ڈنمارک میں شہزادے اورشہزادیوں کا سالانہ وظیفہ بند کرنے پرغور
ڈنمارک میں شہزادے اور شہزادیوں کا سالانہ وظیفہ بند کرنے پر غور
ڈنمارک کا شمار تاریخی ممالک میں ہوتا ہے۔ قدیم زمانے سے یہاں بادشاہی نظام حکومت رائج تھا۔ اگرچہ اب بھی سرکاری طور پر یہ سلطنت ڈنمارک ہے اور بادشاہ کو سربراہ مملکت کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، مگر عملی طور پر جمہوری نظام حکومت رائج ہے۔
1972ء میں اپنے والد شاہ فریڈرک نہم کی موت کے بعد تاج شاہی، موجودہ ملکہ مارگریٹ دوم کے سر پر آسجا تھا۔ مارگریٹ دوم چرچ آف ڈنمارک کی اعلیٰ ترین اتھارٹی اور مسلح افواج کی کمانڈر ان چیف ہیں، مگر سیاست اور سیاسی سرگرمیوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ اور نہ ہی وہ سیاسی رائے کا اظہار کرسکتی ہیں۔ شاہی خانوادے پر بھی یہی آئینی پابندی عائد ہے، اصل اختیارات ملک کے منتخب وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں۔
1967ء میں مارگریٹ دوم نے ہینرک سے شادی کی۔ ان کے دو بیٹے اور آٹھ پوتے پوتیاں ہیں۔ گزراوقات کے لیے شاہی خانوادے کو سرکاری خزانے سے وظیفہ دیا جاتا ہے۔ مگر اب حکومت ملکہ کے پوتے پوتیوں کا وظیفہ بند کرنے پر غور کررہی ہے۔ اس کی وجہ حکمران پارٹی کے ترجمان نے یہ بتائی ہے کہ اگر شاہی خاندان کے ہر فرد کو وظیفہ دیا جاتا رہا تو مستقبل میں سرکاری خزانے پر پڑنے والا بوجھ بے انتہا بڑھ جائے گا۔ دو تین نسلوں کے بعد شہزادوں اور شہزادیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوجائے گی، اور ایک بڑی رقم ان کے وظیفوں کی ادائیگی کے لیے درکار ہوا کرے گی!
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ وظیفہ پانے والے پوتے پوتیوں کی تعداد محدود کردی جائے۔ ملکہ کے دو بیٹے ہیں؛ فریڈرک آندرے اور جوئچم۔ فریڈرک کو ولی عہد کا درجہ حاصل ہے۔ دونوں شہزادوں کی چار چار اولادیں ہیں۔ حکمراں جماعت، وینسترے کے ترجمان جیکب جینسن کے مطابق پارٹی عہدے دار اس تجویز کو بہتر قرار دے رہے ہیں جس کے تحت ولی عہد فریڈرک کے بڑے بیٹے شہزادہ کرسچیئن ولدیمر کو، مستقبل کا بادشاہ ہونے کے ناتے سالانہ وظیفہ دیا جاتا رہے اور باقی شہزادوں اور شہزادیوں کا بند کردیا جائے۔ پارلیمنٹ کے کئی اراکین نے ولی عہد شہزادہ فریڈرک سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اخراجات خود برداشت کریں، انھیں سرکاری خزانے پر بوجھ نہ بنا رہنے دیں۔
زمانۂ قدیم میں، ڈنمارک میں یہ قانون رائج تھا کہ ولی عہد کی صرف سب سے بڑی اولاد وظیفے کی حق دار ٹھہرتی تھی۔ باقی بچوں کے اخراجات وہ اپنے وظیفے سے ادا کرتا تھا۔ اب سیاست داں اسی قانون کو بحال کرنے پر غور کررہے ہیں۔
1972ء میں اپنے والد شاہ فریڈرک نہم کی موت کے بعد تاج شاہی، موجودہ ملکہ مارگریٹ دوم کے سر پر آسجا تھا۔ مارگریٹ دوم چرچ آف ڈنمارک کی اعلیٰ ترین اتھارٹی اور مسلح افواج کی کمانڈر ان چیف ہیں، مگر سیاست اور سیاسی سرگرمیوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ اور نہ ہی وہ سیاسی رائے کا اظہار کرسکتی ہیں۔ شاہی خانوادے پر بھی یہی آئینی پابندی عائد ہے، اصل اختیارات ملک کے منتخب وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں۔
1967ء میں مارگریٹ دوم نے ہینرک سے شادی کی۔ ان کے دو بیٹے اور آٹھ پوتے پوتیاں ہیں۔ گزراوقات کے لیے شاہی خانوادے کو سرکاری خزانے سے وظیفہ دیا جاتا ہے۔ مگر اب حکومت ملکہ کے پوتے پوتیوں کا وظیفہ بند کرنے پر غور کررہی ہے۔ اس کی وجہ حکمران پارٹی کے ترجمان نے یہ بتائی ہے کہ اگر شاہی خاندان کے ہر فرد کو وظیفہ دیا جاتا رہا تو مستقبل میں سرکاری خزانے پر پڑنے والا بوجھ بے انتہا بڑھ جائے گا۔ دو تین نسلوں کے بعد شہزادوں اور شہزادیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوجائے گی، اور ایک بڑی رقم ان کے وظیفوں کی ادائیگی کے لیے درکار ہوا کرے گی!
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ وظیفہ پانے والے پوتے پوتیوں کی تعداد محدود کردی جائے۔ ملکہ کے دو بیٹے ہیں؛ فریڈرک آندرے اور جوئچم۔ فریڈرک کو ولی عہد کا درجہ حاصل ہے۔ دونوں شہزادوں کی چار چار اولادیں ہیں۔ حکمراں جماعت، وینسترے کے ترجمان جیکب جینسن کے مطابق پارٹی عہدے دار اس تجویز کو بہتر قرار دے رہے ہیں جس کے تحت ولی عہد فریڈرک کے بڑے بیٹے شہزادہ کرسچیئن ولدیمر کو، مستقبل کا بادشاہ ہونے کے ناتے سالانہ وظیفہ دیا جاتا رہے اور باقی شہزادوں اور شہزادیوں کا بند کردیا جائے۔ پارلیمنٹ کے کئی اراکین نے ولی عہد شہزادہ فریڈرک سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اخراجات خود برداشت کریں، انھیں سرکاری خزانے پر بوجھ نہ بنا رہنے دیں۔
زمانۂ قدیم میں، ڈنمارک میں یہ قانون رائج تھا کہ ولی عہد کی صرف سب سے بڑی اولاد وظیفے کی حق دار ٹھہرتی تھی۔ باقی بچوں کے اخراجات وہ اپنے وظیفے سے ادا کرتا تھا۔ اب سیاست داں اسی قانون کو بحال کرنے پر غور کررہے ہیں۔