بلیاں رومۃالکبریٰ سے اندلس تک
اٹلی میں بلی پرست بہت ہیں اور جب پارلیمنٹ میں بلی پرست بہت جمع ہو گئے تھے تو انھوں نے ایک بل بھی منظور کرا لیا ۔
سنا ہے کہ رومۃالکبریٰ میں اس مقام پر جہاں بروٹس نے جولیس سیزر کو چھرا گھونپ کر موت کے گھاٹ اتارا تھا وہاں اب بلیوں کا راج ہے۔
جدھر دیکھو بلیاں ہی بلیاں۔ بلیوں کے شیدائی ان کی کمک پر ہیں۔ انھوں نے ان کے لیے رہائش کے باقاعدہ انتظامات کیے ہیں۔ ان کے لیے کمرے تعمیر کیے۔ آرام گاہیں بنائیں۔ کچن یعنی باورچی خانے قائم کیے۔ اب ان کے لیے بیت الخلا تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ اچانک آثار قدیمہ کے ماہرین خواب غفلت سے جاگے۔ ہڑ بڑا کر اٹھے اور شور مچایا کہ اگر ان آثار قدیمہ کے بیچ بلیاں اسی طرح دندناتی رہیں تو ہمارے ملک کے آثار قدیمہ برباد ہو جائیں گے۔ ان بلیوں کو یہاں سے نکالو۔
سو محکمہ آثار قدیمہ نے بلیوں کے والی وارثوں کو نوٹس جاری کر دیا کہ بلیوں کی یہ رہائش گاہیں قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ یہاں سے اپنا ٹانڈا بانڈا اٹھائو اور اپنی بلیوں کو لے کر یہاں سے نکلو اور کہیں اور جا کر پڑائو کرو۔
مگر یہ بلیاں بے وارث تو نہیں ہیں جیسا کہ ابھی بیان ہوا کتنے بلی پرست ان کے والی وارث بن گئے ہیں۔ انھوں نے ان کے لیے یہاں رہائش کا باقاعدہ انتظام کیا ہے۔ انھوں نے نوٹس کا جواب دو ٹوک دیا کہ ''ہم یہاں سے نکلنے والے نہیں۔ کوئی دھونس نہیں چلے گی۔ اگر تم ہم سے لڑنے پر کمربستہ ہو تو بسم اللہ۔ ہم بھی کمر کس کر کھڑے ہونے لگے ہیں۔ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار ہیں ع
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اس ترکی بہ ترکی جواب نے محکمہ آثار قدیمہ کو بہت مخمصہ میں پھنسا دیا ہے۔ انھیں پتہ ہے کہ اٹلی میں بلی پرست بہت ہیں اور ایک دفعہ جب پارلیمنٹ میں بلی پرست بہت جمع ہو گئے تھے تو انھوں نے پارلیمنٹ سے ایک بل بھی منظور کرا لیا کہ یہ بلیاں جو صدیوں سے روم میں میائوں میائوں کرتی چلی آ رہی ہیں اٹلی کے کلچرل ورثے کا حصہ ہیں۔
سو محکمہ آثار قدیمہ اس وقت بہت چکنم میں ہے۔ افسوس کہ اس عاقبت نااندیش محکمہ آثار قدیمہ نے فارسی کی یہ مثل نہیں سنی تھی کہ گربہ را کشتن روز اول۔ بلی کو دیکھو تو بس فوراً ہی اس کا قلع قمع کر دو۔ مثل اگر سنی بھی ہو گی تو اس پر کان نہیں دھرے۔ سوچا ہو گا کہ فارسی والوں کو شاید بلیوں سے بیر ہے کہ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ مگر اب انھیں پتہ چل رہا ہے کہ شروع میں انھوں نے بلیوں سے جو رعایت برتی تھی وہ اب انھیں بلکہ قدیم الایام کے رومۃالکبریٰ کو یہ رعایت کتنی مہنگی پڑ رہی ہے۔ کیا زمانہ تھا کہ ساری دنیا رومۃالکبریٰ کی عظمت کا سکہ مانتی تھی۔ مگر اٹلی کے مٹھی بھر بلی پرستوں نے محکمہ آثار قدیمہ کو اس طرح آنکھیں دکھائی ہیں کہ رومۃالکبریٰ اپنے سارے جاہ و جلال کے باوصف گربۂ مسکین کے سامنے سرنگوں نظر آ رہا ہے۔
ادھر روم کے میئر نے، جسے اگلے برس الیکشن لڑنا ہے، اعلان کیا ہے کہ میں اور میری بلی دونوں روم کی بلیوں کے طرفدار ہیں۔ ان بلیوں سے جو بھی ٹکر لینے کی کوشش کرے پہلے ذرا سوچ سمجھ لے۔
ادھر میئر صاحب کو پتہ ہے کہ بلیاں خود تو ووٹر نہیں ہیں۔ مگر شہر کے ووٹروں کی اکثریت ان بلیوں کی حامی ہے۔ بلیاں روم میں ایک بڑی سیاسی طاقت ہیں۔
روم کے ناظم ثقافت نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ بلیاں بھی اتنی ہی قدیم ہیں جتنے آثار قدیمہ کے وہ مرمریں فرش قدیم ہیں جہاں یہ لوٹتی پوٹتی ہیں۔ انھیں یہاں سے نکال بھی دیا گیا تو کیا ہو گا۔ بیشک یہاں ان کے داخلہ کی ممانعت کر دی جائے مگر یہ بلیوں کی بلا جانے کہ ممانعت کیا ہوتی ہے۔ وہ تو ہر پھر کر ادھر ہی آئیں گی۔ ان کے پیچھے پیچھے سیاح آئیں گے اور بلیوں کے مقامی پرستار آئیں گے اور ان کے لیے چھیچھڑے لے کر آئیں گے۔ پھر یہاں پہلے کی طرح گندگی پھیلے گی۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ ایک چوک ان بلیوں کے حامیوں اور والیوں سے بھی ہوئی۔ انھوں نے بھلا بیت الخلائوں کی تعمیر کے لیے متعلقہ محکمہ سے کیوں اجازت مانگی تھی۔ جیسے اب تک سارے کام انھوں نے خلاف قانون کیے تھے بلیوں کے بیت الخلا بھی غیر قانونی طور پر تعمیر کر لیتے۔ اجازت مانگنے کا مطلب تھا۔ آبیل مجھے مار۔
ویسے ادھر بلیوں سے ربط و ضبط ہمارا بھی اچھا خاصا رہا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں کتا تو اچھا خاصا بدنام ہی چلا آتا ہے۔ بس ایک استثنیٰ اصحاب کہف والے کتے کا ہے۔
مگر بلی تو وہ مخلوق ہے جس نے ایک صحابی کی گود میں پرورش پائی۔ روایت یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ایک بلی کا بچہ ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔ اسی نسبت سے تو ابوہریرہ کہلاتے تھے۔ ہریرہ یعنی بلی کا بچہ۔ اور اکبر اللہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ ع
حضرت ابوہریرہ سے بلی نہ چُھٹ سکی
خواجہ حسن نظامی سے دلی نہ چُھٹ سکی
شاید بیگم حجاب امتیاز علی بھی حضرت ابوہریرہ کی تقلید میں بلیوں کو محبوب رکھتی تھیں۔ سیامی بلی کی بہت شہرت چلی آتی ہے۔ مگر بیگم حجاب اپنی دیسی بلی کی بہت قائل تھیں۔ کہتی تھیں کہ سیامی بلیاں غبی ہوتی ہیں۔ ہماری گلیوں میں گھومنے پھرنے والی بلیاں ماشاء اللہ بہت ذہین بہت عقلمند ہوتی ہیں۔
اور میرؔ نے تو بلی کی شان میں ایک پوری مثنوی لکھی ہے
ایک بلی موہنی تھا اس کا نام
ان نے میرے گھر کیا آ کر قیام
ایک دو سے ہو گئی الفت گزیں
کم بہت جانے لگی اٹھ کر کہیں
ربط پھر پیدا کیا میرے بھی ساتھ
دیکھتی رہنے لگی میرا ہی ہاتھ
چھیچھڑا ٹکڑا جو کچھ پایا کرے
فقر میرا دیکھ کر آیا کرے
بختوں سے ٹوٹا ہے چھینکا بھی اگر
اون نے ادھر کی نہیں مطلق نظر
بلی کو تھوڑا خراج تحسین علامہ اقبال نے بھی پیش کیا ہے۔ ان کی ایک نظم ہے ''...کی گود میں بلی دیکھ کر''؎
آنکھ تیری صفتِ آئینہ حیران ہے کیا
نورِ آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا
مارتی ہے اُنہیں پنجوں سے عجب ناز ہے یہ
چِڑ ہے یا غصہ ہے یا پیار کا انداز ہے یہ
اور ہاں اندلس کے ایک صوفی کا قصہ یوں ہے کہ انھوں نے ایک بلی پال رکھی تھی۔ اس بزرگ سے جو لوگ ملنے آتے ان کا سر سے پیر تک جائزہ لیتی۔ ناپسندیدہ شخصیت پر غُراتی۔ پسندیدہ شخصیت سے دو پنجوں پر کھڑے ہو کر بغل گیر ہوتی۔ جب شیخ ابو جعفر سریانی اس بزرگ سے ملنے آئے تو وہ کہیں دوسرے کمرے میں تھی۔ ان کی آہٹ سن کر دوڑی ہوئی آئی۔ پچھلے دو پنجوں پر کھڑا ہو کر ان سے گلے ملی اور اپنا منہ ان کی داڑھی میں ملنے لگی۔
جدھر دیکھو بلیاں ہی بلیاں۔ بلیوں کے شیدائی ان کی کمک پر ہیں۔ انھوں نے ان کے لیے رہائش کے باقاعدہ انتظامات کیے ہیں۔ ان کے لیے کمرے تعمیر کیے۔ آرام گاہیں بنائیں۔ کچن یعنی باورچی خانے قائم کیے۔ اب ان کے لیے بیت الخلا تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ اچانک آثار قدیمہ کے ماہرین خواب غفلت سے جاگے۔ ہڑ بڑا کر اٹھے اور شور مچایا کہ اگر ان آثار قدیمہ کے بیچ بلیاں اسی طرح دندناتی رہیں تو ہمارے ملک کے آثار قدیمہ برباد ہو جائیں گے۔ ان بلیوں کو یہاں سے نکالو۔
سو محکمہ آثار قدیمہ نے بلیوں کے والی وارثوں کو نوٹس جاری کر دیا کہ بلیوں کی یہ رہائش گاہیں قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ یہاں سے اپنا ٹانڈا بانڈا اٹھائو اور اپنی بلیوں کو لے کر یہاں سے نکلو اور کہیں اور جا کر پڑائو کرو۔
مگر یہ بلیاں بے وارث تو نہیں ہیں جیسا کہ ابھی بیان ہوا کتنے بلی پرست ان کے والی وارث بن گئے ہیں۔ انھوں نے ان کے لیے یہاں رہائش کا باقاعدہ انتظام کیا ہے۔ انھوں نے نوٹس کا جواب دو ٹوک دیا کہ ''ہم یہاں سے نکلنے والے نہیں۔ کوئی دھونس نہیں چلے گی۔ اگر تم ہم سے لڑنے پر کمربستہ ہو تو بسم اللہ۔ ہم بھی کمر کس کر کھڑے ہونے لگے ہیں۔ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار ہیں ع
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اس ترکی بہ ترکی جواب نے محکمہ آثار قدیمہ کو بہت مخمصہ میں پھنسا دیا ہے۔ انھیں پتہ ہے کہ اٹلی میں بلی پرست بہت ہیں اور ایک دفعہ جب پارلیمنٹ میں بلی پرست بہت جمع ہو گئے تھے تو انھوں نے پارلیمنٹ سے ایک بل بھی منظور کرا لیا کہ یہ بلیاں جو صدیوں سے روم میں میائوں میائوں کرتی چلی آ رہی ہیں اٹلی کے کلچرل ورثے کا حصہ ہیں۔
سو محکمہ آثار قدیمہ اس وقت بہت چکنم میں ہے۔ افسوس کہ اس عاقبت نااندیش محکمہ آثار قدیمہ نے فارسی کی یہ مثل نہیں سنی تھی کہ گربہ را کشتن روز اول۔ بلی کو دیکھو تو بس فوراً ہی اس کا قلع قمع کر دو۔ مثل اگر سنی بھی ہو گی تو اس پر کان نہیں دھرے۔ سوچا ہو گا کہ فارسی والوں کو شاید بلیوں سے بیر ہے کہ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ مگر اب انھیں پتہ چل رہا ہے کہ شروع میں انھوں نے بلیوں سے جو رعایت برتی تھی وہ اب انھیں بلکہ قدیم الایام کے رومۃالکبریٰ کو یہ رعایت کتنی مہنگی پڑ رہی ہے۔ کیا زمانہ تھا کہ ساری دنیا رومۃالکبریٰ کی عظمت کا سکہ مانتی تھی۔ مگر اٹلی کے مٹھی بھر بلی پرستوں نے محکمہ آثار قدیمہ کو اس طرح آنکھیں دکھائی ہیں کہ رومۃالکبریٰ اپنے سارے جاہ و جلال کے باوصف گربۂ مسکین کے سامنے سرنگوں نظر آ رہا ہے۔
ادھر روم کے میئر نے، جسے اگلے برس الیکشن لڑنا ہے، اعلان کیا ہے کہ میں اور میری بلی دونوں روم کی بلیوں کے طرفدار ہیں۔ ان بلیوں سے جو بھی ٹکر لینے کی کوشش کرے پہلے ذرا سوچ سمجھ لے۔
ادھر میئر صاحب کو پتہ ہے کہ بلیاں خود تو ووٹر نہیں ہیں۔ مگر شہر کے ووٹروں کی اکثریت ان بلیوں کی حامی ہے۔ بلیاں روم میں ایک بڑی سیاسی طاقت ہیں۔
روم کے ناظم ثقافت نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ بلیاں بھی اتنی ہی قدیم ہیں جتنے آثار قدیمہ کے وہ مرمریں فرش قدیم ہیں جہاں یہ لوٹتی پوٹتی ہیں۔ انھیں یہاں سے نکال بھی دیا گیا تو کیا ہو گا۔ بیشک یہاں ان کے داخلہ کی ممانعت کر دی جائے مگر یہ بلیوں کی بلا جانے کہ ممانعت کیا ہوتی ہے۔ وہ تو ہر پھر کر ادھر ہی آئیں گی۔ ان کے پیچھے پیچھے سیاح آئیں گے اور بلیوں کے مقامی پرستار آئیں گے اور ان کے لیے چھیچھڑے لے کر آئیں گے۔ پھر یہاں پہلے کی طرح گندگی پھیلے گی۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ ایک چوک ان بلیوں کے حامیوں اور والیوں سے بھی ہوئی۔ انھوں نے بھلا بیت الخلائوں کی تعمیر کے لیے متعلقہ محکمہ سے کیوں اجازت مانگی تھی۔ جیسے اب تک سارے کام انھوں نے خلاف قانون کیے تھے بلیوں کے بیت الخلا بھی غیر قانونی طور پر تعمیر کر لیتے۔ اجازت مانگنے کا مطلب تھا۔ آبیل مجھے مار۔
ویسے ادھر بلیوں سے ربط و ضبط ہمارا بھی اچھا خاصا رہا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں کتا تو اچھا خاصا بدنام ہی چلا آتا ہے۔ بس ایک استثنیٰ اصحاب کہف والے کتے کا ہے۔
مگر بلی تو وہ مخلوق ہے جس نے ایک صحابی کی گود میں پرورش پائی۔ روایت یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ایک بلی کا بچہ ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔ اسی نسبت سے تو ابوہریرہ کہلاتے تھے۔ ہریرہ یعنی بلی کا بچہ۔ اور اکبر اللہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ ع
حضرت ابوہریرہ سے بلی نہ چُھٹ سکی
خواجہ حسن نظامی سے دلی نہ چُھٹ سکی
شاید بیگم حجاب امتیاز علی بھی حضرت ابوہریرہ کی تقلید میں بلیوں کو محبوب رکھتی تھیں۔ سیامی بلی کی بہت شہرت چلی آتی ہے۔ مگر بیگم حجاب اپنی دیسی بلی کی بہت قائل تھیں۔ کہتی تھیں کہ سیامی بلیاں غبی ہوتی ہیں۔ ہماری گلیوں میں گھومنے پھرنے والی بلیاں ماشاء اللہ بہت ذہین بہت عقلمند ہوتی ہیں۔
اور میرؔ نے تو بلی کی شان میں ایک پوری مثنوی لکھی ہے
ایک بلی موہنی تھا اس کا نام
ان نے میرے گھر کیا آ کر قیام
ایک دو سے ہو گئی الفت گزیں
کم بہت جانے لگی اٹھ کر کہیں
ربط پھر پیدا کیا میرے بھی ساتھ
دیکھتی رہنے لگی میرا ہی ہاتھ
چھیچھڑا ٹکڑا جو کچھ پایا کرے
فقر میرا دیکھ کر آیا کرے
بختوں سے ٹوٹا ہے چھینکا بھی اگر
اون نے ادھر کی نہیں مطلق نظر
بلی کو تھوڑا خراج تحسین علامہ اقبال نے بھی پیش کیا ہے۔ ان کی ایک نظم ہے ''...کی گود میں بلی دیکھ کر''؎
آنکھ تیری صفتِ آئینہ حیران ہے کیا
نورِ آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا
مارتی ہے اُنہیں پنجوں سے عجب ناز ہے یہ
چِڑ ہے یا غصہ ہے یا پیار کا انداز ہے یہ
اور ہاں اندلس کے ایک صوفی کا قصہ یوں ہے کہ انھوں نے ایک بلی پال رکھی تھی۔ اس بزرگ سے جو لوگ ملنے آتے ان کا سر سے پیر تک جائزہ لیتی۔ ناپسندیدہ شخصیت پر غُراتی۔ پسندیدہ شخصیت سے دو پنجوں پر کھڑے ہو کر بغل گیر ہوتی۔ جب شیخ ابو جعفر سریانی اس بزرگ سے ملنے آئے تو وہ کہیں دوسرے کمرے میں تھی۔ ان کی آہٹ سن کر دوڑی ہوئی آئی۔ پچھلے دو پنجوں پر کھڑا ہو کر ان سے گلے ملی اور اپنا منہ ان کی داڑھی میں ملنے لگی۔