انتخابات جتنی جلد اتنا اچھا
یہ بات بعید از امکان ہے کہ جب بی جے پی حکومت کو شکست کھاتا دیکھے گی تو اپنا موقف تبدیل کر دے گی۔
بھارتی حکومت کی ایک عجیب عادت ہے، وہ مختلف مسائل کو ایک دوسرے میں خلط ملط کر دیتی ہے۔ کبھی معیشت کو سیاست میں ملا دیتی ہے اور بسا اوقات اقتصادیات کو اپنی بقا کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس وقت پارلیمنٹ کے سامنے جو دو اہم مسئلے ہیں ان میں ایک تو منموہن سنگھ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہے اور دوسرا غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) جس کی اجازت ملٹی برانڈ ریٹیل کی صورت میں دی گئی ہے۔ تاہم یہ دونوں معاملات جدا جدا ہیں جن کا مقصد ابھی الگ الگ ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے اسپانسر کیا ہے، جس کا مقصد حکومت کو پارلیمنٹ کے ایوان میں شکست دینا ہے تا کہ اسے جلد انتخابات پر مجبور کیا جا سکے۔ لیکن اس تحریک التواء کی منظوری کا تعلق اراکین کی تعداد سے ہے۔ حکومت کی اس حوالے سے جیت نظر آتی ہے۔
یہ بات بعید از امکان ہے کہ جب بی جے پی حکومت کو شکست کھاتا دیکھے گی تو اپنا موقف تبدیل کر دے گی۔ بہر حال حکمران کانگریس بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہوئی۔ اس نے پہلے ہی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے، جن میں یو پی کا لیڈر ملائم سنگھ یادیو بھی شامل ہے جس کا بیٹا ریاستی حکومت کا سربراہ ہے اور پھر مایا وتی کی بہوجن سماج وادی پارٹی بھی ہے، وہ بھی حکومت کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اگر بی جے پی اور سی پی آئی (ایم) بھی تحریک التواء کی حمایت کریں تب بھی کانگریس دو ووٹوں کی اکثریت سے جیت جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک التوا الٹا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ تحریک التواء کی ناکامی کانگریس کو ایک موقع فراہم کرے گی کہ وہ لوگوں کو کہہ سکے کہ وہ اس وجہ سے جیتی کیونکہ اس نے عوام کے لیے اچھا کام کیا ہے۔ تمام اسکینڈل اور بدعنوانیاں اس ملمع سازی کے نیچے چُھپ جائیں گی۔ سیماب صفت ممتا بینرجی بس ایک ہی ٹریک پر چلتی ہے۔ اس نے یہ فیصلہ کسی سے مشورہ کیے بغیر صرف اپنے طور پر ہی کیا ہے کیونکہ وہ مرکزی حکومت سے ناراض ہے اور اسے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ آیا اس کی جانب سے پیش کردہ تحریک التواء کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ اسے سی پی آئی (ایم) کی طرف سے مخالفت کی توقع تھی مگر بی جے پی کی طرف سے نہیں تھی۔ جہاں تک ایف ڈی آئی کے پرچون فروشی کا معاملہ ہے تو اس کا پارلیمنٹ میں اراکین کی تعداد سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ سارے ملک کے لیے تشویش کا مسئلہ ہے۔ حکومت کو اس سوال پر شکست کا ڈر ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے پہلے ہی کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ ایک انتظامی فیصلہ ہے جس کو پارلیمنٹ کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے گزٹ میں درج کر دیا گیا ہے۔ نئی دہلی حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ ایف ڈی آئی کا ریاستوں پر اطلاق نہیں ہو گا جس کے بارے میں وہ انفرادی طور پر فیصلہ کر سکتی ہیں کہ انھیں یہ منظور ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پرچون تجارت کو غیر ملکیوں کے لیے کھول دینے سے عوام کو ان لالچی دکانداروں سے قدرے نجات مل جائے جو طلب میں اضافہ دیکھ کر اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ملک کے پچاس کروڑ کے لگ بھگ پرچون فروش سارے کے سارے ایسا نہ کرتے ہوں، بہت سے دکاندار اپنی قومی ذمے داریوں سے آگاہ بھی ہیں، اس کے باوجود ایف ڈی آئی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس تمام پس منظر میں حکومت کو بخوبی احساس ہے کہ اگر پارلیمنٹ نے اسے مسترد کر دیا تو یہ گویا اس کے چہرے پر ایک طمانچے کے برابر ہو گا، جس کو اپوزیشن اور زیادہ اچھالنے کی کوشش کرے گی۔ لہٰذا عین ممکن ہے کہ حکومت تحریک التواء پر ووٹنگ کرانے سے بچنے کی کوشش کرے۔ یہ بہرحال اسپیکر کی صوابدید پر ہے کہ ایف ڈی آئی پر بحث کی اجازت دی جائے یا نہیں، اور یہ کہ آیا اس مسئلہ پر بھی ووٹنگ ہو گی۔
تحریک عدم اعتماد پر حکومت ووٹنگ کو نہیں روک سکے گی البتہ ایف ڈی آئی پر ووٹ روک سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث کے بعد حکومت کی اہلیت ثابت کرنے کا بڑا سوال مئی 2014ء کے عام انتخابات تک درپیش ہو گا۔ حکومت چاہے تو تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کو مزید چھ مہینے تک روک سکتی ہے۔ اور یہ کافی مناسب مہلت ہے جس میں وہ اپنا حساب کتاب درست کر سکے گی۔ لیکن اس وقت تک حکومت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے جس کی ساکھ کرپشن اور بدعنوانی کے اسکینڈلوں سے آلودہ ہے۔
اب تو مجھے وسط مدتی انتخابات کے سوا اور کوئی چارۂ کار نظر نہیں آتا، بشرطیکہ مخلوط حکومت ملک کی ترقی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ معیشت کا انحصار اصلاحات پر نہیں بلکہ عوام کے کندھوں پر ہوتا ہے جو تعمیر و ترقی کے لیے پہیے کا کام کرتے ہیں۔ فی الوقت ملک میں یہ کام نظر نہیں آ رہا۔ شرح نمو گرتے گرتے 5.8 فیصد تک آ چکی ہے جو مزید نیچے جائے گی کیونکہ عوام اور سرمایہ کاروں کو حکمرانوں پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اقتصادی صورتحال پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ انفرادی منصوبے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ سرمایہ کاری کرنے والوں نے حکومت کی مداخلت بیجا کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی اور کامیابی کا سفر طے کیا اور ملکی معیشت کی گاڑی چلتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ انھی منصوبوں میں ناکامی ہوئی جہاں حکومت نے دخل اندازی کی کوشش کی۔
منموہن سنگھ حکومت نے معیشت کو زوال میں جاتے دیکھ کر اسے درست کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنی طرف سے اس کا جتنا بھی انکار کریں اور ان کی آواز خواہ کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو، اس معاملے میں پالیسیوں کا مفلوج ہو جانا اور فیصلہ کرنے کی خامیاں اظہر من الشمس ہیں۔ سیاسی جماعتیں، بشمول کانگریس کی اتحادی جماعتیں، حکومت کے طویل مدتی منصوبوں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ اگرچہ کانگریس کبھی کبھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ موجودہ لوک سبھا (ایوان زیریں) کے قائم رہنے کے حق میں جو دلیل میں نے سنی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ ایوان کے زیادہ تر اراکین دوبارہ اسمبلی میں نہیں آ سکیں گے یا ان کو پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گا۔ یہ دلیل ممکن ہے سیاسی جماعتوں کے لیے تو قابل قبول ہو مگر عوام کے لیے ہر گز قابل قبول نہیں جو ایک ''پریورتن'' یعنی مکمل تبدیلی چاہتے ہیں۔
غالباً دو بڑی سیاسی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی محسوس کرتی ہیں کہ وہ آیندہ الیکشن میں پارلیمنٹ کی اتنی نشستیں حاصل نہیں کر پائیں گی جتنی کہ موجودہ لوک سبھا میں ان کے پاس ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ ان دونوں کے ہاتھ لوک سبھا کی 545 نشستوں میں سے 250 سے زیادہ نہیں آ سکیں گی۔ لیکن یہ دونوں پارٹیاں جس چیز کی طرف دھیان نہیں دے رہیں وہ یہ ہے کہ ان کی مقبولیت دن بدن تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ کانگریس کو ممکن ہے سب سے زیادہ نقصان ہو مگر بی جے پی کو بھی کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہاں علاقائی پارٹیاں ضرور فائدہ اٹھائیں گی۔
گاندھی کے پیروکار انا ہزارے آیندہ سال کے آغاز سے ملک کا دورہ شروع کر رہے ہیں جس سے کانگریس اور بی جے پی دونوں پر ''ڈینٹ'' پڑے گا (یعنی گھائو لگے گا)۔ ایک دفعہ تو اُس نے اہل دانش کی توجہ کھینچ لی تھی اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ دوبارہ ایسا نہ کر سکے۔ وہ خود سیاست میں نہیں ہے مگر وہ جو کہتا ہے یا کرتا ہے اس کا اگلے پارلیمانی انتخابات پر بہت اثر پڑے گا۔
اور یہ بھی ان دوسری بہت کی وجوہات میں شامل ایک وجہ ہے کہ دونوں پارٹیاں جلد انتخابات کرانے کی راہ اختیار کریں۔ ممکن ہے جب تک تبدیلی کی ہوا ایک آندھی یا طوفان نہیں بن جاتی اس وقت تک وہ کچھ نشستیں حاصل کر لیں۔ لیکن ماضی کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں تبدیلی کے بجائے ''اسٹیٹس کو'' برقرار رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیوں کا المیہ ہے، اور ساتھ ہی ملک کا بھی المیہ ہے کیونکہ اسی روش میں دونوں جہاں کی خرابیاں ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)