کچھ نہیں ہونے جارہا
پوری قوم اپنی عسکری اور سیاسی قیادت کے ساتھ اپنے وطن کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہر لمحہ تیار ہے۔
KARACHI:
پاکستان دنیا کا دفاعی اعتبار سے مضبوط ترین ملک ہے، ایٹمی شعبے کے ساتھ ساتھ، جہاز سے لے کر، ہر قسم کے جدید جنگی ہتھیار تمام چھوٹے اور بڑے خودکار آلات بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ ڈرون بھی تیار کرلیا ہے جو ہماری فضائی نگرانی اور تحقیقاتی مقاصد میں کام آرہا ہے۔گذشتہ دنوں کراچی میں منعقد ہونے والی نمائش (IDEAS 2012) کے بین الاقوامی سطح پر خوب خوب چرچے ہوئے ہیں کہیں اظہارِ مسرت اور کہیں اظہار غم بھی ہوا، لیکن اس کے باوجود اندرون و بیرون ملک پاکستان کو شاباش ملی ہے اور بہت سے بیرونی ممالک کے وفود نے پاکستان کی دفاعی صنعت کو مؤثر بنانے میں تعاون کا یقین اور چھوٹے بڑے ہتھیاروں کی خریداری میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ یہ ہمارے لیے انتہائی اطمینان کا باعث ہے کے خدا کے فضل اور اس کے کرم سے پاکستان دنیا کے دفاعی اعتبار سے ایک مستحکم اور طاقتور ملک بن کر اُبھر چکا ہے۔ ہمارا سب سے پہلا کام دفاعی لائن کا استحکام تھا کہ جس کو ہماری عسکری قیادت ایٹمی سائنسدانوں اور سیاست دانوں نے مل کر انجام دیا، پاکستانی ایٹمی دھماکوں نے تو پاکستان اور پاکستانی قوم کا وقار مزید قابلِ رشک بنادیا۔
اس ترقی یافتہ شعبہ کے بعد یہ تحریر کردینا کافی ہے کہ جن سوراخوں سے خطرہ تھا وہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے ہیں اگر پھر کوئی خطرہ سامنے آیا تو پوری قوم اپنی عسکری اور سیاسی قیادت کے ساتھ اپنے وطن کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہر لمحہ تیار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی فلاحی مملکت ہے، یہاں سب ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکر ہوکر رہ رہے ہیں مگر بیرونی دشمنوںکے لیے یہ عمل مسلسل خطرہ ہے اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے اندرونی دشمنوں کو ڈھونڈ کر ان سے ریاست کے ستونوں کو ہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یہ کارروائیاں دیکھ کر چھوٹے دل والے یہ محسوس کرجاتے ہیں کہ شاید کچھ ہونے جارہا ہے۔ ملک کو خطرہ ہے پاکستان خدانخواستہ مشکلات میں گھرنے والا ہے، لیکن پاکستان میں دین فطرت کے اعتبار سے صرف ایک ہی قوم مسلمان اور صرف مسلمان ہی آباد ہیں، لیکن دشمنانِ پاکستان کبھی ان کو لسانی یونٹوں میں تقسیم کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ان کو شیعہ اور سنی کے نام پر اشتعال دلا کر لڑائی کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم تو گوشت کھانے والے لوگ ہیں جلد غصے میں آکر اپنے ہی کلمہ گو پر ہتھیار اٹھاتے ہی نہیں ہیں بلکہ قانون قدرت کو ہاتھ میں لے کر انسانی زندگی ختم کردیتے ہیں، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، کاش! تھوڑی دیر کے لیے صبر کے دامن کو پکڑ لیا جائے اور غصے کو حرام کرلیا جائے تو بہت سے معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہر شعبے کا کرتا دھرتا اپنی روٹی کو مزید مستحکم بنانے میں لگا ہوا ہے اور ایک گھر سے دو گھر، ایک پلاٹ سے کئی کئی پلاٹوں کے حصول، بینک بیلنس میں روز بروز اضافے کی راہ تلاش کر رہا ہے، لیکن اس کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ جس گھر میں جنازہ جارہا ہے اور جس گھر سے یہ جنازہ اُٹھایا جارہا ہے اس گھر پر کیا قیامت بیت رہی ہے اور کیا قیامت بیتے گی؟ ان معاملات سے پاکستان میں کیسے کیسے معاشی مسائل پیدا ہونگے؟ سڑکوں پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو بیدردی سے جلا دینے سے لوگوں کو اپنے روگار پر جانے میں روز بروز مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کاروبار بند کرنے سے پاکستان کی معیشت کمزور اور پیداواری صلاحیت میں کمی ہورہی ہے، جس سے ہماری اقتصادی حالت خراب ہورہی ہے، ہمیں ہر طرف سے اس لیے مار پڑوانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ ہمیں ربّ العزت نے دنیا کے نقشے پر مضبوط بنائے رکھا ہے، اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت عطا کر رکھی ہے، دنیا کے بڑے بڑے ٹھیکیدار پاکستان سے اسی لیے خوفزدہ ہیں ، پاکستان کی ہر قیادت اپنی آزادی اور خودمختاری کا دفاع کرتے ہوئے دوستوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کی خواہاں رہی اور رہتی ہے، ہمارے حکمرانوں نے بیرونی دنیا کا ڈکٹیشن سلامتی کے خلاف قبول نہیں کیا۔ اس وقت پاکستان میں سب کچھ بہتری کی طرف تو جارہا ہے، لیکن آئین اور قانون کی پاسداری نہیں ہے، انتظامیہ میں سیاسی مداخلت ہے اور انتظامیہ خود سیاستدانوں کے اشاروں پر کام کرنے پر مجبور ہے۔
اگر اس ملک کا انتظامی ڈھانچہ ٹھیک ہوجائے تو ملک میں ہر کام کرنے سے قبل اس کے فوائد اور نقصانات بھی دیکھے جائیں تو مفاد عامہ کے کام کرنے میں آسانی ہوگی اور لوگ پریشانیوں کا شکار بھی نہیں ہوں گے، آئین اور قانون کی پاسداری پوری ہونی چاہیے، لوگوں کو انصاف ملے، سفارش کا کلچر ختم ہو تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ ایک انسان کو ناحق قتل کرنے والا خود بھی قتل ہوتا ہے یہ تو قانونِ قدرت ہے، اور یہی اللہ کا نظام بھی ہے لہٰذا اگر ہم اب سنبھل جائیں اور چمک کا سہارا نہ لیں، اپنی ہوس میں کمی کردیں اور دوسروں کا بھی جینے کا اتنا ہی حق سمجھیں جتنا ہمارا ہے اور خود ان کا ہے، سب ٹھیک ہوجائے گا، حکومت قانون اور اس پر عملدرآمد کو اتنا سخت کردے کہ قانون شکنی کرنے کی سوچ رکھنے والے کو کئی مرتبہ سوچنا پڑے اور اگر وہ قانون شکنی اس کے باوجود کرے تو قانون مضبوطی کے ساتھ اس کی گرفت کرسکے۔ پاکستان میں سڑکوں پر بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے، خدارا! اب اس میں حکومت اضافہ نہ ہونے دے، قانون پر عملدرآمد کرنے والوں کو اپنی سیاست میں شامل نہ کیا جائے اور ان کو ان کا کام کرنے میں ان کی مضبوط انتظامی گرفت کے ساتھ کام کرنے دیا جائے۔
اگر ہم نے دین فطرت کو چھوڑ دیا اور لسانی عصبیت اور فرقہ واریت کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا تو ہمارا خدا ہی حافظ ہے، یہ دونوں شعبے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ ان کے تحت بکھر جانے والے جذبات کو قابو کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوپاتا ہے ۔ اس وقت ہمارا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ کمزور ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنے انتظامی اداروں پر اعتماد نہیں کرتے ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار کے کئی رنگ ہوا کرتے ہیں، رقم خرچ کرکے آتے ہیں لہٰذا ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ وہ پہلے اس خرچے کو پورا کریں اور یہ خرچہ انتظامی اور فلاحی اداروں کے ذریعے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے سیاسی نظام تبدیل ہونے کے بعد اپنے اپنے سر پر تلوار لٹکتی دیکھتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو اس ڈر سے بچانے میں نئے حکمرانوں سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لہٰذا انتظامی شعبہ صرف پروٹوکول، خوشامد اور حکمرانوں کی رضامندی کے تحت چلتا رہتا ہے۔
ہماری بد انتظامی ہی لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتی ہے کہ شاید کچھ ہونے والا ہے، یا کچھ نہیں ہونے والا، مایوسی کفر ہے جب اللہ تعالیٰ کسی سے کام لینے پر آتا ہے تو وہ تنکے میں بھی جان ڈال دیتا ہے اور اس سے بھی کام لے لیتا ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اور صرف پاکستانی بن کر پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ درست کریں اور ہر پاکستانی کو پاکستانی ہی سمجھیں اور اس کو انصاف فراہم کریں، جہاں انصاف مٹ جاتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ اپنے حساب سے معاملات چلاتا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اللہ کی پکڑ سخت ہے کیونکہ وہ ہی زمین اور آسمان پر موجود ہر چیز سے باخوبی واقف اور آگاہ ہے اور ہر شے کا مالک ہے، ابھی وقت گزرا نہیں ہے، ہم درست ہوسکتے ہیں، اگر قانون کی علمداری کو اپنا نفع اور نقصان سوچے بغیر مستحکم کریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ انتظامیہ مضبوط ہوگی اور بروقت مجرموں کو سزا ملے گی تو امن و امان خودبخود بحال ہوگا، تاجر اور صنعتکار پیداواری صلاحیت بڑھائیں گے، نئے صنعتی یونٹس لگائے جائیں گے، ملک کی معاشی اور اقتصادی حالت بہتر ہوگی، لوگ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ چلائیں گے اور ان کو گاڑیاں جلائے جانے کا ڈر بھی ختم ہوجائے گا، اس طرح بے یقینی کی کیفیت بھی ختم ہوگی، پاکستان ترقی کے سفر پر بھی گامزن ہوگا۔
پاکستان دنیا کا دفاعی اعتبار سے مضبوط ترین ملک ہے، ایٹمی شعبے کے ساتھ ساتھ، جہاز سے لے کر، ہر قسم کے جدید جنگی ہتھیار تمام چھوٹے اور بڑے خودکار آلات بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ ڈرون بھی تیار کرلیا ہے جو ہماری فضائی نگرانی اور تحقیقاتی مقاصد میں کام آرہا ہے۔گذشتہ دنوں کراچی میں منعقد ہونے والی نمائش (IDEAS 2012) کے بین الاقوامی سطح پر خوب خوب چرچے ہوئے ہیں کہیں اظہارِ مسرت اور کہیں اظہار غم بھی ہوا، لیکن اس کے باوجود اندرون و بیرون ملک پاکستان کو شاباش ملی ہے اور بہت سے بیرونی ممالک کے وفود نے پاکستان کی دفاعی صنعت کو مؤثر بنانے میں تعاون کا یقین اور چھوٹے بڑے ہتھیاروں کی خریداری میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ یہ ہمارے لیے انتہائی اطمینان کا باعث ہے کے خدا کے فضل اور اس کے کرم سے پاکستان دنیا کے دفاعی اعتبار سے ایک مستحکم اور طاقتور ملک بن کر اُبھر چکا ہے۔ ہمارا سب سے پہلا کام دفاعی لائن کا استحکام تھا کہ جس کو ہماری عسکری قیادت ایٹمی سائنسدانوں اور سیاست دانوں نے مل کر انجام دیا، پاکستانی ایٹمی دھماکوں نے تو پاکستان اور پاکستانی قوم کا وقار مزید قابلِ رشک بنادیا۔
اس ترقی یافتہ شعبہ کے بعد یہ تحریر کردینا کافی ہے کہ جن سوراخوں سے خطرہ تھا وہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے ہیں اگر پھر کوئی خطرہ سامنے آیا تو پوری قوم اپنی عسکری اور سیاسی قیادت کے ساتھ اپنے وطن کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہر لمحہ تیار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی فلاحی مملکت ہے، یہاں سب ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکر ہوکر رہ رہے ہیں مگر بیرونی دشمنوںکے لیے یہ عمل مسلسل خطرہ ہے اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے اندرونی دشمنوں کو ڈھونڈ کر ان سے ریاست کے ستونوں کو ہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یہ کارروائیاں دیکھ کر چھوٹے دل والے یہ محسوس کرجاتے ہیں کہ شاید کچھ ہونے جارہا ہے۔ ملک کو خطرہ ہے پاکستان خدانخواستہ مشکلات میں گھرنے والا ہے، لیکن پاکستان میں دین فطرت کے اعتبار سے صرف ایک ہی قوم مسلمان اور صرف مسلمان ہی آباد ہیں، لیکن دشمنانِ پاکستان کبھی ان کو لسانی یونٹوں میں تقسیم کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ان کو شیعہ اور سنی کے نام پر اشتعال دلا کر لڑائی کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم تو گوشت کھانے والے لوگ ہیں جلد غصے میں آکر اپنے ہی کلمہ گو پر ہتھیار اٹھاتے ہی نہیں ہیں بلکہ قانون قدرت کو ہاتھ میں لے کر انسانی زندگی ختم کردیتے ہیں، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، کاش! تھوڑی دیر کے لیے صبر کے دامن کو پکڑ لیا جائے اور غصے کو حرام کرلیا جائے تو بہت سے معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہر شعبے کا کرتا دھرتا اپنی روٹی کو مزید مستحکم بنانے میں لگا ہوا ہے اور ایک گھر سے دو گھر، ایک پلاٹ سے کئی کئی پلاٹوں کے حصول، بینک بیلنس میں روز بروز اضافے کی راہ تلاش کر رہا ہے، لیکن اس کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ جس گھر میں جنازہ جارہا ہے اور جس گھر سے یہ جنازہ اُٹھایا جارہا ہے اس گھر پر کیا قیامت بیت رہی ہے اور کیا قیامت بیتے گی؟ ان معاملات سے پاکستان میں کیسے کیسے معاشی مسائل پیدا ہونگے؟ سڑکوں پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو بیدردی سے جلا دینے سے لوگوں کو اپنے روگار پر جانے میں روز بروز مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کاروبار بند کرنے سے پاکستان کی معیشت کمزور اور پیداواری صلاحیت میں کمی ہورہی ہے، جس سے ہماری اقتصادی حالت خراب ہورہی ہے، ہمیں ہر طرف سے اس لیے مار پڑوانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ ہمیں ربّ العزت نے دنیا کے نقشے پر مضبوط بنائے رکھا ہے، اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت عطا کر رکھی ہے، دنیا کے بڑے بڑے ٹھیکیدار پاکستان سے اسی لیے خوفزدہ ہیں ، پاکستان کی ہر قیادت اپنی آزادی اور خودمختاری کا دفاع کرتے ہوئے دوستوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کی خواہاں رہی اور رہتی ہے، ہمارے حکمرانوں نے بیرونی دنیا کا ڈکٹیشن سلامتی کے خلاف قبول نہیں کیا۔ اس وقت پاکستان میں سب کچھ بہتری کی طرف تو جارہا ہے، لیکن آئین اور قانون کی پاسداری نہیں ہے، انتظامیہ میں سیاسی مداخلت ہے اور انتظامیہ خود سیاستدانوں کے اشاروں پر کام کرنے پر مجبور ہے۔
اگر اس ملک کا انتظامی ڈھانچہ ٹھیک ہوجائے تو ملک میں ہر کام کرنے سے قبل اس کے فوائد اور نقصانات بھی دیکھے جائیں تو مفاد عامہ کے کام کرنے میں آسانی ہوگی اور لوگ پریشانیوں کا شکار بھی نہیں ہوں گے، آئین اور قانون کی پاسداری پوری ہونی چاہیے، لوگوں کو انصاف ملے، سفارش کا کلچر ختم ہو تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ ایک انسان کو ناحق قتل کرنے والا خود بھی قتل ہوتا ہے یہ تو قانونِ قدرت ہے، اور یہی اللہ کا نظام بھی ہے لہٰذا اگر ہم اب سنبھل جائیں اور چمک کا سہارا نہ لیں، اپنی ہوس میں کمی کردیں اور دوسروں کا بھی جینے کا اتنا ہی حق سمجھیں جتنا ہمارا ہے اور خود ان کا ہے، سب ٹھیک ہوجائے گا، حکومت قانون اور اس پر عملدرآمد کو اتنا سخت کردے کہ قانون شکنی کرنے کی سوچ رکھنے والے کو کئی مرتبہ سوچنا پڑے اور اگر وہ قانون شکنی اس کے باوجود کرے تو قانون مضبوطی کے ساتھ اس کی گرفت کرسکے۔ پاکستان میں سڑکوں پر بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے، خدارا! اب اس میں حکومت اضافہ نہ ہونے دے، قانون پر عملدرآمد کرنے والوں کو اپنی سیاست میں شامل نہ کیا جائے اور ان کو ان کا کام کرنے میں ان کی مضبوط انتظامی گرفت کے ساتھ کام کرنے دیا جائے۔
اگر ہم نے دین فطرت کو چھوڑ دیا اور لسانی عصبیت اور فرقہ واریت کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا تو ہمارا خدا ہی حافظ ہے، یہ دونوں شعبے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ ان کے تحت بکھر جانے والے جذبات کو قابو کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوپاتا ہے ۔ اس وقت ہمارا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ کمزور ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنے انتظامی اداروں پر اعتماد نہیں کرتے ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار کے کئی رنگ ہوا کرتے ہیں، رقم خرچ کرکے آتے ہیں لہٰذا ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ وہ پہلے اس خرچے کو پورا کریں اور یہ خرچہ انتظامی اور فلاحی اداروں کے ذریعے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے سیاسی نظام تبدیل ہونے کے بعد اپنے اپنے سر پر تلوار لٹکتی دیکھتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو اس ڈر سے بچانے میں نئے حکمرانوں سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لہٰذا انتظامی شعبہ صرف پروٹوکول، خوشامد اور حکمرانوں کی رضامندی کے تحت چلتا رہتا ہے۔
ہماری بد انتظامی ہی لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتی ہے کہ شاید کچھ ہونے والا ہے، یا کچھ نہیں ہونے والا، مایوسی کفر ہے جب اللہ تعالیٰ کسی سے کام لینے پر آتا ہے تو وہ تنکے میں بھی جان ڈال دیتا ہے اور اس سے بھی کام لے لیتا ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اور صرف پاکستانی بن کر پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ درست کریں اور ہر پاکستانی کو پاکستانی ہی سمجھیں اور اس کو انصاف فراہم کریں، جہاں انصاف مٹ جاتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ اپنے حساب سے معاملات چلاتا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اللہ کی پکڑ سخت ہے کیونکہ وہ ہی زمین اور آسمان پر موجود ہر چیز سے باخوبی واقف اور آگاہ ہے اور ہر شے کا مالک ہے، ابھی وقت گزرا نہیں ہے، ہم درست ہوسکتے ہیں، اگر قانون کی علمداری کو اپنا نفع اور نقصان سوچے بغیر مستحکم کریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ انتظامیہ مضبوط ہوگی اور بروقت مجرموں کو سزا ملے گی تو امن و امان خودبخود بحال ہوگا، تاجر اور صنعتکار پیداواری صلاحیت بڑھائیں گے، نئے صنعتی یونٹس لگائے جائیں گے، ملک کی معاشی اور اقتصادی حالت بہتر ہوگی، لوگ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ چلائیں گے اور ان کو گاڑیاں جلائے جانے کا ڈر بھی ختم ہوجائے گا، اس طرح بے یقینی کی کیفیت بھی ختم ہوگی، پاکستان ترقی کے سفر پر بھی گامزن ہوگا۔