اورلینڈو حملہ آور کا داعش سے تعلق کا ثبوت نہیں ملا باراک اوباما

ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ پتا چلے کہ اسے باہر سے ہدایات جاری کی جارہی تھیں، امریکی صدر


ویب ڈیسک June 14, 2016
ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ پتا چلے کہ اسے باہر سے ہدایات جاری کی جارہی تھیں، امریکی صدر فوٹو؛ فائل

LONDON: اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب پر حملہ کرنے والے ملزم عمر متین کے حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ نائٹ کلب پر حملہ کرنے والے ملزم کا داعش سے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اتوار کو اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب پر ہونے والے حملے کے بعد امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمس کومی نے امریکی صدر باراک اوباما کو حملے سے متعلق بریفنگ دی جس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اورلینڈو کے نائٹ کلب میں فائرنگ کرنے والا عمر متین انٹرنیٹ پر دستیاب انتہا پسندانہ معلومات سے متاثر ہوا تھا تاہم اس مرحلے پر ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ پتا چلے کہ اسے باہر سے ہدایات جاری کی جارہی تھیں یا اس کا تعلق داعش سے تھا البتہ حملہ آور نے آخری منٹ میں پولیس کو فون کر کے بظاہر داعش سے تعلق کا اعلان کیا تھا۔

امریکی صدر نے واقعے کو ملک میں پیدا شدہ انتہا پسندی کی مثال قراردیا اور کہا کہ امریکی حکام ایک عرصے سے اس کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں تاہم یہ حملہ بھی گذشتہ سال کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں پیش آئے فائرنگ کے واقعے جیسا ہی ہے، البتہ اورلینڈو حملے سے متعلق مکمل تفصیل نہیں جانتے۔

دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر جیمس کومی کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات سے پتہ چلا ہے کہ 29 سالہ افغان نژاد امریکی شہری عمر متین نے نہ صرف داعش سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا بلکہ وہ بوسٹن میرتھن حملے میں ملوث بھائیوں کا ہمدرد بھی تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمر متین انتہا کا شدت پسند تھا جس نے مئی 2013 میں القاعدہ اور حزب اللہ کی حمایت کا اظہار کیا تاہم جب مزید تفتیش کی تو اس نے کہا کہ اس نے غصے میں آکر اس قسم کا بیان دیا کیوں کہ اس کے ساتھی مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے تعصب کا نشانہ بناتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایف بی آئی نے 2012 اور 2013 میں عمر متین سے پوچھ گچھ کی تھی اور کرمنل ریکارڈ نہ ہونے پر اسے کلئیر قرار دے دیا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں