شہر قائد میں پانی کا بحران
سمندر، دریا، چشمے، جھیلیں، پانی کو جب بھی دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہ بہت وافر مقدار میں ہے
سمندر، دریا، چشمے، جھیلیں، پانی کو جب بھی دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہ بہت وافر مقدار میں ہے اور بے حساب ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا کا تین حصہ پانی اور ایک حصہ خشکی کا ہے لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی پر ہوگی۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی تقریباً نصف آبادی پینے کے صاف پانی کے حوالے سے مسائل کا شکار ہے۔ میٹھا پانی دنیا بھر میں کم یاب ہوتا جارہا ہے، اسی وجہ سے ترقی یافتہ دنیا میں اس ضمن میں کافی کام ہوا ہے اور مسئلے کا کسی حد تک حل تلاش کرلیا گیا ہے۔ ماہرین کھارے یا نمکین سمندری پانی کو پینے کے لیے موزوں میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے نت نئے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں، چند برسوں کے دوران نمکین سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے شعبے میں بے حد ترقی ہوئی ہے۔
اس شعبے میں سب سے آگے اسپین ہے، جہاں کئی عشروں سے سمندری پانی سے نمک کو الگ کیا جارہا ہے یا پھر سنگاپور، جو پانی کے سلسلے میں ہمسایہ ملک ملائیشیا پر انحصار کو کم کرنے کا خواہاں ہے ماہرین تسلسل سے یہ باور کرارہے ہیں کہ 2020-25 میں جنوبی ایشیا میں میٹھے پانی کا شدید بحران آنے کو ہے جس سے یہاں کے باسیوں کی حیات کو شدید خطرات لاحق ہوں گے، یہ آبی بحران انسانی زندگی کے ساتھ دیگر مخلوقات کی زندگی کو بھی شدید متاثر کرے گا۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ موسمی تغیرات کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے تمام گلیشیئرز پگھل جائیں گے جس سے میٹھے پانی کا جان لیوا بحران جنم لے گا۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق ملک کی 80 سے 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔
پاکستان میں کسی بھی حکومت نے پانی کی کمی کو اہمیت نہیں دی جب کہ ہمارا پڑوسی ملک ہمارے دریاؤں کا پانی روک کر ہمیں معاشی طور پر تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ حکومتوں کی ناقص حکمت عملی اور وژن کی کمی کے باعث پانی کے اہم مسئلے کو کبھی قابل غور سمجھا ہی نہیں گیا۔ گرمی کی شدت میں جوں جوں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پانی کا بحران بڑھتا جارہا ہے، ان دنوں شہر میں روزانہ کسی نہ کسی مقام پر پانی اور بجلی کے بحران سے متاثرہ شہری احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔ کراچی پاکستان کا معاشی، صنعتی اور فنانشل ہب ہے، جو قومی خزانے میں 70 فیصد ریونیو دیتا ہے۔ کراچی کی صنعتیں پورے ملک سے آئے ہوئے لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔ کراچی میں اقتدار کی بات آتی ہے تو تمام جماعتیں اسے اپنا شہر قرار دیتی ہیں مگر جب عوامی مسائل کے حل اور بنیادی سہولیات کی بات کی جائے تو تمام جماعتوں کے رہنماؤں کے لبوں پر سکوت کی مہر لگ جاتی ہے۔ حکومت سندھ نے 25 بلین روپے کے گریٹر کراچی بلک واٹر سپلائی اسکیم K-4 کی منظوری دیدی ہے، جو کہ خوش آیند ہے، امید ہے کہ یہ منصوبہ شہر قائد میں پینے کے پانی کی قلت پر قابو پانے میں معاون ثابت ہوگا، یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا یا ماضی کے منصوبوں کی طرح کاغذوں کی حد تک محدود رہے گا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
درحقیقت کراچی کے مسائل کی اصل وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، پاکستان کی تمام قومیتوں کے علاوہ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ رہ گیا ہو جس کا فرد کراچی میں موجود نہ ہو، آزادی کے 69 سال بعد بھی کراچی میں آبادی کے اضافے کی شرح ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں دگنی سے زیادہ ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے 1941 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی تین لاکھ 86 ہزار تھی، 1951 میں پاکستان کی پہلی مردم شماری کے مطابق آبادی گیارہ لاکھ کے لگ بھگ تھی، گویا 10 سال میں 176 فیصد اضافہ ہوا، 1970 تک آبادی میں اضافے کی شرح 8 فیصد رہی، جب کہ 1980 سے کراچی میں آبادی کے اضافے کی شرح 6 فیصد ہے جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں یہ شرح آج بھی 3 فیصد ہے۔
کراچی کی آبادی نامعلوم وجوہات کی بناء پر اصل تعداد سے کم دکھائی جاتی ہے، جس کے نتائج شہر کی ابتر صورتحال کی صورت میں سب کے سامنے ہیں اور یہی عدم توازن آج بھی موجود ہے۔ آج کراچی کی آبادی سوا دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، یہاں پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ تجارتی اور صنعتی بندرگاہیں ہیں، وسط ایشیا کی ریاستوں کی آزادی کے بعد سے اس کی حیثیت ''Gateway of Central Asia'' کی ہے۔ عالمی سطح پر اہمیت کے حامل کراچی شہر کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے بین الاقوامی منصب کو نظر انداز کرنے اور جدید خطوط پر اس کی تعمیر و ترقی کی ضرورت سے پہلو تہی ہے، اس کے ذمے دار مرکزی حکومت، صوبائی حکومت اور سیاسی نظام کے وہ تمام اسٹیک ہولڈرز ہیں، جو اس شہر کو اپنا کہتے ضرور ہیں مگر اس کی اہمیت کے مطابق اسے آراستہ کرنے میں ناکام ہیں، شہر میں مسائل کے انبار کا ایک مختصر خاکہ یہ ہے کہ شہر میں انتظامی سہولتیں غائب ہیں، نہ شنوائی ہے، نہ کوتاہی برتنے والوں سے باز پرس، پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، صحت، روزگار اور عدالتی نظام زیادہ سے زیادہ سوا کروڑ افراد کا بوجھ اٹھانے کی استطاعت رکھتا ہے جب کہ اس پر ڈھائی یا سوا دو کروڑ افراد کا بوجھ ہے۔
تمام شعبے اپنی ضروریات کے مطابق وسائل مانگ رہے ہیں۔ ہم کراچی کو بین الاقوامی شہر کہتے نہیں تھکتے، مگر اسے بین الاقوامی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ دنیا سکڑ رہی ہے، فاصلے سمٹ رہے ہیں، ملکوں کے مفادات میں یکسانیت آرہی ہے، عالمی سرمایہ دار منافع کے حصول کے لیے موزوں سرمایہ کاری مراکز کی تلاش میں ہے اور یہ سرمایہ کاری وہیں ہوگی، جہاں امن ہوگا، ہنرمند افرادی قوت ہوگی، ترقی یافتہ ذرایع آمدورفت ہوں گے، اہم جغرافیائی محل و وقوع ہوگا، کوئی بھی خرد مند اس امر سے بے خبر نہیں ہوگا کہ سوائے امن اور ترقی یافتہ ذرایع سے محرومی کے پاکستان کی آمدنی کا بنیادی محور و مرکز کم و بیش ڈھائی کروڑ آبادی والا شہر کراچی درج بالا تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔
اگر قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر غور کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اگر کراچی کو آج سے ربع صدی قبل امن و امان، میٹرو بس، انڈر گراؤنڈ ریل، شہر کے گرد رنگ روڈ، کم از کم دو مسافر ایئرپورٹس اور ملک کے کئی شہروں کی بندرگاہوں تک سمندری سفر کی سہولیات مہیا کردی جاتیں تو آج نہ صرف ملک کی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی بلکہ ملک کے تمام اہم شہروں کو یہ سہولتیں میسر آچکی ہوتیں۔
پاکستان کے وہ نادیدہ تھنک ٹینک، جو پالیسی سازی کرتے اور ارتقا کی ترجیحات کرتے ہیں، وہ کیسے علاقائی مفادات پر مبنی اور ملک کے اجتماعی مفادات کے منافی فیصلے کرسکتے ہیں، مگر یہ فیصلے ہورہے ہیں۔ یہ اسی قسم کے فیصلے ہیں، جو ماضی میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں، ماضی کے اسباق سے روگردانی کے نتائج سوچنے اور سمجھنے والوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ کراچی ایک طرف تو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف یہ پاکستان میں مختلف صوبائی اور لسانی اکائیوں کی مشترکہ رہائشگاہ اور ذریعہ روزگار بھی ہے اور یہاں ان اکائیوں کی تہذیبی آمیزش سے ایک ایسا کلچر فروغ پارہا ہے، جو پاکستان کے قومی کلچر کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
اس کا ایک امکانی ذیلی اثر یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ پاکستان کی تمام لسانی اکائیوں کا اجتماع بھی کراچی میں موجود ہے اور اس اجتماع کے اردو زبان سے امتزاج کے نتیجے میں پاکستان کی قومی زبان کی ایک نمایندہ پاکستانی شکل بھی کسی نئی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔ کراچی میٹرو پولیٹن سٹی ہے، واضح رہے کہ کسی ملک کے سربراہ کی حیثیت رکھنے والے شہر کو میٹروپولیٹن سٹی کہتے ہیں۔ کیا کراچی واقعی پاکستان کے شہروں کا سربراہ ہونے کے اوصاف رکھتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو اب بھی وقت ہے کہ کراچی کو حقیقی معنوں میں میٹروپولیٹن سٹی بنادیا جائے، اس طرح نہ صرف روشنیوں کے شہر کراچی کے بلکہ پورے ملک کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقائی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک کے اجتماعی مفاد میں فیصلے کیے جائیں اور عالمی معیشت کو پاکستان میں ڈیرے ڈالنے پر مجبور کردیا جائے۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی تقریباً نصف آبادی پینے کے صاف پانی کے حوالے سے مسائل کا شکار ہے۔ میٹھا پانی دنیا بھر میں کم یاب ہوتا جارہا ہے، اسی وجہ سے ترقی یافتہ دنیا میں اس ضمن میں کافی کام ہوا ہے اور مسئلے کا کسی حد تک حل تلاش کرلیا گیا ہے۔ ماہرین کھارے یا نمکین سمندری پانی کو پینے کے لیے موزوں میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے نت نئے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں، چند برسوں کے دوران نمکین سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے شعبے میں بے حد ترقی ہوئی ہے۔
اس شعبے میں سب سے آگے اسپین ہے، جہاں کئی عشروں سے سمندری پانی سے نمک کو الگ کیا جارہا ہے یا پھر سنگاپور، جو پانی کے سلسلے میں ہمسایہ ملک ملائیشیا پر انحصار کو کم کرنے کا خواہاں ہے ماہرین تسلسل سے یہ باور کرارہے ہیں کہ 2020-25 میں جنوبی ایشیا میں میٹھے پانی کا شدید بحران آنے کو ہے جس سے یہاں کے باسیوں کی حیات کو شدید خطرات لاحق ہوں گے، یہ آبی بحران انسانی زندگی کے ساتھ دیگر مخلوقات کی زندگی کو بھی شدید متاثر کرے گا۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ موسمی تغیرات کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے تمام گلیشیئرز پگھل جائیں گے جس سے میٹھے پانی کا جان لیوا بحران جنم لے گا۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق ملک کی 80 سے 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔
پاکستان میں کسی بھی حکومت نے پانی کی کمی کو اہمیت نہیں دی جب کہ ہمارا پڑوسی ملک ہمارے دریاؤں کا پانی روک کر ہمیں معاشی طور پر تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ حکومتوں کی ناقص حکمت عملی اور وژن کی کمی کے باعث پانی کے اہم مسئلے کو کبھی قابل غور سمجھا ہی نہیں گیا۔ گرمی کی شدت میں جوں جوں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پانی کا بحران بڑھتا جارہا ہے، ان دنوں شہر میں روزانہ کسی نہ کسی مقام پر پانی اور بجلی کے بحران سے متاثرہ شہری احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔ کراچی پاکستان کا معاشی، صنعتی اور فنانشل ہب ہے، جو قومی خزانے میں 70 فیصد ریونیو دیتا ہے۔ کراچی کی صنعتیں پورے ملک سے آئے ہوئے لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔ کراچی میں اقتدار کی بات آتی ہے تو تمام جماعتیں اسے اپنا شہر قرار دیتی ہیں مگر جب عوامی مسائل کے حل اور بنیادی سہولیات کی بات کی جائے تو تمام جماعتوں کے رہنماؤں کے لبوں پر سکوت کی مہر لگ جاتی ہے۔ حکومت سندھ نے 25 بلین روپے کے گریٹر کراچی بلک واٹر سپلائی اسکیم K-4 کی منظوری دیدی ہے، جو کہ خوش آیند ہے، امید ہے کہ یہ منصوبہ شہر قائد میں پینے کے پانی کی قلت پر قابو پانے میں معاون ثابت ہوگا، یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا یا ماضی کے منصوبوں کی طرح کاغذوں کی حد تک محدود رہے گا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
درحقیقت کراچی کے مسائل کی اصل وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، پاکستان کی تمام قومیتوں کے علاوہ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ رہ گیا ہو جس کا فرد کراچی میں موجود نہ ہو، آزادی کے 69 سال بعد بھی کراچی میں آبادی کے اضافے کی شرح ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں دگنی سے زیادہ ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے 1941 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی تین لاکھ 86 ہزار تھی، 1951 میں پاکستان کی پہلی مردم شماری کے مطابق آبادی گیارہ لاکھ کے لگ بھگ تھی، گویا 10 سال میں 176 فیصد اضافہ ہوا، 1970 تک آبادی میں اضافے کی شرح 8 فیصد رہی، جب کہ 1980 سے کراچی میں آبادی کے اضافے کی شرح 6 فیصد ہے جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں یہ شرح آج بھی 3 فیصد ہے۔
کراچی کی آبادی نامعلوم وجوہات کی بناء پر اصل تعداد سے کم دکھائی جاتی ہے، جس کے نتائج شہر کی ابتر صورتحال کی صورت میں سب کے سامنے ہیں اور یہی عدم توازن آج بھی موجود ہے۔ آج کراچی کی آبادی سوا دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، یہاں پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ تجارتی اور صنعتی بندرگاہیں ہیں، وسط ایشیا کی ریاستوں کی آزادی کے بعد سے اس کی حیثیت ''Gateway of Central Asia'' کی ہے۔ عالمی سطح پر اہمیت کے حامل کراچی شہر کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے بین الاقوامی منصب کو نظر انداز کرنے اور جدید خطوط پر اس کی تعمیر و ترقی کی ضرورت سے پہلو تہی ہے، اس کے ذمے دار مرکزی حکومت، صوبائی حکومت اور سیاسی نظام کے وہ تمام اسٹیک ہولڈرز ہیں، جو اس شہر کو اپنا کہتے ضرور ہیں مگر اس کی اہمیت کے مطابق اسے آراستہ کرنے میں ناکام ہیں، شہر میں مسائل کے انبار کا ایک مختصر خاکہ یہ ہے کہ شہر میں انتظامی سہولتیں غائب ہیں، نہ شنوائی ہے، نہ کوتاہی برتنے والوں سے باز پرس، پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، صحت، روزگار اور عدالتی نظام زیادہ سے زیادہ سوا کروڑ افراد کا بوجھ اٹھانے کی استطاعت رکھتا ہے جب کہ اس پر ڈھائی یا سوا دو کروڑ افراد کا بوجھ ہے۔
تمام شعبے اپنی ضروریات کے مطابق وسائل مانگ رہے ہیں۔ ہم کراچی کو بین الاقوامی شہر کہتے نہیں تھکتے، مگر اسے بین الاقوامی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ دنیا سکڑ رہی ہے، فاصلے سمٹ رہے ہیں، ملکوں کے مفادات میں یکسانیت آرہی ہے، عالمی سرمایہ دار منافع کے حصول کے لیے موزوں سرمایہ کاری مراکز کی تلاش میں ہے اور یہ سرمایہ کاری وہیں ہوگی، جہاں امن ہوگا، ہنرمند افرادی قوت ہوگی، ترقی یافتہ ذرایع آمدورفت ہوں گے، اہم جغرافیائی محل و وقوع ہوگا، کوئی بھی خرد مند اس امر سے بے خبر نہیں ہوگا کہ سوائے امن اور ترقی یافتہ ذرایع سے محرومی کے پاکستان کی آمدنی کا بنیادی محور و مرکز کم و بیش ڈھائی کروڑ آبادی والا شہر کراچی درج بالا تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔
اگر قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر غور کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اگر کراچی کو آج سے ربع صدی قبل امن و امان، میٹرو بس، انڈر گراؤنڈ ریل، شہر کے گرد رنگ روڈ، کم از کم دو مسافر ایئرپورٹس اور ملک کے کئی شہروں کی بندرگاہوں تک سمندری سفر کی سہولیات مہیا کردی جاتیں تو آج نہ صرف ملک کی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی بلکہ ملک کے تمام اہم شہروں کو یہ سہولتیں میسر آچکی ہوتیں۔
پاکستان کے وہ نادیدہ تھنک ٹینک، جو پالیسی سازی کرتے اور ارتقا کی ترجیحات کرتے ہیں، وہ کیسے علاقائی مفادات پر مبنی اور ملک کے اجتماعی مفادات کے منافی فیصلے کرسکتے ہیں، مگر یہ فیصلے ہورہے ہیں۔ یہ اسی قسم کے فیصلے ہیں، جو ماضی میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں، ماضی کے اسباق سے روگردانی کے نتائج سوچنے اور سمجھنے والوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ کراچی ایک طرف تو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف یہ پاکستان میں مختلف صوبائی اور لسانی اکائیوں کی مشترکہ رہائشگاہ اور ذریعہ روزگار بھی ہے اور یہاں ان اکائیوں کی تہذیبی آمیزش سے ایک ایسا کلچر فروغ پارہا ہے، جو پاکستان کے قومی کلچر کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
اس کا ایک امکانی ذیلی اثر یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ پاکستان کی تمام لسانی اکائیوں کا اجتماع بھی کراچی میں موجود ہے اور اس اجتماع کے اردو زبان سے امتزاج کے نتیجے میں پاکستان کی قومی زبان کی ایک نمایندہ پاکستانی شکل بھی کسی نئی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔ کراچی میٹرو پولیٹن سٹی ہے، واضح رہے کہ کسی ملک کے سربراہ کی حیثیت رکھنے والے شہر کو میٹروپولیٹن سٹی کہتے ہیں۔ کیا کراچی واقعی پاکستان کے شہروں کا سربراہ ہونے کے اوصاف رکھتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو اب بھی وقت ہے کہ کراچی کو حقیقی معنوں میں میٹروپولیٹن سٹی بنادیا جائے، اس طرح نہ صرف روشنیوں کے شہر کراچی کے بلکہ پورے ملک کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقائی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک کے اجتماعی مفاد میں فیصلے کیے جائیں اور عالمی معیشت کو پاکستان میں ڈیرے ڈالنے پر مجبور کردیا جائے۔