آئینہ دوسراحصہ
نیچے سوتی ہوئی اماں کی نہ تو آئینہ کے ٹوٹنے کی آواز پر آنکھ کُھلی، نہ اس کے ٹوٹنے پر۔
(گزشتہ سے پیوستہ)
فائزہ کو دیکھ کر رسماً بھی اس کے ہونٹوں پر کوئی مسکان نہیں سجی، اماں اس کو تخت پر بیٹھتے ہوئے دیکھ کر فائزہ سے بولیں بیٹا تم دونوں بیٹھ کر باتیں کرو میں تم دونوں کے لئے چائے لاتی ہوں۔ اماں کو باورچی خانے میں جاتا دیکھ کر اسی روکھے پھیکے لہجے میں بولی، کیسی ہو؟ اللہ کا کرم ہے۔ بس تین دن پہلے ہی امی کے یہاں آئی ہوں تو سوچا تجھ سے بھی مل لوں۔ قسم سے ان تین سالوں میں یہ تیسرا چکر ہے۔ پہلی دو بار تو بس دس دس دن کے لئے آئی تھی تو تجھ سے ملنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس بار تو ان سے کہہ کر آئی ہوں ایک ماہ سے پہلے میرے میکے پھٹکنا بھی مت، مگر دیکھنا ابھی دس دن بھی نہیں گزریں گے کہ آجائیں گے لینے۔ میرے میکے آنے پر ساس صاحبہ کا منہ تو پہلے ہی بن گیا تھا اور اپنی ماں کے خلاف تو انہوں نے جانا ہی نہیں۔
فائزہ نے پتہ نہیں اس کی کونسی ہمدردی حاصل کرنے کے خیال سے یہ موضوع چھیڑا تھا لیکن اس کو تو اُس وقت ہی آگ لگ گئی تھی جب فائزہ کے ہونٹوں پر اُن کے ذکر پر ایک شرمیلی مسکان سجی تھی، اور پھر جب وہ بولی تو اس کے بولنے نے فائزہ کو خاموش کرادیا۔ ارے تم بھی یوں ہفتوں کو میکے آکر پڑو گی تو ساس بیچاری کا منہ نہیں تو اور کیا بنے گا؟ اور میاں اپنی ماں کی نہیں تو کیا تمہاری سنے گا؟ پیدا کیا ہے بیچاری نے اس کو، تم جیسی لڑکیاں تو بس جاتے ہی یہ چاہتی ہو کہ میاں کو مٹھی میں کریں اور پھر ہم ہوں اور ہمارے سرتاج، باقی سب اللہ میاں کا راج۔ یہ تو تم تھیں جس سے ساس کا منہ بنتا ہے، تمہاری جگہ میری جیسی کوئی سلجھی ہوئی سمجھدار لڑکی اس گھر کی بہو بنی ہوتی نا تو دیکھتیں کہ سرتاج جی ہی نہیں خود ساس میکے چھوڑنے آتی۔ بی بی گھر یونہی نہیں بس جاتے قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور تم کیا خاک کوئی قربانی دو گی۔ تم تو خود اس بیچاری عورت کے بیٹے کو چاہ رہی ہو کہ تم پر بلی چڑھ کر قربان ہوجائے۔
اس کی جلی کٹی باتیں سن کر تو فائزہ کے چہرے پر ایک رنگ جارہا تھا دوسرا آرہا تھا۔ اب جب فائزہ بولی تو اُس نے بھی کسی دوستی کا لحاظ نہیں رکھا۔ رہنے دو میڈم اتنی ہی سلجھی ہوئی اور سمجھدار ہوتیں ناں تو ماں بابا کے در پڑی خود پر آتے بڑھاپے کو یوں خوش آمدید نہیں کہہ رہی ہوتیں۔ جیسی تیسی بھی ہوں آج سہاگن تو ہوں، کسی پر اُنگلی اُٹھانے سے پہلے ذرا اپنے رنگ و روپ پر تو نظر ڈال۔ چڑیلیں تو پھر اچھی ہوتی ہونگی، کوئی شکل اور ڈھنگ ہوتا، تجھے تو کوئی رنڈوا یا طلاق یافتہ بھی بیاہنے نہ آئے اور ابھی فائزہ کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ اتنی زور سے چیخی کہ باورچی خانے سے چائے کے کپ پکڑے آتی ہوئی اماں کے ہاتھ سے کپ چھوٹ گیا۔ اے حور پری کی اولاد! تو مجھے میرے ہی گھر میں بیٹھ کر بے عزت کرے گی؟ چل دفعہ ہو نکل یہاں سے، اپنے سہاگن ہونے پر بڑا غرور کررہی ہے ناں، آج رات ہی وہ بد دعا دونگی کہ ایک ہفتے کے اندر ہی اندر طلاق ہوکر اپنے میکے نہ آ کر بیٹھی تو میرا نام بدل دینا۔ پھر چٹکی بجاتے ہوئے بولی، یوں ایک ہفتے کے اندر۔ چل دفعہ ہو اب اپنے قدموں میں بہتی ہوئی چائے سے بے نیاز اماں دکھی نظروں سے کبھی فائزہ کو تو کبھی اسے دیکھ رہی تھی۔
رات کا نجانے کونسا پہر تھا اور اسے ایسی بے چینی لگی ہوئی تھی کہ خدا کی پناہ، آج تو اپنی نیند پر بھی اسے یہی گمان ہورہا تھا جیسے وہ بھی اس کی بارات کی مانند ہوگئی ہے جو اب کبھی نہیں آئے گی۔ ادھر دوسری جانب رہ رہ کر فائزہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ ذرا اپنے رنگ و روپ پر نظر ڈال تجھ سے تو اچھی چڑیلیں ہوتی ہونگی۔ پہلے تو اُس نے ان آوازوں سے بچنے کی خاطر اپنے دونوں کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسنے کی کوشش کی، لیکن جب اس میں بھی ناکام ہوئی تو گھبرا کر اُٹھ بیٹھی اور نجانے کس خیال کے تحت اپنی الماری کھول کر بیٹھ گئی۔
سامنے ہی آٹھ، نو وہ گڑیا رکھی ہوئی تھیں جن کی شادیاں وہ اپنے سہیلیوں کے گڈوں کے ساتھ کیا کرتی تھی۔ اس نے دھیان سے اُن گڑیوں کو دیکھا تو آٹھ گڑیوں میں سے وہ پانچ کی شادی کرچکی تھی جو بچپن کی یاد کی صورت آج بھی چھوٹے چھوٹے سُرخ جوڑے پہنے ہوئی تھیں۔ سب سے پہلے تو اس نے اُن پانچوں کے سُرخ جوڑوں کو پھاڑا پھر دراز میں پڑے کاجل سے اُن سب کے چہرے سیاہ کر کے بد شکل کردیے۔ پھر ان پانچوں کی بگڑی ہوئی شکل دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اُتر آئی اور پھر اُن میں سے کنواری رہ جانے والی تینوں گڑیوں کو اُٹھا کر واپس الماری میں سجایا تو اس کے آنسو کنواری گڑیوں کے میلے کپڑوں میں جذب ہوگئے۔ پھر وہ اپنے کمرے میں لگے آئینے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ آئینے کے عکس پر نگاہ پڑھتے ہی ایک لمحے کو اس نے جُھرجھری لی اور گھبرا کر اپنے پیچھے پلٹ کر دیکھا کہ یہ کون عورت ہے؟ پیچھے کسی کو نہ پا کر وہ دوبارہ آئینے کی جانب پلٹی تو وہی چہرہ وہی خدوخال جن کو دیکھ کر ابھی ایک لمحے قبل اس نے جھرجھری لی تھی آئینے میں نظر آرہا تھا۔
وہ چُپ چاپ آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔ گہری سانولی رنگت، آنکھوں کے گرد پڑتے ہوئے سیاہ حلقے، رخساروں پر کبھی رہنے والے جوانی کے دنوں کے نشان اور پھر بالوں میں ابھرتی ہوئی چاندی پر نظر پڑی تو اس کے کانوں میں کسی نے سرگوشی کی۔ بی بی یہ چاندی کی وہ دولت ہے جو کسی عورت پر سج جائے تو اُس کی اپنی قیمت گرجاتی ہے!
اس نے خود سے سوال کیا، یہ میں ہوں؟ طنزیہ ہنسی کے ساتھ اپنے خدوخال کو دیکھتے ہوئے بولی اچھا تو یہ ہے میری حقیقت۔ تبھی آج تک کوئی مجھے بیاہ کرلے جانے نہیں آیا۔ نفرت سے اس نے آئینے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا تو یہ کمبخت کیوں دن رات میری جھوٹی تعریفیں کر کرکے میری آنکھوں میں رنگ برنگے خواب سجاتا رہا۔ تبھی اسے لگا آئینہ ہنس کر کہہ رہا ہو، میں تو دیکھنے والے کو وہی دکھاتا ہوں جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ابھی آئینے کی بات پوری بھی نہیں ہو پائی تھی کہ اُس نے پاس دھرا گلدان اُٹھا کر آئینے پر دے مارا۔ نیچے سوتی ہوئی اماں کی نہ تو آئینہ کے ٹوٹنے کی آواز پر آنکھ کُھلی، نہ اس کے ٹوٹنے پر۔
صبح تخت پر حسب معمول تخت پر ناشتہ کرتی ہوئی اماں کی نگاہیں بار بار اوپر اس کے کمرے کے دروازے پر جارہی تھیں مگر وہ اپنے روزانہ کے وقت کے حساب سے نیچے نہیں اتری۔ کافی دیر تو وہ بیٹھی انتظار کرتی رہیں تب بھی نہیں آئی تو وہ سیڑھیوں کا سہارا لیتے ہوئے خود ہی اس کے کمرے کے دروازے تک پہنچ گئیں۔ مگر یہ کیا، نہ تو وہ اُن کی آواز کے جواب میں کچھ بول رہی تھی نہ دروازہ کھول رہی تھی۔ اس کے کچھ جواب نہ دینے پر وہ گھبراہٹ میں نیچے اتریں اور سدا کے اپنے گھٹنوں کے درد کو بھی اس پریشانی میں بھول گئیں۔
دروازے پر کھڑے ہوکر باہر گلی میں کھڑے دو چار لڑکوں کو آوازیں دے ڈالیں۔ بیٹا دیکھنا، غزل دروازہ نہیں کھول رہی۔ پتہ نہیں بیہوش وغیرہ تو نہیں ہوگئی۔ گلی کے لڑکوں کی آواز پر بھی جب دروازہ نہ کھلا عذرا بیگم گھبرا کر بولیں۔ اے بیٹا آوازوں پر ہی دروازہ کھولنا ہوتا تو اب تک کھول نہ دیتی۔ یہ دروازہ ہی توڑ دو، اور پھر جب دروازہ توڑا گیا تو جہاں عذرا بیگم کے ہوش اڑے وہیں گلی کے نوجوان بھی دنگ رہ گئے۔ غزل کمرے میں ڈھیر پڑی تھی اور اُس کے ارد گرد آئینے کی کرچیاں پڑی ہوئی تھیں۔ جس میں شاید گرنے کی وجہ سے کچھ اُس کے ہاتھوں میں بھی لگی تھیں جس کا ثبوت ہاتھوں پر ایک دو جگہ لگا ہوا وہ خون تھا جو پتہ نہیں رات کے کس پہر نکلا تھا کہ اب جم بھی چکا تھا۔
ادھر غزل کی روح زمین پر اپنے خوابوں کے شہزادے کی تلاش سے مایوس ہو کر آسمانوں کی جانب پرواز کرچکی تھی اور اُدھر عذرا بیگم کو پتہ ہی نہیں چلا کب غزل کا کفن سلا، کب اسے غسل دیا گیا، گھر میں چلتے پھرتے لوگ دیکھ کر انہیں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ سب غزل کی رخصتی میں شرکت کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ ہوش تو انہیں تب آیا جب غزل کا ڈولا اٹھانے کے وقت محلے کی کسی عورت نے کہا۔ ارے کوئی ماں کو بیٹی کا آخری دیدار تو کرا دو۔ بس اِس جملے کا یہ گھونسہ ان کے دماغ پر ایسا پڑا کہ انہیں واپس ہوش و حواس کی دنیا میں لے آیا، اور اب جہاں وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں وہیں اُن کی یہ ضد تھی کہ اپنی بچی کو اس کی آخری آرام گاہ تک وہ خود چھوڑنے جائیں گیں۔ محلے والوں کے ہزار منع کرنے پر بھی جب وہ نہ مانیں تو گلی والوں نے گلی کے سب سے بزرگ و معتبر دادا شکور کو عذرا بیگم کو سمجھانے کے لئے آگے کیا۔ جن کو خود عذرا بیگم بھی دادا شکور کہتی تھیں۔
عذرا بیگم دادا شکور کے سمجھانے پر بولیں، دادا دنیا بھر کی لڑکیوں کی رخصتی پر خاندان کی کوئی بچی پہلی بار اس کے ساتھ جاتی ہے اب ہم ماں بیٹی کا ایک دوسرے کے سوا کون تھا۔ تو اپنی بیٹی کی اس رخصتی پر مجھے ہی ساتھ چلنے دو۔ عذرا بیگم کا جواب سن کر شکور دادا بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ خود ہی پیچھے ہوگئے، اور جب ڈولا اٹھایا جانے لگا تو وہ گھبرا کر اوپر غزل کے کمرے کی جانب گئیں۔ اور جب وہ واپس آئیں تو انہوں اپنے چادر کے اندر کوئی موٹی سی شے چھپا رکھی تھی۔ اب محلے والوں کے ساتھ ان کے قدم بھی بیٹی کے ڈولے کے ساتھ ساتھ اٹھ رہے تھے۔ تدفین کے بعد جب غزل کی قبر پر تازہ مہکتے ہوئے پھولوں کی چادر ڈالی جانے لگی تو عذرا بیگم نے فورا روک دیا اور یوں تازہ پھولوں کی چادر وہ غزل کی برابر والی قبر پر ڈلوادی گئی اور پھر محلے والوں نے جو منظر دیکھا وہ اُنہیں حیرت زدہ تو کررہا تھا مگر وہ کچھ سمجھنے سے قاصر تھے کہ عذرا بیگم اپنی چادر میں سے نکالے گئے ایک بڑے سے پلاسٹک کے تھیلے میں سے بہت سے خشک گلابوں کے ہار اور موتیے کے پھولوں کے گجروں کی ان خشک لڑیوں سے غزل کی قبر کیوں سجا رہی ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
فائزہ کو دیکھ کر رسماً بھی اس کے ہونٹوں پر کوئی مسکان نہیں سجی، اماں اس کو تخت پر بیٹھتے ہوئے دیکھ کر فائزہ سے بولیں بیٹا تم دونوں بیٹھ کر باتیں کرو میں تم دونوں کے لئے چائے لاتی ہوں۔ اماں کو باورچی خانے میں جاتا دیکھ کر اسی روکھے پھیکے لہجے میں بولی، کیسی ہو؟ اللہ کا کرم ہے۔ بس تین دن پہلے ہی امی کے یہاں آئی ہوں تو سوچا تجھ سے بھی مل لوں۔ قسم سے ان تین سالوں میں یہ تیسرا چکر ہے۔ پہلی دو بار تو بس دس دس دن کے لئے آئی تھی تو تجھ سے ملنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس بار تو ان سے کہہ کر آئی ہوں ایک ماہ سے پہلے میرے میکے پھٹکنا بھی مت، مگر دیکھنا ابھی دس دن بھی نہیں گزریں گے کہ آجائیں گے لینے۔ میرے میکے آنے پر ساس صاحبہ کا منہ تو پہلے ہی بن گیا تھا اور اپنی ماں کے خلاف تو انہوں نے جانا ہی نہیں۔
فائزہ نے پتہ نہیں اس کی کونسی ہمدردی حاصل کرنے کے خیال سے یہ موضوع چھیڑا تھا لیکن اس کو تو اُس وقت ہی آگ لگ گئی تھی جب فائزہ کے ہونٹوں پر اُن کے ذکر پر ایک شرمیلی مسکان سجی تھی، اور پھر جب وہ بولی تو اس کے بولنے نے فائزہ کو خاموش کرادیا۔ ارے تم بھی یوں ہفتوں کو میکے آکر پڑو گی تو ساس بیچاری کا منہ نہیں تو اور کیا بنے گا؟ اور میاں اپنی ماں کی نہیں تو کیا تمہاری سنے گا؟ پیدا کیا ہے بیچاری نے اس کو، تم جیسی لڑکیاں تو بس جاتے ہی یہ چاہتی ہو کہ میاں کو مٹھی میں کریں اور پھر ہم ہوں اور ہمارے سرتاج، باقی سب اللہ میاں کا راج۔ یہ تو تم تھیں جس سے ساس کا منہ بنتا ہے، تمہاری جگہ میری جیسی کوئی سلجھی ہوئی سمجھدار لڑکی اس گھر کی بہو بنی ہوتی نا تو دیکھتیں کہ سرتاج جی ہی نہیں خود ساس میکے چھوڑنے آتی۔ بی بی گھر یونہی نہیں بس جاتے قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور تم کیا خاک کوئی قربانی دو گی۔ تم تو خود اس بیچاری عورت کے بیٹے کو چاہ رہی ہو کہ تم پر بلی چڑھ کر قربان ہوجائے۔
اس کی جلی کٹی باتیں سن کر تو فائزہ کے چہرے پر ایک رنگ جارہا تھا دوسرا آرہا تھا۔ اب جب فائزہ بولی تو اُس نے بھی کسی دوستی کا لحاظ نہیں رکھا۔ رہنے دو میڈم اتنی ہی سلجھی ہوئی اور سمجھدار ہوتیں ناں تو ماں بابا کے در پڑی خود پر آتے بڑھاپے کو یوں خوش آمدید نہیں کہہ رہی ہوتیں۔ جیسی تیسی بھی ہوں آج سہاگن تو ہوں، کسی پر اُنگلی اُٹھانے سے پہلے ذرا اپنے رنگ و روپ پر تو نظر ڈال۔ چڑیلیں تو پھر اچھی ہوتی ہونگی، کوئی شکل اور ڈھنگ ہوتا، تجھے تو کوئی رنڈوا یا طلاق یافتہ بھی بیاہنے نہ آئے اور ابھی فائزہ کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ اتنی زور سے چیخی کہ باورچی خانے سے چائے کے کپ پکڑے آتی ہوئی اماں کے ہاتھ سے کپ چھوٹ گیا۔ اے حور پری کی اولاد! تو مجھے میرے ہی گھر میں بیٹھ کر بے عزت کرے گی؟ چل دفعہ ہو نکل یہاں سے، اپنے سہاگن ہونے پر بڑا غرور کررہی ہے ناں، آج رات ہی وہ بد دعا دونگی کہ ایک ہفتے کے اندر ہی اندر طلاق ہوکر اپنے میکے نہ آ کر بیٹھی تو میرا نام بدل دینا۔ پھر چٹکی بجاتے ہوئے بولی، یوں ایک ہفتے کے اندر۔ چل دفعہ ہو اب اپنے قدموں میں بہتی ہوئی چائے سے بے نیاز اماں دکھی نظروں سے کبھی فائزہ کو تو کبھی اسے دیکھ رہی تھی۔
رات کا نجانے کونسا پہر تھا اور اسے ایسی بے چینی لگی ہوئی تھی کہ خدا کی پناہ، آج تو اپنی نیند پر بھی اسے یہی گمان ہورہا تھا جیسے وہ بھی اس کی بارات کی مانند ہوگئی ہے جو اب کبھی نہیں آئے گی۔ ادھر دوسری جانب رہ رہ کر فائزہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ ذرا اپنے رنگ و روپ پر نظر ڈال تجھ سے تو اچھی چڑیلیں ہوتی ہونگی۔ پہلے تو اُس نے ان آوازوں سے بچنے کی خاطر اپنے دونوں کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسنے کی کوشش کی، لیکن جب اس میں بھی ناکام ہوئی تو گھبرا کر اُٹھ بیٹھی اور نجانے کس خیال کے تحت اپنی الماری کھول کر بیٹھ گئی۔
سامنے ہی آٹھ، نو وہ گڑیا رکھی ہوئی تھیں جن کی شادیاں وہ اپنے سہیلیوں کے گڈوں کے ساتھ کیا کرتی تھی۔ اس نے دھیان سے اُن گڑیوں کو دیکھا تو آٹھ گڑیوں میں سے وہ پانچ کی شادی کرچکی تھی جو بچپن کی یاد کی صورت آج بھی چھوٹے چھوٹے سُرخ جوڑے پہنے ہوئی تھیں۔ سب سے پہلے تو اس نے اُن پانچوں کے سُرخ جوڑوں کو پھاڑا پھر دراز میں پڑے کاجل سے اُن سب کے چہرے سیاہ کر کے بد شکل کردیے۔ پھر ان پانچوں کی بگڑی ہوئی شکل دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اُتر آئی اور پھر اُن میں سے کنواری رہ جانے والی تینوں گڑیوں کو اُٹھا کر واپس الماری میں سجایا تو اس کے آنسو کنواری گڑیوں کے میلے کپڑوں میں جذب ہوگئے۔ پھر وہ اپنے کمرے میں لگے آئینے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ آئینے کے عکس پر نگاہ پڑھتے ہی ایک لمحے کو اس نے جُھرجھری لی اور گھبرا کر اپنے پیچھے پلٹ کر دیکھا کہ یہ کون عورت ہے؟ پیچھے کسی کو نہ پا کر وہ دوبارہ آئینے کی جانب پلٹی تو وہی چہرہ وہی خدوخال جن کو دیکھ کر ابھی ایک لمحے قبل اس نے جھرجھری لی تھی آئینے میں نظر آرہا تھا۔
وہ چُپ چاپ آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔ گہری سانولی رنگت، آنکھوں کے گرد پڑتے ہوئے سیاہ حلقے، رخساروں پر کبھی رہنے والے جوانی کے دنوں کے نشان اور پھر بالوں میں ابھرتی ہوئی چاندی پر نظر پڑی تو اس کے کانوں میں کسی نے سرگوشی کی۔ بی بی یہ چاندی کی وہ دولت ہے جو کسی عورت پر سج جائے تو اُس کی اپنی قیمت گرجاتی ہے!
اس نے خود سے سوال کیا، یہ میں ہوں؟ طنزیہ ہنسی کے ساتھ اپنے خدوخال کو دیکھتے ہوئے بولی اچھا تو یہ ہے میری حقیقت۔ تبھی آج تک کوئی مجھے بیاہ کرلے جانے نہیں آیا۔ نفرت سے اس نے آئینے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا تو یہ کمبخت کیوں دن رات میری جھوٹی تعریفیں کر کرکے میری آنکھوں میں رنگ برنگے خواب سجاتا رہا۔ تبھی اسے لگا آئینہ ہنس کر کہہ رہا ہو، میں تو دیکھنے والے کو وہی دکھاتا ہوں جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ابھی آئینے کی بات پوری بھی نہیں ہو پائی تھی کہ اُس نے پاس دھرا گلدان اُٹھا کر آئینے پر دے مارا۔ نیچے سوتی ہوئی اماں کی نہ تو آئینہ کے ٹوٹنے کی آواز پر آنکھ کُھلی، نہ اس کے ٹوٹنے پر۔
صبح تخت پر حسب معمول تخت پر ناشتہ کرتی ہوئی اماں کی نگاہیں بار بار اوپر اس کے کمرے کے دروازے پر جارہی تھیں مگر وہ اپنے روزانہ کے وقت کے حساب سے نیچے نہیں اتری۔ کافی دیر تو وہ بیٹھی انتظار کرتی رہیں تب بھی نہیں آئی تو وہ سیڑھیوں کا سہارا لیتے ہوئے خود ہی اس کے کمرے کے دروازے تک پہنچ گئیں۔ مگر یہ کیا، نہ تو وہ اُن کی آواز کے جواب میں کچھ بول رہی تھی نہ دروازہ کھول رہی تھی۔ اس کے کچھ جواب نہ دینے پر وہ گھبراہٹ میں نیچے اتریں اور سدا کے اپنے گھٹنوں کے درد کو بھی اس پریشانی میں بھول گئیں۔
دروازے پر کھڑے ہوکر باہر گلی میں کھڑے دو چار لڑکوں کو آوازیں دے ڈالیں۔ بیٹا دیکھنا، غزل دروازہ نہیں کھول رہی۔ پتہ نہیں بیہوش وغیرہ تو نہیں ہوگئی۔ گلی کے لڑکوں کی آواز پر بھی جب دروازہ نہ کھلا عذرا بیگم گھبرا کر بولیں۔ اے بیٹا آوازوں پر ہی دروازہ کھولنا ہوتا تو اب تک کھول نہ دیتی۔ یہ دروازہ ہی توڑ دو، اور پھر جب دروازہ توڑا گیا تو جہاں عذرا بیگم کے ہوش اڑے وہیں گلی کے نوجوان بھی دنگ رہ گئے۔ غزل کمرے میں ڈھیر پڑی تھی اور اُس کے ارد گرد آئینے کی کرچیاں پڑی ہوئی تھیں۔ جس میں شاید گرنے کی وجہ سے کچھ اُس کے ہاتھوں میں بھی لگی تھیں جس کا ثبوت ہاتھوں پر ایک دو جگہ لگا ہوا وہ خون تھا جو پتہ نہیں رات کے کس پہر نکلا تھا کہ اب جم بھی چکا تھا۔
ادھر غزل کی روح زمین پر اپنے خوابوں کے شہزادے کی تلاش سے مایوس ہو کر آسمانوں کی جانب پرواز کرچکی تھی اور اُدھر عذرا بیگم کو پتہ ہی نہیں چلا کب غزل کا کفن سلا، کب اسے غسل دیا گیا، گھر میں چلتے پھرتے لوگ دیکھ کر انہیں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ سب غزل کی رخصتی میں شرکت کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ ہوش تو انہیں تب آیا جب غزل کا ڈولا اٹھانے کے وقت محلے کی کسی عورت نے کہا۔ ارے کوئی ماں کو بیٹی کا آخری دیدار تو کرا دو۔ بس اِس جملے کا یہ گھونسہ ان کے دماغ پر ایسا پڑا کہ انہیں واپس ہوش و حواس کی دنیا میں لے آیا، اور اب جہاں وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں وہیں اُن کی یہ ضد تھی کہ اپنی بچی کو اس کی آخری آرام گاہ تک وہ خود چھوڑنے جائیں گیں۔ محلے والوں کے ہزار منع کرنے پر بھی جب وہ نہ مانیں تو گلی والوں نے گلی کے سب سے بزرگ و معتبر دادا شکور کو عذرا بیگم کو سمجھانے کے لئے آگے کیا۔ جن کو خود عذرا بیگم بھی دادا شکور کہتی تھیں۔
عذرا بیگم دادا شکور کے سمجھانے پر بولیں، دادا دنیا بھر کی لڑکیوں کی رخصتی پر خاندان کی کوئی بچی پہلی بار اس کے ساتھ جاتی ہے اب ہم ماں بیٹی کا ایک دوسرے کے سوا کون تھا۔ تو اپنی بیٹی کی اس رخصتی پر مجھے ہی ساتھ چلنے دو۔ عذرا بیگم کا جواب سن کر شکور دادا بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ خود ہی پیچھے ہوگئے، اور جب ڈولا اٹھایا جانے لگا تو وہ گھبرا کر اوپر غزل کے کمرے کی جانب گئیں۔ اور جب وہ واپس آئیں تو انہوں اپنے چادر کے اندر کوئی موٹی سی شے چھپا رکھی تھی۔ اب محلے والوں کے ساتھ ان کے قدم بھی بیٹی کے ڈولے کے ساتھ ساتھ اٹھ رہے تھے۔ تدفین کے بعد جب غزل کی قبر پر تازہ مہکتے ہوئے پھولوں کی چادر ڈالی جانے لگی تو عذرا بیگم نے فورا روک دیا اور یوں تازہ پھولوں کی چادر وہ غزل کی برابر والی قبر پر ڈلوادی گئی اور پھر محلے والوں نے جو منظر دیکھا وہ اُنہیں حیرت زدہ تو کررہا تھا مگر وہ کچھ سمجھنے سے قاصر تھے کہ عذرا بیگم اپنی چادر میں سے نکالے گئے ایک بڑے سے پلاسٹک کے تھیلے میں سے بہت سے خشک گلابوں کے ہار اور موتیے کے پھولوں کے گجروں کی ان خشک لڑیوں سے غزل کی قبر کیوں سجا رہی ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور500 الفاظ پرمشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصرمگرجامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویراورویڈیو لنکس۔