خرچے ہی خرچےماہ صیام میں خریداری سمجھ داری مانگتی ہے

آمدنی اور اخراجات کے توازن کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروریات اور خواہشات کے درمیان ایک فرق ہے۔


Munira Adil June 13, 2016
آمدنی اور اخراجات کے توازن کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروریات اور خواہشات کے درمیان ایک فرق ہے۔:فوٹو : فائل

ہمیشہ کی طرح اس برس بھی ماہ صیام میں اشیا خوردونوش کی قیمتیں ایک دم سے کافی بڑھ گئی ہیں۔ ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے کہ حکومت دعوے کرتی رہتی ہے اور ذخیرہ اندوز اور منافع خور پوری تندہی سے اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں اور عام آدمی کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ایسے میں باورچی خانہ براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ سحر و افطار میں اگر کچھ خاص اہتمام نہ بھی ہو تب بھی تاجروں کی اس منافع خوری کے اثرات ضرور پڑتے ہیں۔ رمضان کے فوراً بعد عید آجاتی ہے، اس کی تیاریاں بھی کرنا پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نچلے اور متوسط طبقے کے اکثر رمضان اور عید معاشی لحاظ سے خاصے بھاری گزرتے ہیں۔

اپنی آمدن اور اخراجات کا ہمیشہ ایک توازن رکھیں۔ خریداری بلا سوچے سمجھے نہ کریں، ایسے اختیاری خرچوں سے گریز کریں، جس سے آپ کی جیب پر کافی زیادہ اثر پڑ رہا ہو، اگر کچھ خرچوں کو اگلے ماہ تک موخر کیا جا سکتا ہے، تو اس سے گریز نہ کریں۔ یہی نہیں کچھ اضافی رقم موجود ہونا بھی بے حد ضروری ہے، تاکہ کسی آڑے وقت میں مشکل نہ ہو۔

خریداری کے وقت اشیا کی قیمت، مقدار اور ضرورت کو مدنظر رکھیں، اور اسے اپنی استطاعت اور ضرورت کے مطابق ترتیب دیں۔ بالخصوص ماہ صیام میں، سحر سے افطار تک کے تمام ضروری لوازمات کی فہرست مرتب کر لیں، مسائل سے بچنے کے لیے فوقیت آپ کی اپنی جیب کو ہونی چاہیے۔

خریداری کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کریں، جہاں معیاری اشیا مناسب قیمت پر دست یاب ہوں۔ بعض خواتین اپنی رشتے دار یا پڑوسی خواتین کے ہم راہ ایسے بازاروں سے بھی خریداری کرتی ہیں، جہاں تھوک کے دام زائد مقدار میں اشیا دست یاب ہوتی ہیں۔ خواتین آپس میں اشیا بانٹ لیتی ہیں اور آنے جانے کا کرایہ بھی تقسیم کر لیتی ہیں۔ اسی طرح گوشت، قیمہ یا مرغی وغیرہ بھی زائد مقدار میں خریدنے پر عموماً قسائی مناسب دام میں بہتر گوشت دے دیتے ہیں۔

عام دنوں اور رمضان کے بعد مرحلہ آتا ہے عید کی خریداری کا۔ ماہ صیام میں پہلے عشرے سے ہی اس کا سہم بھی سوار ہو جاتا ہے، کیوں کہ رمضان کی تبدیل شدہ مصروفیات میں وقت کا پتا ہی نہیں چلتا اور عید سر پر آجاتی ہے۔ عید کی خریداری گھریلو بجٹ پر گراں گزرتی ہے۔ عید کے ملبوسات سے تحائف، عیدی اور مہمان داری تک تمام اخراجات کی منصوبہ بندی بے حد اہم ہے۔

خواتین کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ ان کا لباس سب سے خوب صورت اور منفرد نظر آئے، ایسے میںبھلا محدود بجٹ کا عید کی خریداری میں کیا کام! اس لیے تیار شدہ کپڑے لینے کے بہ جائے سلوانے پر توجہ دیں، مگر اب چوں کہ وقت نہیں ہے، اچھے درزی عید سے کئی دن پہلے سے بکنگ بند کر دیتے ہیں، اس لیے یہ کام آپ کو پہلی فرصت میں کرنا ہے۔ من پسند کپڑا، لیس، فیتہ اور بٹن وغیرہ کی خریداری کرلیں، تاکہ آپ کا ذہن ایک طرف ہو جائے۔ کچھ دکانوں پر سیل بھی لگی ہوئی ہے، جہاں سے آپ حسب ضرورت چادریں، پردے، چپل، سینڈل، مصنوعی زیورات اور برتن وغیرہ مناسب دام میں خرید سکتی ہیں۔ اکثر سپر مارکیٹس میں بھی بچت اسکیموں کا اعلان ہوتا ہے۔

وہ بازار جہاں تھوک کے دام اشیا فروخت کی جاتی ہیں، اگر کچھ خواتین مل کر مشترکہ خریداری کریں تو سہولت ہو سکتی ہے ۔ اگر وقت کی تنگی دامن گیر نہ ہو تو مختلف بازاروں میں گھوم کر معیار اور قیمتوں کا تقابل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی معروف برانڈ کی قمیص پسند آئی ہے تو اس کی مناسبت سے عام دکانوں سے ٹرائوزر یا پینٹ لی جا سکتی ہے۔ خوب صورت دوپٹے یا اسکارف کے ساتھ یہ بہترین لباس بنا سکتی ہیں۔ ملبوسات پر بے تحاشا پیسے خرچ کرنے سے قبل یہ ضرور سوچیں کہ یہ لباس کتنی دفعہ زیب تن کریںگی اور بچوں پر کام دار ملبوسات پر ہزارہا روپے خرچ کرنے کے بہ جائے اگر اپنی پرانی خوب صورت کام دار ساڑھی یا دوپٹے جن پر عموماً سلمیٰ ستارے ہوتی دبکا یا گوٹے کا کام ہوتا ہے ان کی قمیص سلوا سکتی ہیں۔

آمدنی اور اخراجات کے توازن کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروریات اور خواہشات کے درمیان ایک فرق ہے۔ اگر خواہشات ضروریات بن جائیں، تو مسائل و پریشانیوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ بیش تر افراد اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں اور خواہشات عموماً بساط سے باہر ہوتی ہیں۔ خواہشات کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرنا جائز طریقے اپنانا ایک مثبت رویہ ہے، لیکن خواہشات کی تکمیل نہ ہونے پر مایوسی، ذہنی تنائو، ڈپریشن کا شکار ہونا ایک منفی رویہ ہے۔ جیسے رمضان المبارک میں سحر و افطار گھر سے باہر کرنا بھی ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔ پھر کھانے پینے سے فارغ ہونے کے بعد وہاں کی تصاویر فیس بک پر لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے، جس کا مقصد دوسروں کی ایسی ہی کچھ تصاویر کا جواب دینا اور دکھاوا ہوتا ہے۔ ہمیں ہر صورت میں اپنی استطاعت کے مطابق اخراجات کرنے چاہئیں۔ اس کے لیے بہترین منصوبہ بندی اور سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں