کیا عید بھی ایک ہی دن ہو گی
لیکن 1970کی دہائی کے بعد تو یاد ہی نہیں پڑتا کہ کب ایک ہی روز ماہ صیام کا آغاز ہوا
اتنی مرتبہ دو اور یہاں تک کہ دو سے بھی زائدعیدیں منانا اور پھر اپنے ہی وطن بلکہ خاص طور پر ایک ہی صوبے کے بعض مخصوص علاقوں میں الگ الگ دن ماہ صیام مبارک کا آغاز کیا جاتا رہا کہ اب ڈھونڈے سے ہی پتہ چل سکتا ہے کہ کب پورے ملک میں ایک ہی دن روزہ رکھا گیا یا پھر ایک ہی دن عیدمنائی گئی تھی ۔خیبر پختونخوا میں چند دہائیاں پہلے یعنی افغان مہاجرین کی آمد سے قبل تک تو زیادہ سے زیادہ دو الگ الگ دن ماہ صیام کا آغاز یا عیدین کا اہتمام ہو جاتا تھا۔پھر بھی عید الاضحی کے دو الگ الگ دن انعقاد کی مثالیں شاذو نادر ہی دیکھنے میں آئی ہوں گی۔
لیکن 1970کی دہائی کے بعد تو یاد ہی نہیں پڑتا کہ کب ایک ہی روز ماہ صیام کا آغاز ہوا اور یا پھر عیدین منعقد ہو ئیں۔اس صورتحال کی وجہ کچھ تو تاریخی حقائق بھی ہیں ۔مثلاً روایتی طور پر خیبر پختونخوا اور اس سے متصل قبائلی علاقوںکے عوام بڑی سنجیدگی کے ساتھ چاند دیکھنے کا اہتمام بھی کرتے رہے ہیں اور فیصلہ سازی کا بھی علاقائی سطح پر اہتمام بھی ہو تا رہا ہے۔ تب اطلاعات تک رسائی کے لوازمات بھی محدود ہوتے تھے اور چاند کے ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے اختلاف رائے کی فضا بھی اتنی سنجیدہ نہیں تھی۔ یوںروزہ اور عید کے حوالے سے مقامی طور پر مذہبی قائدین کا فیصلہ بھی سنجیدگی سے لیا جاتا تھا۔
مسجد قاسم علی خان کا صوبے کے حوالے سے ایک تاریخی پس منظر ہے اور صوبائی دارالحکومت میں واقع ہو نے کی بنا پر جدید ذرایع ابلاغ کے حوالے سے اس مسجد کے خطیب حضرات کے فیصلوں کو وسیع پیمانے پر شہرت بھی ملی ۔ چونکہ نواحی اضلاع میں چاند ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فیصلہ سازی کے روایتی مراکز بتدریج قومی دھارے میں شامل ہوتے گئے اور یوں اختلاف رائے کا رجحان محض مسجد قاسم علی خان تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔دوسری جانب چونکہ افغانستان میں روزے اور عید کا اہتمام سعودی عرب میں کیے جانے والے فیصلوںکی تقلید میں کیا جاتا رہا ہے ، چنانچہ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد پاکستان میں بھی انھوں نے سعودی عرب میں ہونیوالے فیصلوں پر عمل جاری رکھا۔
یوں دو کی بجائے تین مختلف دنوں پر روزوں کا انعقاد اور عید منانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ تو دینی اقدار کا مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں علماء کی کیا سوچ و فکر اور رائے ہو سکتی ہے یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں تاہم عمومی مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ حکومت کی زیر سرپرستی قائم قومی اور زونل سطح کی رویت ھلال کمیٹیاں بھی تو، جید علمائے کرام پر مشتمل ہوتی ہیں۔یہاں تک کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر کمیٹیوں میں بھی شامل دینی اکابرین کی معاشرے میں قدر و منزلت کے حوالے سے بھی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ ان کمیٹیوں کو ہر سطح پر متعلقہ اعلی ترین انتظامی اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے تمام تر ضروری معاونت بھی حاصل ہوتی ہے جن میں خاص طور پر محکمہ موسمیات بحیثیت ادارہ شامل ہوتا ہے۔
عوام کے ذہنوں میں اس موقع پر چاند ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے بے چینی و تشنگی ایک فطرتی امر ہوتا ہے۔جدید ذرایع مواصلات خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی آمد کے بعد یہ عنصر کچھ زیادہ ہی حاوی ہو گیا ہے۔اس کے مثبت و منفی اثرات اپنی جگہ لیکن جس ماحول اور تقاضو ں کی حامل فضا کے تابع رہ کر اس انتہائی اہمیت کے حامل خالصتاً دینی مسئلے کا دینی روح کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے، وہ ہمیشہ سے ہی شک و شبہ اور اختلاف رائے کی بنا پر متاثر ہوتی محسوس کی گئی ۔ اس پر نہ صرف دینی و حکومتی بلکہ سنجیدہ سوچ و فکر کے حامل سیاسی ،معاشرتی و سماجی حلقے بھی متفکر دکھائی دیے۔ منتخب ایوانوں میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث رہا، فیصلہ ساز قائدین کے مابین بھی یقیناً غور و فکر ہوتی رہی اور ذرایع ابلاغ کے فورمز پر رائے عامہ کے قائدین کے مابین تو بڑی شدو مد سے بحث کی جاتی رہی۔ہر مرتبہ بالآخر نتیجہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔روز مرہ زندگی کے دیگر عمومی پہلوؤں اور امور کے حوالے سے اس نوع کی بحث اور اختلاف رائے قابل قبول بھی ہو سکتی ہے اور ایک مثبت رویہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے لیکن اس خالصتاً دینی مسئلے کے حوالے سے اختلاف رائے کا برملا اظہار اور فیصلہ سازیقیناً بہ امر مجبوری ہی قابل قبول ہوتا ہے۔
ان حقائق کے تناظر میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کا رمضان المبارک کے آغاز سے قبل خاص طور پر رویت ھلال کے حوالے سے پشاور کا دورہ اور مسجد قاسم علی خان کے خطیب صاحب، شہاب الدین پوپلزئی سے ملاقات ایک اور مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھی گئی۔ آگے چل کر ایک ہی روز ملک کے مختلف حصوں میں چاند کا نظر آجانا بھی قدرت کی نعمت گراں ثابت ہوئی۔ اور یوںایک ہی روز پورے ملک میں ماہ صیام مبارک کا آغاز ہو گیا۔ دنیا بھر میں بھی ایک اچھا پیغام گیا اور اندرون ملک بھی لوگوں نے سکون اور مکمل یقین کی کیفیت میں اس عظیم عبادت کا آغاز کیا۔ یہ حقیقت توروایتی اور سائنسی اعتبار سے بھی ثابت ہے کہ پورے کرہ ارض میں ایک ہی روز یا ایک ہی وقت میں رویت ھلال کا ہو جانا ممکن نہیں ہے۔اس حوالے سے اختلاف رائے کا ہونا بھی کوئی کم اہمیت کی حامل آزمائش نہیں ہو سکتی۔لیکن فیصلہ سازی کے مرحلے سے بھی گذر جانا یقیناً بہت بڑی آزمائش ہو سکتی ہے۔
یقیناً برس ہا برس سے قائم مرکزی رویت ھلال کمیٹی کی اپنی خدمات ، کردار اور ذمے داریوں کے حوالے سے مستحکم اقدار وجود میں آچکی ہیںلیکن ماسوائے زونل کمیٹیوں کے نچلی سطح پر ان کی ذمے داریوں کی حامل ضلعی اور تحصیل سطح کی سرگرمیوں کو عوام میں اس قدر مقبولیت دلانے کی کوشش دیکھنے میں نہیں آتی جس کے لیے ان کا کردار متقاضی ہوتا ہے۔شہاب الدین پوپلزئی نے اس بار وفاقی حکومت کی بات مانی یا پھر نیشنل ایکشن پلان کو سامنے رکھا، وجہ کوئی بھی ہو سارے ملک میں ان کے فیصلے کو سراہا گیا ہے ۔ بہت عرصے کے بعد سارے ملک میں ایک ہی دن روزہ نے اجتماعی خوشی دی ہے اورموجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ اس قوم کو ایسی ہی خوشیاں ملتی رہنی چاہئیں ۔خدا کر ے کہ پوپلزئی صاحب ماہ صیام کی طرح ماہ شوال کا چاند بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ دیکھیں اورسارے ملک میں ایک ہی دن عید منائی جائے۔
لیکن 1970کی دہائی کے بعد تو یاد ہی نہیں پڑتا کہ کب ایک ہی روز ماہ صیام کا آغاز ہوا اور یا پھر عیدین منعقد ہو ئیں۔اس صورتحال کی وجہ کچھ تو تاریخی حقائق بھی ہیں ۔مثلاً روایتی طور پر خیبر پختونخوا اور اس سے متصل قبائلی علاقوںکے عوام بڑی سنجیدگی کے ساتھ چاند دیکھنے کا اہتمام بھی کرتے رہے ہیں اور فیصلہ سازی کا بھی علاقائی سطح پر اہتمام بھی ہو تا رہا ہے۔ تب اطلاعات تک رسائی کے لوازمات بھی محدود ہوتے تھے اور چاند کے ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے اختلاف رائے کی فضا بھی اتنی سنجیدہ نہیں تھی۔ یوںروزہ اور عید کے حوالے سے مقامی طور پر مذہبی قائدین کا فیصلہ بھی سنجیدگی سے لیا جاتا تھا۔
مسجد قاسم علی خان کا صوبے کے حوالے سے ایک تاریخی پس منظر ہے اور صوبائی دارالحکومت میں واقع ہو نے کی بنا پر جدید ذرایع ابلاغ کے حوالے سے اس مسجد کے خطیب حضرات کے فیصلوں کو وسیع پیمانے پر شہرت بھی ملی ۔ چونکہ نواحی اضلاع میں چاند ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فیصلہ سازی کے روایتی مراکز بتدریج قومی دھارے میں شامل ہوتے گئے اور یوں اختلاف رائے کا رجحان محض مسجد قاسم علی خان تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔دوسری جانب چونکہ افغانستان میں روزے اور عید کا اہتمام سعودی عرب میں کیے جانے والے فیصلوںکی تقلید میں کیا جاتا رہا ہے ، چنانچہ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد پاکستان میں بھی انھوں نے سعودی عرب میں ہونیوالے فیصلوں پر عمل جاری رکھا۔
یوں دو کی بجائے تین مختلف دنوں پر روزوں کا انعقاد اور عید منانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ تو دینی اقدار کا مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں علماء کی کیا سوچ و فکر اور رائے ہو سکتی ہے یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں تاہم عمومی مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ حکومت کی زیر سرپرستی قائم قومی اور زونل سطح کی رویت ھلال کمیٹیاں بھی تو، جید علمائے کرام پر مشتمل ہوتی ہیں۔یہاں تک کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر کمیٹیوں میں بھی شامل دینی اکابرین کی معاشرے میں قدر و منزلت کے حوالے سے بھی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ ان کمیٹیوں کو ہر سطح پر متعلقہ اعلی ترین انتظامی اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے تمام تر ضروری معاونت بھی حاصل ہوتی ہے جن میں خاص طور پر محکمہ موسمیات بحیثیت ادارہ شامل ہوتا ہے۔
عوام کے ذہنوں میں اس موقع پر چاند ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے بے چینی و تشنگی ایک فطرتی امر ہوتا ہے۔جدید ذرایع مواصلات خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی آمد کے بعد یہ عنصر کچھ زیادہ ہی حاوی ہو گیا ہے۔اس کے مثبت و منفی اثرات اپنی جگہ لیکن جس ماحول اور تقاضو ں کی حامل فضا کے تابع رہ کر اس انتہائی اہمیت کے حامل خالصتاً دینی مسئلے کا دینی روح کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے، وہ ہمیشہ سے ہی شک و شبہ اور اختلاف رائے کی بنا پر متاثر ہوتی محسوس کی گئی ۔ اس پر نہ صرف دینی و حکومتی بلکہ سنجیدہ سوچ و فکر کے حامل سیاسی ،معاشرتی و سماجی حلقے بھی متفکر دکھائی دیے۔ منتخب ایوانوں میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث رہا، فیصلہ ساز قائدین کے مابین بھی یقیناً غور و فکر ہوتی رہی اور ذرایع ابلاغ کے فورمز پر رائے عامہ کے قائدین کے مابین تو بڑی شدو مد سے بحث کی جاتی رہی۔ہر مرتبہ بالآخر نتیجہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔روز مرہ زندگی کے دیگر عمومی پہلوؤں اور امور کے حوالے سے اس نوع کی بحث اور اختلاف رائے قابل قبول بھی ہو سکتی ہے اور ایک مثبت رویہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے لیکن اس خالصتاً دینی مسئلے کے حوالے سے اختلاف رائے کا برملا اظہار اور فیصلہ سازیقیناً بہ امر مجبوری ہی قابل قبول ہوتا ہے۔
ان حقائق کے تناظر میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کا رمضان المبارک کے آغاز سے قبل خاص طور پر رویت ھلال کے حوالے سے پشاور کا دورہ اور مسجد قاسم علی خان کے خطیب صاحب، شہاب الدین پوپلزئی سے ملاقات ایک اور مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھی گئی۔ آگے چل کر ایک ہی روز ملک کے مختلف حصوں میں چاند کا نظر آجانا بھی قدرت کی نعمت گراں ثابت ہوئی۔ اور یوںایک ہی روز پورے ملک میں ماہ صیام مبارک کا آغاز ہو گیا۔ دنیا بھر میں بھی ایک اچھا پیغام گیا اور اندرون ملک بھی لوگوں نے سکون اور مکمل یقین کی کیفیت میں اس عظیم عبادت کا آغاز کیا۔ یہ حقیقت توروایتی اور سائنسی اعتبار سے بھی ثابت ہے کہ پورے کرہ ارض میں ایک ہی روز یا ایک ہی وقت میں رویت ھلال کا ہو جانا ممکن نہیں ہے۔اس حوالے سے اختلاف رائے کا ہونا بھی کوئی کم اہمیت کی حامل آزمائش نہیں ہو سکتی۔لیکن فیصلہ سازی کے مرحلے سے بھی گذر جانا یقیناً بہت بڑی آزمائش ہو سکتی ہے۔
یقیناً برس ہا برس سے قائم مرکزی رویت ھلال کمیٹی کی اپنی خدمات ، کردار اور ذمے داریوں کے حوالے سے مستحکم اقدار وجود میں آچکی ہیںلیکن ماسوائے زونل کمیٹیوں کے نچلی سطح پر ان کی ذمے داریوں کی حامل ضلعی اور تحصیل سطح کی سرگرمیوں کو عوام میں اس قدر مقبولیت دلانے کی کوشش دیکھنے میں نہیں آتی جس کے لیے ان کا کردار متقاضی ہوتا ہے۔شہاب الدین پوپلزئی نے اس بار وفاقی حکومت کی بات مانی یا پھر نیشنل ایکشن پلان کو سامنے رکھا، وجہ کوئی بھی ہو سارے ملک میں ان کے فیصلے کو سراہا گیا ہے ۔ بہت عرصے کے بعد سارے ملک میں ایک ہی دن روزہ نے اجتماعی خوشی دی ہے اورموجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ اس قوم کو ایسی ہی خوشیاں ملتی رہنی چاہئیں ۔خدا کر ے کہ پوپلزئی صاحب ماہ صیام کی طرح ماہ شوال کا چاند بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ دیکھیں اورسارے ملک میں ایک ہی دن عید منائی جائے۔