عالمی بساط

سوال یہ ہے کہ سانپ کی فطرت سے محبت کرنے والوں کی اپنی فطرت بھی بدل رہی ہے یا اس بار بھی یہ سب وقتی اوبال ہے؟


محمد عاصم June 13, 2016
جی ہاں چیف بھی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے موڈ میں ہے۔ یہی نہیں بلکہ وزیراعظم اور جملہ کابینہ بھی امریکہ نما سانپ کی مزید وفاداری کو اب پھر سے دودھ پلا کر آزمانا نہیں چاہتی۔

اُسے یقین نہیں ہے، اعتماد بھی نہیں ہے، گھر میں سانپ کو دودھ پلانے اور اسے وفادار بنانے کی تیسری کوشش بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اس سب کے باوجود وہ ایک بار پھر چانس لینا چاہتا ہے۔ سانپ کو دودھ پلا کر رام کرنے کا چانس۔ میں حیران ہوں کہ آخر سانپ سے ہی وفاداری کا اتنا جوش کیوں؟ جو اپنے ہی جنم دئیے گئے بچوں کو کھانے میں کسی تعامل کا مظاہرہ نہیں کرتا اور جسے اپنے پاؤں کے نشانات تک پر اعتبار نہیں آتا۔

اس نادان دوست کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہوگی جسے آپ بیسیوں مرتبہ بتا چکے ہو کہ بھائی سامنے والی دکان سے سودا سلف نہیں لیا کرو کیوںکہ وہ ناپ تول میں ڈنڈی مارتا ہے اور اپنی بات کا یعنی عہد کا لحاظ بھی نہیں رکھتا۔ لیکن آپ کا وہ دوست کسی صورت اس دکاندار سے خریداری کو موقوف نہیں کرتا۔ پھر اپنا نقصان اٹھاتا ہے اور افسوس کا اظہار کرکے اگلی بار پھر لٹنے کے لیے وہیں پہنچ جاتا ہے۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

شطرنج کے سبھی گھوڑے میدان میں مسلسل سات ناکامیوں کے بعد اب آپس میں الجھتے محسوس ہونے لگے ہیں۔ ان سات مگر ''پُرمغز'' مجالس پر قوم کا کتنا پیسہ اور وقت قربان ہوا ہے؟ شاید عدالت بھی اس کا حساب نہیں مانگ سکے کیوںکہ ایسے امور پر اٹھنے والے اخراجات ملکی مفاد کی خود ساختہ تشریح کے ضمن میں حلال ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب اس سارے ہنگام خانے میں جمہوری روایت کا امین اور پاسبان ادارہ یعنی الیکشن کمیشن، جس کا سارا صوبائی سربراہی عملہ اپنی مدت ملازمت پوری کرکے گھروں کو جا بھی چکا ہے۔ تو ایسے میں کسی انتخابی عمل پر عمل درآمد کروانا اور خلاء کے اس دورانیے میں ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا کس کے ذمہ ہوگا؟ کسی کو معلوم نہیں۔

دوستو! بات ہو رہی تھی سانپ سے وفاداری کی اور اُمید پر جینے کی آرزو والے دوست کی۔ جو اپنے تخیل میں اب بھی جہاز پر بیٹھ کر، دور سات سمند پار واقع ساحل سمندر پر بنے کسی ڈھابے میں بے فکری کی لمبی نیند سو رہا ہے۔ جسے شام ڈھلنے کی خبر ہی نہیں بلکہ سمندری مدو جزر کے خوفناک عمل کا ادراک بھی نہیں ہے، آخر کیوں؟

لیکن اب خبر آئی ہے کہ اُس کی سوچ کا موسم بدل رہا ہے۔ وہ جو انسانوں سے دشمنی اور سانپ نما انسان سے دوستی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اس بار ذرا مختلف انداز سے بولتا دکھائی دے رہا ہے۔

جب ڈوبتے بچھو کو کچھوے نے سہارا دینے کا فیصلہ کیا تھا، تب کچھوا امن کی بستی بنانے کے نعروں کے زیر اثر تھا اور جب اپنی پیٹھ پر بٹھا کر کچھوا کچھ ہی فاصلہ طے کر پایا تھا تب بچھو نے اپنی فطرت کے عین مطابق اپنے ہی محسن کو اپنے زہر بھرے ڈنک سے کاٹ لیا تھا۔ جب اس نازیبا حرکت پر کچھوے نے با ادب ہو کر پوچھا، میاں بچھو یہ تم اوپر بیٹھے کیا کررہے ہو؟ جواب ملا دوست معاف کرنا غلطی ہوگئی۔ ارادہ ایسا نہ تھا اور یوں سفر جاری رہا۔ ابھی منزل دور تھی اور بچھو عادت سے مجبور جب تیسری بار کچھوے کو اپنی پیٹھ جلتی ہوئی محسوس ہوئی تو غصہ میں پوچھا ''میاں بچھو یہ کیا حرکت ہے''؟ اور جواب آیا پیارے دوست یہ میری فطرت ہے۔ اس سے میں باز نہیں رہ سکتا۔ تب کچھوے نے پانی میں غوطہ لگایا اور کہا، پانی میرا گھر ہے اور اس میں سکون تلاش کرنا میری فطرت ہے۔ میاں بچھو اب اپنی جان خود بچاؤ۔

لیکن سوال پھر اس کی معصومیت کا ہے۔ جو فریب کھا جانے کی ازلی فطرت سے عبارت ہے۔ کیا اس بار وہ اپنے پاؤں پر کھڑا رہ پائے گا؟ کیا وہ پھر کسی لے دے کے سودے میں ایک بار پھر لوٹ لئے جانے پر کسی صورت تیار نہیں ہوگا؟ سیاست کی عالمی بساط پر کئی گھوڑے، فوجی اور وزیر اپنی پوزیشن بدلنے کے لئے جوڑ توڑ کر رہے ہیں۔ اسی چال سازی کے نازک دور میں میرا دوست اپنا پتہ کتنی ہوشیاری سے چلاتا ہے، میرے اور آپ کے مستقبل کا سارا انحصار اسی ایک بات پر ہے۔

جی ہاں چیف امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے موڈ میں ہے، بلکہ ڈرون گرانے کی صلاحیت کا اظہار بھی کرچکا ہے، وزیراعظم اور جملہ کابینہ بھی امریکہ نما سانپ کی مزید وفاداری کو اب پھر سے دودھ پلا کر آزمانا نہیں چاہتی۔

شطرنج کے سبھی پیادے اپنی اپنی چالوں کے ساتھ میدان میں موجود ہیں، جہاں ملکی مفاد کی آڑ میں لوٹی گئی قومی دولت کو واپس لانے کے لئے اپنی ذات یا پارٹی کو بچاتے ہوئے دوسرے کے احتساب پر آنکھیں سرخ کئے ہوئے سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ امریکہ بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کی گزشتہ ایک عشرہ کی لازوال قربانیوں کو یہ کہہ کر تمسخر کا نشانہ بنا رہا ہے کہ ممبئی اور پٹھان کوٹ کے کراروں کو سزا دی جائے اور بھارت کو نیوکلئیر سپلائیر گروپ کا ممبر بنایا جائے۔

کیا اس بار سوچ کا موسم سچ میں بدل رہا ہے؟ قوم آج بھی یک جان ہوکر اپنے وطن کی حفاظت کو تیار ہے لیکن سانپ کی فطرت سے محبت کرنے والوں کی اپنی فطرت بھی بدل رہی ہے یا اس بار بھی یہ سب وقتی اوبال ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں