برتاؤماسیوں سے باسی کھانے اور پرانے کپڑوں سے آگے بڑھیے

ملازمائیں اور مالکن کے درمیان یہ رشتہ اچھے اخلاق، محبت، شفقت اور عزت دینے سے ہی بہتر ہو سکتا ہے۔

ایسے میں ملازمہ اور خا تون خا نہ کا رشتہ ایک دوسرے سے بھلے ہی ملازمہ اورمالکن کا ہو لیکن تعلق روایتی ساس بہو جیسا رہتا ہے:فوٹو : فائل

ایک اشتہار میں مالکن کو اپنی ماسی کے لیے چائے بناتے ہوئے دیکھ کر اچھا تو بہت لگا، لیکن ذہن میں ایک سوال بھی اٹھا، کیا واقعی ایسا ہو تا ہے ہما رے یہاں تو یہ نظریہ ہے کہ جو کھانا بچ گیا یا باسی ہوگیا، وہ ماسی کے حصے میں آتا ہے اور لوگ اس پر بہت مطمئن رہتے ہیں۔ ہم تو اللہ کے نام کا ان غریب ما سیوں کو دیتے ہی رہتے ہیں، تو کیا اللہ کے نام پر آپ باسی کھانا دیتے ہیں؟ جب کہ اسلام کا پیغام تو یہ ہے کہ جو تم کھاؤ، وہی اپنے ملازمین کو کھلاؤ، جو تم پہنو وہی اپنے ملازمین کے لیے بھی پسند کرو، لیکن لوگ اس پیغام پر عمل کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ جو وہ کھاتے ہیں، وہی ملازمین کو بھی کھلاتے ہیں، مگر جب وہ بچ جائے یا اگلے دن جب وہ ان کے کھانے کے قابل نہ رہے۔ اسی طرح پہناتے بھی وہی کچھ ہیں، جو خود پہنتے رہے ہیں، لیکن اس حد تک کہ اب وہ ان کے پہننے کے قابل نہیں رہے۔ ذراغور کیجیے۔

شہری زندگی میں ان گھریلو ملازمین خاص طور پر خواتین ملازمین، جنہیں عموماً لوگ ماسی کہتے ہیں، ان کابڑا عمل دخل ہے۔ کچھ لوگ تو ان پر اس حد تک انحصار کرتے ہیں کہ ان کے بغیر گھر کی حالت ابتر ہو جاتی ہے۔ نہ تو گھر کی صفائی ہوتی ہے، نہ کپڑے اور برتن دھلتے ہیں اور نہ ہی کھانا بنتا ہے۔ یہاں تک کہ پانی کی خالی بوتلیں فریج میں بھر کر رکھنے سے کپڑے استری کرنے تک ہر کام ان ہی گھریلو ملازماوں کے سپرد ہوتا ہے۔ یوں بھی دیکھنے میں آیا کہ صاحب کو دفتر جا نے کی دیر ہو رہی ہے اور ان کے کپڑے نہیں مل رہے،کیوں کہ آج گھر میں ماسی نہیں آئی اور خا تون خانہ کو علم ہی نہیں کہ کپڑے کس الماری میں رکھے ہیں؟ کپڑے دھلے ہوئے بھی ہیں یا نہیں؟ اگر دھلے ہوئے ہیں، تو استری ہوئی ہے یا نہیں؟


ایسے میں ملازمہ اور خا تون خا نہ کا رشتہ ایک دوسرے سے بھلے ہی ملازمہ اور مالکن کا ہو، لیکن تعلق روایتی ساس بہو جیسا ہی رہتا ہے، نہ چھوڑ سکتی ہیں اور نہ ہی آرام سے رہ سکتی ہیں۔ ملازمہ کو اتنے اچھے پیسوں اور سا تھ ہی کھلے ہا تھ سے ہر چیزکے استعمال کر نے کی آزادی ہے، تو ما لکن کو اس کے چلے جا نے پر اتنی تا بع دار ملازمہ کے نہ ملنے کا ڈر ہو تا ہے، ایسی ملازمہ پھر کہاں ملے گی، جو ہر چیز کو سنبھال سکے اور مالکن کونئے سرے سے نئی آنے والی ملازمہ کو سب سکھانا پڑے گا، جو کافی مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ اس کے باوجود اتنی اہم شخصیت یعنی ماسی صاحبہ کو بعض گھرانوں میں اہمیت حاصل نہیں، انہیں پھر بھی نوکر یا ملازمہ ہی تصور کیا جاتا ہے اور یہ کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں، کیوں کہ لوگوں کا رویہ بتا دیتا ہے کہ ان کا سلوک اپنے ملازمین سے کیسا ہے؟ جب کہ دوسری طرف ہمارے معاشرے میں ایسی مجبور خواتین بھی موجود ہیں، جن کا تعلق اچھے یا تعلیم یافتہ گھرانوں سے ہے، مگر وہ غربت اور بے روزگاری سے تنگ ہو کر ماسیوں کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

ایسی خواتین زیادہ مشکل میں ہیں، سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا ہے، لوگوں سے چھپانا بھی ہے کہ وہ کسی کے گھر ملازمہ ہیں کیوں کہ معاشرہ اس بات کو برا سمجھتا ہے، حا لاں کہ وہ اپنی روٹی روزی حق حلال طر یقے سے کما رہی ہیں، نہ کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلا رہی ہیں۔ایسی خواتین مالکن کی بے جا سختی کا بھی شکار رہتی ہیں اور ہر وقت خوف زدہ بھی رہتی ہیں کہ کب نوکری چلی جائے۔ گھریلو ملازماوں سے متعلق لوگ بہت ہوشیار رہتے ہیں۔ اس لیے احتیا طی تدابیر کر تے ہیں، جو کسی حد تک انہیں محفوظ بھی کر دیتی ہیں۔ نوکری دینے سے پہلے اس ملازمہ سے شناختی کارڈ کی کاپی لینا ضروری ہے، تاکہ کسی ناپسندیدہ عمل کی صورت میں اس پر گرفت کی جا سکے۔ اندھا اعتماد بھی آپ کے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

اس لیے محتاط رہیں۔ پچھلے دنوں انٹرنیٹ پر کچھ گھریلو ملازمین سے متعلق ویڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا، جن سے یہ ثا بت ہو تا تھا کہ کیسے وہ آیا بن کے سا را دن بچوں کو ہراساں کرتیں اور بھوکا پیاسا رکھ کر ان کی خوراک خود کھاتی تھیں، بچے اتنے خوف زدہ رہتے تھے کہ اپنے والدین سے شکایت بھی نہیں کر پاتے تھے اور اگر وہ بچے کا خیال بھی رکھے تو آپ ایک ان پڑھ عورت سے یہ کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپ کے بچے کو اچھے آداب سکھائے گی، غرض یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر کہیں مالکن کی طرف سے کوتاہی ہے، تو کہیں ملازمین بھی اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہیں۔ ملازمائیں اور مالکن کے درمیان یہ رشتہ اچھے اخلاق، محبت، شفقت اور عزت دینے سے ہی بہتر ہو سکتا ہے، جیسا کہ اسلام کا حکم ہے کہ اپنے ملازمیں کو وہی کچھ دو جو تم اپنے لیے پسند کر تے ہو۔ مالی امداد کے ساتھ عزت، اچھا اخلاق اور سب سے بڑھ کر ان کا جائز حق تلف نہ کیجیے۔
Load Next Story