دہشت گردوں کے عزائم
دہشت گردوں کی ان بہیمانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کا مقصد قوم کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنا ہے۔
محرم الحرام کے آغاز سے ہی دہشت گردوں نے پاکستان پر خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی یلغار شروع کر رکھی ہے۔
دہشت گردوں کی ان بہیمانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کا مقصد قوم کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے کراچی کو نشانہ بنایا تھا ، اس کے بعد بدھ کو ایک ہی وقت میں کراچی اور راولپنڈی میںامام بار گاہوںمیں عزاداری کے جلوسوں میں دھماکے کیے گئے ہیں۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی بم دھماکا ہوا ہے۔ حکومت کو محرم الحرام میں دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کی اطلاعات تھیں' اس حوالے سے سخت اقدامات بھی کیے گئے لیکن حفاظتی انتظامات کے باوجود کراچی ، راولپنڈی اور کوئٹہ میں بم دھماکوں کے نتیجے میں 3 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 30 افراد جاں بحق اور 68 زخمی ہو گئے ہیں۔
سب سے زیادہ نقصان راولپنڈی میں مصریال روڈ کے علاقے ڈھوک سیداں میں امام بارگاہ قصر شبیر کے قریب ماتمی جلوس میں ہونے والے خودکش دھماکے سے ہوا۔ اس خود کش حملے میں بچوں اور پولیس اہلکاروں سمیت 20 افراد جاں بحق ہوئے اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے۔کراچی میں اورنگی ٹائون نمبر پانچ میں امام بارگاہ کے قریب دو دھماکوں میں 5 افراد جاں بحق اور 15زخمی ہو گئے ہیں۔ کوئٹہ میں شہباز ٹائون میں موٹر سائیکل میں نصب ریموٹ کنٹرول بم پھٹنے سے 3 سیکیورٹی اہلکاروں اور خاتون سمیت 5 افراد جاں بحق اور 28 زخمی ہو گئے۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے عزائم اور مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں' ارباب اختیار سے لے کر عام پاکستانیوں کی اکثریت تک انھیں خاصی حد تک سمجھ چکی ہے۔ جو گروہ محرم الحرام میں امام بار گاہوں میں بے گناہ انسانوں کو خود کش حملوں یا بم دھماکوں میں قتل کر رہے ہیں' ان کے بارے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے درست کہا کہ ایسے لوگ مسلمان ہیں نہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ ہم اس حقیقت کی طرف پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کے دشمن چاروں اطراف سے حملہ آور ہیں۔ وہ ملک میں فرقہ واریت پھیلانے کے لیے امام بار گاہوں' مساجد اور اولیاء اللہ کے مزارات میں خود کش حملے کر رہے ہیں۔ انھیں ریموٹ کنٹرول بموں سے اڑا رہے ہیں۔ اس طریقہ واردات کا واحد مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے گلی گلی اور محلے محلے میں لڑائی شروع ہو جائے اور یوں ریاست اس طرح بے بس ہو جائے کہ دہشت گردوں پر گرفت نہ ہو سکے۔
دوسری جانب دہشت گرد پاک آرمی پر بھی حملہ آور ہیں۔جی ایچ کیو، کامرہ ایئر بیس اور مہران ایئر بیس کراچی پر حملے ہوچکے ہیں۔عام بازاروں میں بھی خود کش حملے اور بم دھماکے ہوچکے ہیں۔یوں دہشت گرد اب تک ہزاروں پاکستانی مسلمان کے خون سے ہاتھ رنگ چکے ہیں۔ ان ساری کارروائیوں کا مقصد ریاست کے تانے بانے بکھیرنا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دہشت گردوں نے پاکستان کے عوام اور ریاست کے خلاف کھلی جنگ شروع کر رکھی ہے۔دہشت گرد تو وطن عزیز کے کھلے دشمن ہیں ،ان کی کمیں گاہوں کا بھی کسی حد تک علم ہے لیکن اصل دشمن وہ ہے جو چھپا ہوا ہے۔جو دہشت گرد گروہوں کو مالی وسائل ، اطلاعات اور ہدف تک پہنچنے کی سہولتیں فراہم کررہا ہے۔یوں وہ اپنے ہی ہم وطنوں کا قتل عام کرارہا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی صفوں میں چھپے ہوئے ان عناصر کو بے نقاب کر سکتے ہیں جو خود کش حملہ آوروں کے مددگار ہیں اور انھیں ہدف تک پہنچنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ راولپنڈی میں جو خودکش حملہ ہوا ہے' یقیناً خود کش حملہ آور کہیں نزدیک سے ہی اپنے ہدف تک پہنچا ہے کیونکہ کوئی بھی خود کش حملہ آور جسم پر بارودی بیلٹ باندھ کر طویل فاصلہ طے نہیں کرسکتا، وہ نزدیک سے ہی اپنے ہدف تک پہنچتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ذمے داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے انٹیلی جنس کی ترجیحات مشرقی پڑوسی ملک پر نظر رکھنا یا پھر سیاستدانوں کی سرگرمیاں مانیٹر کرنا رہا ہے۔ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کی ریکی کرنا شاید ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے۔ ماضی میں تھانے کی سطح پر مخبری کا نظام مثالی ہوا کرتا ہے۔
انگریزوں نے ہندوستان پر جو حکومت قائم کی، اس میں تھانہ کی اطلاعات نے اہم کردار ادا کیا تھا۔بیوروکریسی اور پولیس فورس کی تربیت ایسی تھی کہ وہ مذہبی ، لسانی اور ذات کے تعصبات سے بالاتر ہو صرف اپنی ڈیوٹی انجام دیتے تھے اور رولز اینڈ روگولیشنز کی پابندی ان کی اولین ترجیح ہوتی تھی لیکن آج صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی ایجنسیوں کی انفارمیشن کے پول کرنے کا نظام بھی شاید زیادہ افیکٹو طریقے سے نہیں چلایا جا رہا' اس کے علاوہ انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں اور آفیسروں کے نظریات اور پروفیشنل ازم کی کمی بھی راہ کی رکاوٹ ہے۔
ایسا ممکن ہے کہ کسی ایجنسی کے افسر اور اہلکار خود بھی کسی ایسے گروہ کو نظریاتی اعتبار سے درست سمجھتے ہوں جو فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ایسی صورت میں وہ کیسے ان کی نقل وحرکت کی درست اطلاع فراہم کرے گا۔ماضی میں بیورو کریسی اور سیاستدانوں نے اپنے اختیارات استعمال کر کے مختلف مذہبی گروہوں کو فوائد پہنچائے، اس کے نتائج آج پورا ملک بھگت رہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم ان ملک دشمن گروہوں پر قابو نہیں پا سکتے ، عوام نے فرقہ واریت پھیلانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ حکومت دہشت گردی کے خلاف سخت قوانین بھی بنائے اور ان کے خلاف کریک ڈائون بھی کرے تاکہ اس عفریت کا خاتمہ کیا جاسکے۔
دہشت گردوں کی ان بہیمانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کا مقصد قوم کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے کراچی کو نشانہ بنایا تھا ، اس کے بعد بدھ کو ایک ہی وقت میں کراچی اور راولپنڈی میںامام بار گاہوںمیں عزاداری کے جلوسوں میں دھماکے کیے گئے ہیں۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی بم دھماکا ہوا ہے۔ حکومت کو محرم الحرام میں دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کی اطلاعات تھیں' اس حوالے سے سخت اقدامات بھی کیے گئے لیکن حفاظتی انتظامات کے باوجود کراچی ، راولپنڈی اور کوئٹہ میں بم دھماکوں کے نتیجے میں 3 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 30 افراد جاں بحق اور 68 زخمی ہو گئے ہیں۔
سب سے زیادہ نقصان راولپنڈی میں مصریال روڈ کے علاقے ڈھوک سیداں میں امام بارگاہ قصر شبیر کے قریب ماتمی جلوس میں ہونے والے خودکش دھماکے سے ہوا۔ اس خود کش حملے میں بچوں اور پولیس اہلکاروں سمیت 20 افراد جاں بحق ہوئے اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے۔کراچی میں اورنگی ٹائون نمبر پانچ میں امام بارگاہ کے قریب دو دھماکوں میں 5 افراد جاں بحق اور 15زخمی ہو گئے ہیں۔ کوئٹہ میں شہباز ٹائون میں موٹر سائیکل میں نصب ریموٹ کنٹرول بم پھٹنے سے 3 سیکیورٹی اہلکاروں اور خاتون سمیت 5 افراد جاں بحق اور 28 زخمی ہو گئے۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے عزائم اور مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں' ارباب اختیار سے لے کر عام پاکستانیوں کی اکثریت تک انھیں خاصی حد تک سمجھ چکی ہے۔ جو گروہ محرم الحرام میں امام بار گاہوں میں بے گناہ انسانوں کو خود کش حملوں یا بم دھماکوں میں قتل کر رہے ہیں' ان کے بارے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے درست کہا کہ ایسے لوگ مسلمان ہیں نہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ ہم اس حقیقت کی طرف پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کے دشمن چاروں اطراف سے حملہ آور ہیں۔ وہ ملک میں فرقہ واریت پھیلانے کے لیے امام بار گاہوں' مساجد اور اولیاء اللہ کے مزارات میں خود کش حملے کر رہے ہیں۔ انھیں ریموٹ کنٹرول بموں سے اڑا رہے ہیں۔ اس طریقہ واردات کا واحد مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے گلی گلی اور محلے محلے میں لڑائی شروع ہو جائے اور یوں ریاست اس طرح بے بس ہو جائے کہ دہشت گردوں پر گرفت نہ ہو سکے۔
دوسری جانب دہشت گرد پاک آرمی پر بھی حملہ آور ہیں۔جی ایچ کیو، کامرہ ایئر بیس اور مہران ایئر بیس کراچی پر حملے ہوچکے ہیں۔عام بازاروں میں بھی خود کش حملے اور بم دھماکے ہوچکے ہیں۔یوں دہشت گرد اب تک ہزاروں پاکستانی مسلمان کے خون سے ہاتھ رنگ چکے ہیں۔ ان ساری کارروائیوں کا مقصد ریاست کے تانے بانے بکھیرنا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دہشت گردوں نے پاکستان کے عوام اور ریاست کے خلاف کھلی جنگ شروع کر رکھی ہے۔دہشت گرد تو وطن عزیز کے کھلے دشمن ہیں ،ان کی کمیں گاہوں کا بھی کسی حد تک علم ہے لیکن اصل دشمن وہ ہے جو چھپا ہوا ہے۔جو دہشت گرد گروہوں کو مالی وسائل ، اطلاعات اور ہدف تک پہنچنے کی سہولتیں فراہم کررہا ہے۔یوں وہ اپنے ہی ہم وطنوں کا قتل عام کرارہا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی صفوں میں چھپے ہوئے ان عناصر کو بے نقاب کر سکتے ہیں جو خود کش حملہ آوروں کے مددگار ہیں اور انھیں ہدف تک پہنچنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ راولپنڈی میں جو خودکش حملہ ہوا ہے' یقیناً خود کش حملہ آور کہیں نزدیک سے ہی اپنے ہدف تک پہنچا ہے کیونکہ کوئی بھی خود کش حملہ آور جسم پر بارودی بیلٹ باندھ کر طویل فاصلہ طے نہیں کرسکتا، وہ نزدیک سے ہی اپنے ہدف تک پہنچتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ذمے داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے انٹیلی جنس کی ترجیحات مشرقی پڑوسی ملک پر نظر رکھنا یا پھر سیاستدانوں کی سرگرمیاں مانیٹر کرنا رہا ہے۔ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کی ریکی کرنا شاید ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے۔ ماضی میں تھانے کی سطح پر مخبری کا نظام مثالی ہوا کرتا ہے۔
انگریزوں نے ہندوستان پر جو حکومت قائم کی، اس میں تھانہ کی اطلاعات نے اہم کردار ادا کیا تھا۔بیوروکریسی اور پولیس فورس کی تربیت ایسی تھی کہ وہ مذہبی ، لسانی اور ذات کے تعصبات سے بالاتر ہو صرف اپنی ڈیوٹی انجام دیتے تھے اور رولز اینڈ روگولیشنز کی پابندی ان کی اولین ترجیح ہوتی تھی لیکن آج صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی ایجنسیوں کی انفارمیشن کے پول کرنے کا نظام بھی شاید زیادہ افیکٹو طریقے سے نہیں چلایا جا رہا' اس کے علاوہ انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں اور آفیسروں کے نظریات اور پروفیشنل ازم کی کمی بھی راہ کی رکاوٹ ہے۔
ایسا ممکن ہے کہ کسی ایجنسی کے افسر اور اہلکار خود بھی کسی ایسے گروہ کو نظریاتی اعتبار سے درست سمجھتے ہوں جو فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ایسی صورت میں وہ کیسے ان کی نقل وحرکت کی درست اطلاع فراہم کرے گا۔ماضی میں بیورو کریسی اور سیاستدانوں نے اپنے اختیارات استعمال کر کے مختلف مذہبی گروہوں کو فوائد پہنچائے، اس کے نتائج آج پورا ملک بھگت رہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم ان ملک دشمن گروہوں پر قابو نہیں پا سکتے ، عوام نے فرقہ واریت پھیلانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ حکومت دہشت گردی کے خلاف سخت قوانین بھی بنائے اور ان کے خلاف کریک ڈائون بھی کرے تاکہ اس عفریت کا خاتمہ کیا جاسکے۔