی تھی کہ ایک زوردار بم دھماکا ہوا، یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ دو چار لوگ موٹر سائیکل کھڑی کرکے بھاگے اور اسی وقت دھماکا ہوگیا۔ دھماکا کرنے والے صاف نکل گئے، پولیس، رینجرز دیکھتے ہی رہ گئے۔ اس دھماکے میں دو افراد مارے گئے اور اٹھارہ زخمی ہوئے۔
''یہ دھماکے اور جنازے'' یہ تو یہاں عرصے سے ہورہا ہے، محرم آتا ہے تو حسینؓ، کربلا، یزید سب یاد آجاتے ہیں۔ یہاں ہزاروں مرچکے کیا بڑے کیا چھوٹے، مگر قاتل کوئی نہیں پکڑا جاتا۔ ''سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں'' بلکہ چپ چاپ یزیدِ وقت کے ساتھ ہیں، اپنے مال و متاع اور عیش و آرام کو بچانے کی خاطر۔
اُدھر غزہ میں کربلا بپا ہے، لاشیں، خون، بربریت وہی منظر ہے۔ کربلا میں عباس علمدار، علی اکبر، قاسم حبیب ابنِ مظاہر جیسے جاں نثار، ننھے علی اصغر، یہ سارے کردار غزہ میں پھر سے نظر آرہے ہیں۔ اسرائیل نے اہلِ غزہ سے کہا ہے کہ وہ شہر خالی کردیں اور جواباً ساری دنیا تماشائی بنی خاموش ہے۔ مسلمان ممالک بھی خاموش ہیں۔
یہ حق اور ناحق کی لڑائی شاید کبھی ختم نہیں ہوگی، یہ پیغمبروں کے پیروکار پیغمبروں کی تعلیمات کے اس درجہ منحرف، اس درجہ منکر...! انسان اشرف المخلوقات ہے اور ساتھ ساتھ ذلّتوں کی انتہاؤں میں ڈوبا اور گِرا ہوا بھی یہی انسان ہے۔ پیغمبروں، اوتاروں کے اثرات، انسان کہلانے والے اس درندے پر ہوئے ہی نہیں۔ کون سی درندگی اس نے چھوڑی ہے، انسان تو صعوبتوں میں مبتلا نظر آتے ہیں، انسان تو اُجاڑ بیابانوں میں کہیں ملتے ہیں، کٹیاؤں میں، جھونپڑوں میں، برے حالوں میں، انسانوں کو ڈھونڈو۔ یہ محل سراؤں کے باسی، یہ سب تو ''حاکم'' کے ساتھ ہیں۔ علم و دانش بھی محل سراؤں میں سجدہ ریز ہے۔ یہ جہاں یونہی تھا اور آج بھی یونہی ہے اور حق سچ کی علامت اُٹھائے ہوئے لوگوں کا کارواں بھی ہر دور میں رواں دواں رہا ہے اور رہے گا، اپنے پختہ یقین کے ساتھ کہ یہی یقین انھیں کہیں جھکنے نہیں دیتا، سلام کے تین اشعار امام حسینؓ کی نذر۔ نذر گزار ہے حبیب جالبؔ:
جھکے گا ظلم کا پرچم، یقین آج بھی ہے
مرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے
ہوائیں لاکھ چلیں، میرا رُخ بدلنے کو
دل و نگاہ میں وہ سرزمین آج بھی ہے
صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروانِ حسینؓ
یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے