میدان پھر سج رہا ہے
پانامہ لیکس پر متفقہ ٹی اوآرز کی تیاری کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی تو بن گئی
پانامہ لیکس پر متفقہ ٹی اوآرز کی تیاری کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی تو بن گئی ، تاہم کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہ تھی کہ یہ کمیٹی کچھ کر پائے گی ۔ پارلیمانی کمیٹی کو ٹی او آرز کی تیاری کے لیے پندرہ دن کی جو مہلت دی گئی تھی، وہ ختم ہو چکی ہے ۔
حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ٹی اوآرز پر اتفاق رائے تو کجا ، ابھی تک اس ضمن میں بامعنی گفتگو بھی شروع نہیں ہو سکی ہے ۔حکومت کم وبیش انھی ٹی اوآرز کو دہرا رہی ہے ، جو اس سے پہلے اس کی جانب سے سپریم کورٹ کو بھجوائے گئے تھے ۔خلاصہ ان کا یہ ہے کہ ایکٹ 1956ء کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ یہ کمیشن پانامہ لیکس کے ساتھ ساتھ بینک قرضوں کی معافی سمیت دیگر متنازعہ امور کی انکوائری بھی کرے گا، اور وزیراعظم (نوازشریف ) کو اپنی رپورٹ پیش کر ے گا ۔
یہ حکومتی ٹی او آرز اپوزیشن کے لیے قابل قبول نہیں ہیں ۔ ادھر، اپوزیشن بھی کم وبیش انھی ٹی اوآرز پر اصرار کر رہی ہے ، جو اپوزیشن کی تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر تیار کیے ہیں ۔ لب لباب ان کا یہ ہے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے نیا قانون بنایا جائے گا ۔ اس قانون کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم ہو گا ، جو تحقیقات کے بعدالزامات ثابت ہونے پرسزا تجویز کرنے کا مجاز بھی ہو گا۔ مزید یہ کہ عدالتی کمیشن اولاً وزیراعظم ( نوازشریف) کی فیملی کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرے گا اور انکو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا ۔ اپوزیشن کے یہ ٹی او آرزحکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ یہ وہ پس منظر ہے ، جس میںحکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی او آرز پر مذاکرات قریب قریب ناکام ہو چکے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ متحدہ اپوزیشن میں سے پی ٹی آئی کی پوزیشن بالکل واضح ہے ۔ وہ پہلے دن سے کہہ رہی ہے کہ اگر ٹی اوآرز پر پارلیمانی کمیٹی میں امور طے نہ پا سکے تو وہ سڑکوں پر آئے گی۔ یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ حقیقتاً یہ پی ٹی آئی ہے ، جسکی وجہ سے پانامہ لیکس کا معاملہ دبا نہیں سکا ہے ۔
پی ٹی آئی نے پانامہ لیکس کی اتنی سرگرمی سے پیروی کی ہے کہ پیپلزپارٹی سمیت دوسری پارٹیوںکو بھی میدان میں اترنا پڑا ہے ۔ یہ بھی فی الحال پی ٹی آئی ہے ، جس نے پانامہ لیکس پر باقاعدہ احتجاجی جلسے کیے ہیں ۔حکومت کے خلاف دستاویزی ثبوت اکھٹے کرنے میں بھی پی ٹی آئی ہی پیش پیش نظر آ رہی ہے ۔2014 ء کی دھرنا تحریک کی ناکامی کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا تھا ۔ ان کالموں میں وقتاً فوقتاً اس کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پانامہ لیکس کے نتیجہ میں پی ٹی آئی پھرسے اپنے پاوں پرکھڑی ہو گئی ہے ۔ عمران خان پارٹی الیکشن اور اس کے نتیجہ میں جنم لینے والی پارٹی الجھنوں سے بھی نکل آئے ہیں ۔
دھرنا تحریک کے دوران میں پی ٹی آئی کی کمزوری یہ تھی کہ وہ حکومت کے خلاف تنہا نظر آتی تھی ۔ یہ الزام بھی اس پر عائد ہوتا تھا کہ وہ تنہا پرواز ہی میں یقین رکھتی ہے ، لیکن اب اس طرح کی صورتحال نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی کے ساتھ متحدہ اپوزیشن بھی کھڑی ہے ۔یہ موقف رکھنے کے باوجود کہ حکومت ٹی او آرز مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے ، پی ٹی آئی نے کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا ، اور یہ باور کرانے میں کام یاب رہی ہے کہ پانامہ لیکس ایشو پر وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے ۔ لیکن اب جب کہ پیپلزپارٹی کے اعتزازاحسن بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت ٹی او آرز کی تیاری میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ، تو رمضان المبارک کے بعد پی ٹی آئی کے سڑکوں پر نکلنے کا امکان بہت بڑھ گیاہے ۔اطلاعات یہ ہیں کہ اس ضمن میں پارٹی کے اندر نچلی سطح پر بھرپور تیاری کی ہدایات جاری کر دی گئیں ہیں ۔
پی ٹی آئی اور پی پی پی میں بھلے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں ، یہ بات اب راز نہیں رہی کہ پانامہ لیکس پر دونوںایک پیج پر ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کے بعد آصف علی زرداری نے بھی پانامہ لیکس پر' وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کا ا حتساب سب سے پہلے' کا نعرہ لگا دیا ہے ۔ یوں پہلی مرتبہ کسی ایشو پر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اکٹھی نظر آ رہی ہیں۔ ظاہراً اس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کے مرد قلندراعتزازاحسن کو جاتا ہے ، جنھوں نے اول اول پانامہ لیکس پر حکومت کے خلاف آوازبلندکی تھی۔یہ کریڈٹ بھی انھی کو جاتا ہے کہ انھوں نے حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تمام بڑی پارٹیوں کو اپنے گھر پراکٹھا کیا، اوراس وقت تک انکو اٹھنے نہیں دیا ، جب تک کہ وہ جوابی ٹی آراوز پر متفق نہیں ہو گئیں ۔
ٹی آراو پر اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی بھی وہی کر رہے ہیں ۔یوں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پانامہ لیکس پر حکومت کے خلاف پارلیمانی سطح پر اپوزیشن کی قیادت عملاً'پیپلزپارٹی' کر رہی ہے ۔اس طرح پانامہ لیکس پربلاول بھٹو زرداری نے اب تک جو کچھ کہا ہے ، اس کا سرسری سا مطالعہ بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ پیپلزپارٹی کو اس امر کا احساس ہے کہ اب اگر وہ پیچھے ہٹتی ہے تو نہ صرف یہ کہ متحدہ اپوزیشن کی قیادت اس سے چھن جائے گی ، بلکہ اپنے تئیں اپوزیشن منوانے کے لیے اب تک جو کچھ اس نے کیا ہے ۔
وہ بھی مشکوک قرار پا جائے گا۔ اس تناظر میں ، جب بلاول بھٹو زرداری ، وزیراعظم نوازشریف سے استعفا کا مطالبہ کرتے ہیں یا اعتزازاحسن اور خورشید شاہ یہ کہتے ہیں کہ ٹی او آرز پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں اپوزیشن سڑکوں پر نکل سکتی ہے ، تو یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ رمضان المبارک کے بعد اگر پی ٹی آئی سڑکوں پر نکلتی ہے تو پیپلزپارٹی بھی اس کی تقلید پر مجبور ہو گی۔ گزشتہ دنوں آصف علی زرداری کی طرف سے خورشید شاہ کو دوبئی طلب کرکے یہ جو کہا گیا ہے کہ پانامہ لیکس پر اپوزیشن کے ساتھ مشاورت سے ہی آئیندہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا، تواس کا مطلب بھی یہی ہے کہ پیپلزپارٹی پانامہ لیکس پر آئیندہ بھی پی ٹی آئی سے ایک قدم آگے بڑھ کرکھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
دھرنا تحریک کے دنوں میں پیپلزپارٹی کے بعد دوسری بڑی پارٹی جو نوازشریف حکومت کو ریسکیو کر رہی تھی، وہ جماعت اسلامی تھی ۔ پانامہ لیکس پر مگر وہ بھی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہے ، اور علی الاعلان کہہ رہی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی پانامہ لیکس سے پہلے ہی کرپشن کے خاتمہ کے لیے ملک گیر تحریک شروع کر چکی تھی ۔
پانامہ لیکس نے اسکو گویا مہمیز لگا دی ہے ۔ اس طرح امیر جماعت سراج الحق واضح طور پرکہہ چکے ہیں کہ ٹی اوآرز مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تواپوزیشن کے پاس سڑکوں پر آنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔ آثار کچھ اس طرح کے نظر آ رہے ہیں کہ پانامہ لیکس پراگر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوتی ہے تو اس بار جماعت اسلامی بھی پیچھے نہیں رہ سکے گی اور بقدر استطاعت اس میں اپنا حصہ ڈالنے پر مجبور ہو گی۔ اپوزیشن کی دوسری پارٹیوں میں چوہدری برادران کی مسلم لیگ قائد اعظم اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کا موقف وہی ہے ، جو پی ٹی آئی کا ہے ۔ لہٰذا حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کی صورت میں وہ پی ٹی آئی کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوں گی ۔ پچھلے چند دنوں میں امریکیوں نے اسلام آباد میں چوہدری برادران سے جو ملاقاتیں کی ہیں، وہ اس لحاط سے بڑی اہم ہیں کہ باخبر ذرایع کے بقول ان میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے مضمرات اور آئیندہ کے سیٹ اپ پر بھی بات ہوئی ہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ چوہدری برادران ، عمران خان کے ساتھ بھی رابطے میں ہیںاوراس امر پر بھی غور ہورہا ہے کہ اگر کسی مرحلہ پرپیپلزپارٹی متحدہ اپوزیشن سے راستہ علیحدہ کرتی ہے ، تو متحدہ اپوزیشن کی متبادل حکمت عملی کیا ہو گی ۔ طاہرالقادری کا وفد بھی چوہدری برادران کے پاس پہنچ گیا ہے ۔امکان یہ ہے کہ 17 جون سے پہلے چوہدری پرویزالٰہی اورطاہرالقادری کے درمیان جو ملاقات ہو گی، اس میں سانحہ ماڈل ٹاون پراحتجاجی دھرنا کی حتمی حکمت عملی بھی طے کی جائے گی ۔ شیخ رشید احمد پہلے ہی 17جون کے دھرنا میں شرکت کی ہامی بھر چکے ہیں ۔ یہ مشورہ بھی ان کی طرف سے دیا گیا ہے کہ اس مرحلہ پرجب کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف متحد ہو چکی ہے ، وہ اگر احتجاجی دھرنا سانحہ ماڈل ٹاون ہی پر مرکوز رکھیں تو بہتر ہو گا۔ پانامہ لیکس پراپوزیشن کی ممکنہ احتجاجی تحریک کے پہلے ہی سانحہ ماڈل ٹاون پر احتجاجی دھرنا پنجاب حکومت کے لیے بڑی مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔
قصہ کوتاہ یہ کہ دھرنا تحریک کے دو سال بعد ہی ایک بار پھرنوازشریف حکومت کے خلاف میدان سج رہا ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ پچھلی بار پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں ، اس بار وہ بھی حکومت کے خلاف کھڑی ہیں ۔انتہائی باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی وطن واپسی کی دیر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فیصلہ کن معرکہ آرائی شروع ہو جائے گی ، لیکن فیصلہ جو بھی ہو گا، وہ ستمبر میں ہی ہو گا ، واللہ ا علم ۔ شاعر نے کہا تھا ،
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا
حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ٹی اوآرز پر اتفاق رائے تو کجا ، ابھی تک اس ضمن میں بامعنی گفتگو بھی شروع نہیں ہو سکی ہے ۔حکومت کم وبیش انھی ٹی اوآرز کو دہرا رہی ہے ، جو اس سے پہلے اس کی جانب سے سپریم کورٹ کو بھجوائے گئے تھے ۔خلاصہ ان کا یہ ہے کہ ایکٹ 1956ء کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ یہ کمیشن پانامہ لیکس کے ساتھ ساتھ بینک قرضوں کی معافی سمیت دیگر متنازعہ امور کی انکوائری بھی کرے گا، اور وزیراعظم (نوازشریف ) کو اپنی رپورٹ پیش کر ے گا ۔
یہ حکومتی ٹی او آرز اپوزیشن کے لیے قابل قبول نہیں ہیں ۔ ادھر، اپوزیشن بھی کم وبیش انھی ٹی اوآرز پر اصرار کر رہی ہے ، جو اپوزیشن کی تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر تیار کیے ہیں ۔ لب لباب ان کا یہ ہے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے نیا قانون بنایا جائے گا ۔ اس قانون کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم ہو گا ، جو تحقیقات کے بعدالزامات ثابت ہونے پرسزا تجویز کرنے کا مجاز بھی ہو گا۔ مزید یہ کہ عدالتی کمیشن اولاً وزیراعظم ( نوازشریف) کی فیملی کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرے گا اور انکو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا ۔ اپوزیشن کے یہ ٹی او آرزحکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ یہ وہ پس منظر ہے ، جس میںحکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی او آرز پر مذاکرات قریب قریب ناکام ہو چکے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ متحدہ اپوزیشن میں سے پی ٹی آئی کی پوزیشن بالکل واضح ہے ۔ وہ پہلے دن سے کہہ رہی ہے کہ اگر ٹی اوآرز پر پارلیمانی کمیٹی میں امور طے نہ پا سکے تو وہ سڑکوں پر آئے گی۔ یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ حقیقتاً یہ پی ٹی آئی ہے ، جسکی وجہ سے پانامہ لیکس کا معاملہ دبا نہیں سکا ہے ۔
پی ٹی آئی نے پانامہ لیکس کی اتنی سرگرمی سے پیروی کی ہے کہ پیپلزپارٹی سمیت دوسری پارٹیوںکو بھی میدان میں اترنا پڑا ہے ۔ یہ بھی فی الحال پی ٹی آئی ہے ، جس نے پانامہ لیکس پر باقاعدہ احتجاجی جلسے کیے ہیں ۔حکومت کے خلاف دستاویزی ثبوت اکھٹے کرنے میں بھی پی ٹی آئی ہی پیش پیش نظر آ رہی ہے ۔2014 ء کی دھرنا تحریک کی ناکامی کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا تھا ۔ ان کالموں میں وقتاً فوقتاً اس کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پانامہ لیکس کے نتیجہ میں پی ٹی آئی پھرسے اپنے پاوں پرکھڑی ہو گئی ہے ۔ عمران خان پارٹی الیکشن اور اس کے نتیجہ میں جنم لینے والی پارٹی الجھنوں سے بھی نکل آئے ہیں ۔
دھرنا تحریک کے دوران میں پی ٹی آئی کی کمزوری یہ تھی کہ وہ حکومت کے خلاف تنہا نظر آتی تھی ۔ یہ الزام بھی اس پر عائد ہوتا تھا کہ وہ تنہا پرواز ہی میں یقین رکھتی ہے ، لیکن اب اس طرح کی صورتحال نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی کے ساتھ متحدہ اپوزیشن بھی کھڑی ہے ۔یہ موقف رکھنے کے باوجود کہ حکومت ٹی او آرز مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے ، پی ٹی آئی نے کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا ، اور یہ باور کرانے میں کام یاب رہی ہے کہ پانامہ لیکس ایشو پر وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے ۔ لیکن اب جب کہ پیپلزپارٹی کے اعتزازاحسن بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت ٹی او آرز کی تیاری میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ، تو رمضان المبارک کے بعد پی ٹی آئی کے سڑکوں پر نکلنے کا امکان بہت بڑھ گیاہے ۔اطلاعات یہ ہیں کہ اس ضمن میں پارٹی کے اندر نچلی سطح پر بھرپور تیاری کی ہدایات جاری کر دی گئیں ہیں ۔
پی ٹی آئی اور پی پی پی میں بھلے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں ، یہ بات اب راز نہیں رہی کہ پانامہ لیکس پر دونوںایک پیج پر ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کے بعد آصف علی زرداری نے بھی پانامہ لیکس پر' وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کا ا حتساب سب سے پہلے' کا نعرہ لگا دیا ہے ۔ یوں پہلی مرتبہ کسی ایشو پر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اکٹھی نظر آ رہی ہیں۔ ظاہراً اس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کے مرد قلندراعتزازاحسن کو جاتا ہے ، جنھوں نے اول اول پانامہ لیکس پر حکومت کے خلاف آوازبلندکی تھی۔یہ کریڈٹ بھی انھی کو جاتا ہے کہ انھوں نے حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تمام بڑی پارٹیوں کو اپنے گھر پراکٹھا کیا، اوراس وقت تک انکو اٹھنے نہیں دیا ، جب تک کہ وہ جوابی ٹی آراوز پر متفق نہیں ہو گئیں ۔
ٹی آراو پر اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی بھی وہی کر رہے ہیں ۔یوں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پانامہ لیکس پر حکومت کے خلاف پارلیمانی سطح پر اپوزیشن کی قیادت عملاً'پیپلزپارٹی' کر رہی ہے ۔اس طرح پانامہ لیکس پربلاول بھٹو زرداری نے اب تک جو کچھ کہا ہے ، اس کا سرسری سا مطالعہ بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ پیپلزپارٹی کو اس امر کا احساس ہے کہ اب اگر وہ پیچھے ہٹتی ہے تو نہ صرف یہ کہ متحدہ اپوزیشن کی قیادت اس سے چھن جائے گی ، بلکہ اپنے تئیں اپوزیشن منوانے کے لیے اب تک جو کچھ اس نے کیا ہے ۔
وہ بھی مشکوک قرار پا جائے گا۔ اس تناظر میں ، جب بلاول بھٹو زرداری ، وزیراعظم نوازشریف سے استعفا کا مطالبہ کرتے ہیں یا اعتزازاحسن اور خورشید شاہ یہ کہتے ہیں کہ ٹی او آرز پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں اپوزیشن سڑکوں پر نکل سکتی ہے ، تو یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ رمضان المبارک کے بعد اگر پی ٹی آئی سڑکوں پر نکلتی ہے تو پیپلزپارٹی بھی اس کی تقلید پر مجبور ہو گی۔ گزشتہ دنوں آصف علی زرداری کی طرف سے خورشید شاہ کو دوبئی طلب کرکے یہ جو کہا گیا ہے کہ پانامہ لیکس پر اپوزیشن کے ساتھ مشاورت سے ہی آئیندہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا، تواس کا مطلب بھی یہی ہے کہ پیپلزپارٹی پانامہ لیکس پر آئیندہ بھی پی ٹی آئی سے ایک قدم آگے بڑھ کرکھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
دھرنا تحریک کے دنوں میں پیپلزپارٹی کے بعد دوسری بڑی پارٹی جو نوازشریف حکومت کو ریسکیو کر رہی تھی، وہ جماعت اسلامی تھی ۔ پانامہ لیکس پر مگر وہ بھی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہے ، اور علی الاعلان کہہ رہی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی پانامہ لیکس سے پہلے ہی کرپشن کے خاتمہ کے لیے ملک گیر تحریک شروع کر چکی تھی ۔
پانامہ لیکس نے اسکو گویا مہمیز لگا دی ہے ۔ اس طرح امیر جماعت سراج الحق واضح طور پرکہہ چکے ہیں کہ ٹی اوآرز مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تواپوزیشن کے پاس سڑکوں پر آنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔ آثار کچھ اس طرح کے نظر آ رہے ہیں کہ پانامہ لیکس پراگر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوتی ہے تو اس بار جماعت اسلامی بھی پیچھے نہیں رہ سکے گی اور بقدر استطاعت اس میں اپنا حصہ ڈالنے پر مجبور ہو گی۔ اپوزیشن کی دوسری پارٹیوں میں چوہدری برادران کی مسلم لیگ قائد اعظم اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کا موقف وہی ہے ، جو پی ٹی آئی کا ہے ۔ لہٰذا حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کی صورت میں وہ پی ٹی آئی کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوں گی ۔ پچھلے چند دنوں میں امریکیوں نے اسلام آباد میں چوہدری برادران سے جو ملاقاتیں کی ہیں، وہ اس لحاط سے بڑی اہم ہیں کہ باخبر ذرایع کے بقول ان میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے مضمرات اور آئیندہ کے سیٹ اپ پر بھی بات ہوئی ہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ چوہدری برادران ، عمران خان کے ساتھ بھی رابطے میں ہیںاوراس امر پر بھی غور ہورہا ہے کہ اگر کسی مرحلہ پرپیپلزپارٹی متحدہ اپوزیشن سے راستہ علیحدہ کرتی ہے ، تو متحدہ اپوزیشن کی متبادل حکمت عملی کیا ہو گی ۔ طاہرالقادری کا وفد بھی چوہدری برادران کے پاس پہنچ گیا ہے ۔امکان یہ ہے کہ 17 جون سے پہلے چوہدری پرویزالٰہی اورطاہرالقادری کے درمیان جو ملاقات ہو گی، اس میں سانحہ ماڈل ٹاون پراحتجاجی دھرنا کی حتمی حکمت عملی بھی طے کی جائے گی ۔ شیخ رشید احمد پہلے ہی 17جون کے دھرنا میں شرکت کی ہامی بھر چکے ہیں ۔ یہ مشورہ بھی ان کی طرف سے دیا گیا ہے کہ اس مرحلہ پرجب کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف متحد ہو چکی ہے ، وہ اگر احتجاجی دھرنا سانحہ ماڈل ٹاون ہی پر مرکوز رکھیں تو بہتر ہو گا۔ پانامہ لیکس پراپوزیشن کی ممکنہ احتجاجی تحریک کے پہلے ہی سانحہ ماڈل ٹاون پر احتجاجی دھرنا پنجاب حکومت کے لیے بڑی مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔
قصہ کوتاہ یہ کہ دھرنا تحریک کے دو سال بعد ہی ایک بار پھرنوازشریف حکومت کے خلاف میدان سج رہا ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ پچھلی بار پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں ، اس بار وہ بھی حکومت کے خلاف کھڑی ہیں ۔انتہائی باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی وطن واپسی کی دیر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فیصلہ کن معرکہ آرائی شروع ہو جائے گی ، لیکن فیصلہ جو بھی ہو گا، وہ ستمبر میں ہی ہو گا ، واللہ ا علم ۔ شاعر نے کہا تھا ،
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا