52برس قبل بال ٹھاکرے نے پاکستانی ٹیم کے کارٹون بنائے

انتہا پسند ہندو رہنمانے حنیف محمد کی بیٹنگ کوخاصا سراہا تھا۔

انتہا پسند ہندو رہنمانے حنیف محمد کی بیٹنگ کوخاصا سراہا تھا۔ فوٹو: فائل

لاہور:
پاکستان ٹیم جب بھی بھارت کا دورہ کرتی ہے، سب سے زیادہ انتہا پسند ہندوجماعت شیو سینا کے پیٹ میں مروڑاٹھتے ہیں۔

اور وہ ہم یہ کردیں گے، وہ کردیں گے ،کی گردان کرنے لگتے ہیں۔یہ اور بات کہ ہر بار سیریزاس غوغائے رقیباں کے باوجود کامیابی سے ہوجاتی ہے۔ اس بار بھی دونوں ٹیموں کے درمیان کرکٹ روابط کی خبر بال ٹھاکرے کو ہضم نہ ہوئی اور صاحب فراش ہونے کے باوجود وہ واہی تباہی بکنے، اور اس دورے میں رخنہ ڈالنے کے لیے لوگوں کو اکسانے سے باز نہیں آئے۔بھارتی کھلاڑی بھی انھیں کھلاڑیوں کے بھیس میں بزنس مین لگے۔انھیں اس بات کا بھی رنج تھا کہ کسی بھارتی کھلاڑی نے دورے کی مخالفت نہیں کی۔بھارتی وزیر داخلہ نے سکیورٹی کی یقین دہائی کرائی، تو اتنے برافروختہ ہوئے کہ انھیں ''نشان پاکستان'' دینے کی بات کردی۔

حکمران جماعت کانگریس کی ترجمان نے انھیں یوں ڈانٹ پلائی''شیو سینا نے ہمیشہ رخنہ ڈالاہے۔ رکاوٹیں پیدا کی ہیں،تحریب کاری کی ہے۔کبھی انھوں نے اچھا کام بھی کیا ہے؟ بال ٹھاکرے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، انھیں ہندوستانی مسلمانوں کی وفاداری پر شک کی بیماری بھی لاحق رہی ہے۔اور ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ ''یہ مسلمانوں کی ڈیوٹی ہے ،وہ ثابت کریں کہ وہ پاکستانی نہیں۔بھارت جب کبھی بھی پاکستان سے ہارے ، میں ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا چاہتا ہوں۔''

ہاںالبتہ ایک دفعہ اظہر الدین کی کارکردگی سے خوش ہوکر اس متعصب شخص نے انھیں نیشنلسٹ مسلمان ضرور قرار دیا۔اظہر الدین کا ذکر ہوا ہے تو لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ1998ء میں لال کرشن ایڈوانی نے انتخابی جلسے میں،مسلمان نوجوانوں کومحمد اظہرالدین اور اے آر رحمان کے نقش قدم پر چلنے کا مشورہ دیا تھا۔بعد ازاں اظہرالدین سیاست میں آئے تو ایڈوانی کی پارٹی کے بجائے وہ کانگریس میں گئے اور رکن پارلیمنٹ بنے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورئہ بھارت کی مخالفت شیوہ بنا لینے والے بال ٹھاکرے کے بارے میں یہ بتاتے چلیں کہ موصوف کو کرکٹ سے نہیں، بس پاکستان ٹیم سے چڑ تھی۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ وہ ہمیشہ سے ایسے نہ تھے ، بھلے وقتوں میں جب ان کا دماغ ٹھکانے پرتھا، وہ پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔ یہ قصہ مگرباون برس پرانا ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ موصوف نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغازکارٹونسٹ کی حیثیت سے کیا۔انگریزی جرائد میں، ان کے کارٹون شائع ہوتے تھے۔ کارٹونوں پر مبنی جریدہ بھی انھوں نے جاری کیا۔ یہ سفرزیادہ لمبا نہ کھینچا، اورجلد ہی انھوں نے 1966ء میں انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا کی بنیاد ڈالی، جس کا کام صرف اور صرف نفرت کا بیوپار ہے۔

کم ہی لوگوں کے علم میں ہوگا کہ 1960ء میں پاکستان ٹیم بھارت کے دورے پر گئی تو بال ٹھاکرے نے پاکستانی کھلاڑیوںکے کارٹونوں پر مبنی کتابچہ شائع کیا،ہر کھلاڑی کے کارٹون کے ساتھ اس کا مختصر تعارف بھی لکھا۔حنیف محمد کوکارٹون میں ہک شاٹ کھیلتے دکھایا گیا۔بال ٹھاکرے نے حنیف محمد کوایسا لٹل ماسٹر قرار دیا، جو بھارت کے لیے سب سے بڑھ کر سنگِ گراں(stumbling block) ثابت ہوگا۔ٹھاکرے نے پاکستانی بیٹسمین کے ضبط و تحمل کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ حنیف محمدکسی گھاگ کھلاڑی کی طرح میدان میں اترتا ہے، اور صورت حال کو اپنے قبضے میں کرلیتا ہے۔

حنیف محمد کے بارے میں ٹھاکرے کی یہ رائے بھارتی تاریخ دان رام چندرا گوہا نے اپنی بے مثال کتاب"A Corner of a Foreign Field - An Indian history of a British sport" میں نقل کی ہے۔ بال ٹھاکرے کا کتابچہ ہمارے سامنے ہوتا، تودوسرے پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں بھی، ان کے افکارکا پتا چلتا، خیر گوہا کی کتاب سے حنیف محمد کے بارے میںان کی رائے کا پتا چل گیا، جو بالکل صحیح اور جچی تلی ہے۔

یہ تو خیر پرانی بات ہے ، حالیہ برسوں میں جس پاکستانی کھلاڑی کو انھوں نے اپنے تعریفی کلمات سے نوازا ہے، وہ مایہ ناز بیٹسمین جاوید میانداد ہیں، جو آٹھ برس قبل بال ٹھاکرے سے ملنے ان کی قیام گاہ پہنچے تھے۔اس ملاقات میں سابق بھارتی کھلاڑی دلیپ وینگسار کربھی جاوید میانداد کے ہمراہ تھے۔بال ٹھاکرے نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ میانداد کے مداح ہیں، اور انھیں 1986میں آسٹریلشیا کپ کے فائنل میں چتن شرما کی گیند پر ان کا چھکا ہمیشہ یاد رہا۔
Load Next Story