سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 5 ملزمان کی سزاؤں پر عملدرآمد روک دیا

عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے دیگر 5 ملزمان کی اپیلوں پر فیصلہ کل تک محفوظ کرلیا۔


ویب ڈیسک June 13, 2016
عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے دیگر 5 ملزمان کی اپیلوں پر فیصلہ کل تک محفوظ کرلیا۔ فوٹو؛ فائل

عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت کے سزا یافتہ افراد كی درخواستوں پر سماعت کل تك ملتوی كرتے ہوئے 5 ملزمان كی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ كرلیا جب كہ 5 كی سزائے موت پر عمل درآمد روكتے ہوئے كیسز كا ریكارڈ طلب كرلیا ہے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی كی سربراہی میں 5 ركنی لارجر بینچ نے سزائے موت كے ملزمان حیدر علی، ظاہر گل، عتیق الرحمٰن، تاج محمد عرف رضوان اور فیض زمان خان كی اپیلوں كی سماعت مكمل ہونے پر فیصلہ محفوظ كرلیا جب كہ قاری زبیر،ج میل الرحمٰن، اسلم خان،ن اصر خان اور تاج گل كی ٹرائل كا ریكارڈ طلب كرتے ہوئے ان كی سزاؤں پر عمل درآمد روك دیا۔ عدالت نے ان پانچوں ملزمان كے مقدمات میں اٹارنی جنرل افس كو نوٹس جاری كركے جواب طلب كیا اور سماعت آئندہ پیر تك ملتوی كردی جب كہ ملزمان جاوید غوری، الف خان اور دیگر كے مقدمات پر کل صبح سماعت ہوگی۔

فوجی عدالتوں كی طرف سے ملزمان كی سزاؤں كے خلاف اپیلوں كی سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیر نے عدالت كو بتایا كہ ان كے موكل حیدر علی كو 21 ستمبر 2009 كو سكیورٹی اداروں نے حراست میں لیا لیكن ان كی گرفتاری كوخفیہ ركھا گیا، اپریل 2015 میں اخباری خبر سے معلوم ہوا كہ انہیں سزائے موت سنا دی گئی ۔عاصمہ جہانگیر كا مؤقف تھا كہ ملزم كو دفاع اور وكیل كے حق سے محروم كیا گیا اوریك طرفہ ٹرائل كے نتیجے میں سزا دیدی گئی، ٹرائل میں انصاف اور آئین كی شق 10اے كے تحت ڈیو پراسز كے تقاضے پورے نہیں كیے گئے۔ عاصمہ جہانگیر نے ملزم ظاہر گل كی ٹرائل میں موجود قانونی خامیوں كی نشاندہی كی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے كہا كہ گواہوں كے تحفظ كے لیے ان كی شناخت كو خفیہ ركھا گیا۔ ان كا كہنا تھا كہ ولی بابر كیس میں بھی گواہوں كی شناخت كو خفیہ ركھا گیا تھا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے كہا كہ ملزم كا اعترافی بیان موجود ہے، ہم نے صرف دیكھنا ہے كہ قانون كے تقاضے پورے ہوئے یا نہیں، ریكارڈ كے مطابق گواہوں كی گواہی موجود ہے، گواہ نہیں تو سزا بھی نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ نے كہا كہ ملزم اعتراف كرچكا ہے كہ وہ مذہبی عقیدے كے تحت فوج پر حملے كرتا تھا اور آئندہ بھی كرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آرمی ایكٹ كے تحت فوجی عدالتوں كے پریذائیڈنگ افسر فوجی ہوتے ہیں اور استغاثہ بھی فوجی افسران كرتے ہیں، فوجی عدالتوں كا یہی قاعدہ ہے اور ہمارے سامنے كسی نے رولز كو چیلنج نہیں كیا ہے، ہم نے قانون اور حقائق كو دیكھ كر فیصلہ كرنا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر صرف اعتراضات كو دیكھا جائے تو پھر ہر چیز متنازعہ ہوجائے گی یہ بھی اعتراض كیا جاسكتا ہے كہ ایف آئی آر درج نہیں ہوئی جب كہ حقیقت یہ ہے كہ ملٹری كورٹس میں مقدمات كے اندراج اور ٹرائل كا طریقہ كار عام فوجداری مقدمات سے مخلتف ہے، اگر سرحدی علاقے میں فوج كا دہشت گردوں سے تصادم ہو جس كے نتیجے میں كچھ دہشت گرد گرفتار ہوجائیں تو ان كے خلاف غیر جانبدار عینی گواہ پیش نہیں كیے جاسكتے بلكہ فوج كے وہی اہلكاران كے خلاف گواہ ہوں گے جن كے ساتھ ان كا تصادم ہوا اور جنہوں نے ان كو گرفتار كیا۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں