چند روزایران میں گزشتہ سے پیوستہ
شاہی محل کی عمارت کے ساتھ ایک انیکسی بھی تھی اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ شہنشاہ کے بیٹے کا آفس تھا
شاہی محل کی عمارت کے ساتھ ایک انیکسی بھی تھی اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ شہنشاہ کے بیٹے کا آفس تھا ۔ بیٹے کے ملبوسات، میز کرسی قلم۔ ہر چیز اسی طرح تھی جیسے اس گھر کا مکین چند رور کے لیے کہیں باہر گیا ہوا ہو۔ بیٹے کوجانشین کے طور پر تیار کیا جا رہا تھا۔ جانشینی کی کہانی بھی خوب ہے، بڑے بڑے حکمرانوں نے اپنے جانشین تیار کیے مگر انھیں تخت نصیب نہ ہوا۔
بہت سوں کو تخت کی جگہ تختہ نصیب ہوا۔کئی پِسر آباء کی جگہ پر بیٹھ تو گئے مگر جلد ہی اجداد کی سلطنت گنوا بیٹھے۔کچھ جہانبانی کی مطلوبہ قابلیت سے محروم تھے اور بہت سے عیاشیوں کے دلدادہ۔ جانشینی نے ہی امّتِ مسلمہ میں ایک مستقل تفرقہ ڈال دیا اور ان کے بیچ تقسیم کی دیوار کھڑی کردی جو صدیوں سے قائم ہے اور سیاسی اور معاشی مقاصد کا سیمنٹ اسے مزید پختہ کررہا ہے۔ ؎اے کاش کوئی بیچ کی دیوار گرادے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے خود اور آپ کے تربیت یافتہ چاروں خلفائے راشدین میں سے کسی نے جانشینی کے لیے اپنی اولاد کا انتخاب نہ کیا، ان کے بعد امیرمعاویہؓ نے پہلی بار خلافت سے ملوکیت میںقدم رکھا اور حکمرانی اپنے گھر میںرکھنے کی ابتداء کی جس سے دنیائے اسلام ہمیشہ کے لیے تقسیم ہوگئی۔
بازارِبزرگ سے ہوکر آزادی ٹاور پہنچے۔ آزادی ٹاور اسطرح ایستادہ ہے جیسے کوئی قوی ہیکل محافظ شہر کی حفاظت کے لیے چوکس کھڑا ہے، یہ شاہ نے تعمیر کروایا اور اسے ایران کی قوت اور عظمت کی علامت قرار دیا ۔ میلاد ٹاور ماڈرن ایران کی علامت ہے جسکے نیچے ریستوران، اسٹوراور سوونیئرز کی دکانیں ہیں۔ ٹاور کی بلندی سے تہران کا بڑا دلفریب نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
رات کو صفدر کے خوشنما اور کشادہ فلیٹ میں بھابھی (مسز صفدر) اور ماہین بیٹی نے بڑے لذیذ پاکستانی کھانوں سے تواضع کی۔ دوسرے روز علیٰ الصبح سات بجے ناشتے کے لیے ہوٹل کی طعام گاہ میں پہنچ گئے۔ وہیں کانفرنس کے کچھ اور شرکاء سے بھی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر آصفہ یاسین بھوپال (بھارت)سے آئی تھیں۔ سری لنکا، ایران افغانستان اور تاجکستان کے نمایندے بھی آئے ہوئے تھے۔
کانفرنس کا انعقاد ہوٹل سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع شہید رجائی یونیورسٹی(ہماری یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی طرز پر بنائی گئی ٹیکنالوجی یونیورسٹی جو ایران کے شہید صدر رجائی کے نام سے موسوم کی گئی ہے) میں کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے یونیورسٹی کے سربراہ (صدر) نے کانفرنس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ پھر لیکچرز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لیکچرز کے دوران وقفے وقفے سے تازہ پھلوں اور دیگر مشروبات و معقولات سے تواضع کی جاتی رہی ۔ مہمان نوازی بلاشبہ ایرانیوں کی صفتِ خاص ہے۔
دو نوجوان افغانستان کی نمایندگی کر رہے تھے، شام پانچ بجے کے بعدجب ہم یونیورسٹی سے واپس ہوٹل جا رہے تھے تو ایک افغان مندوب کو کوچ میںمیرے ساتھ والی نشست ملی، میں نے اس سے افغانستان میںامن وامان کی صورتِ حال پوچھی تو اس نے الزامات کی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ پہلے تو میں نے اسے دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی مگر جب اس نے بار بار یہ کہا کہ "آپکی آئی ایس آئی کی مداخلت ہمارے حالات خراب کرتی ہے" تو مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے کہا ''آپ انڈیا کی زبان بول رہے ہیں۔ آپ بھول گئے ہیں کہ ہم نے تیس لاکھ افغانوں کو پاکستان میں کتنی عزت کے ساتھ رکھا۔
آج کابل میں سب سے زیادہ غیرمحفوظ پاکستانی ہیں جو آپ کے سب سے بڑے محسن ہیں کیاآپ کو دنیا احسان فراموش نہ کہے گی ؟ ''۔ اس پر اُس نے جارحانہ انداز بدل کر مدافعانہ طرزِ تکلّم اختیار کیا اور کہنے لگا "مجھے تو ذاتی طور پر پاکستان افغانستان سے بھی زیادہ اچھا لگتا ہے کیونکہ میں اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں پڑھا ہوں"۔ تاجکستان سے آئی ہوئی مادام زہرہ بڑی ہی خوش مزاج اور ملنسار تھیںاور اپنے بھاری بھرکم ڈیل ڈول سے تاجکستان کی جٹّی لگتی تھیں۔
دوسرے روز میزبان ہمیں لنچ کے لیے ایک اچھے ریستوران میںلے گئے، وہاں تیس چالیس ایرانی خواتین کا گروپ پہلے سے موجود تھا وہ سب کسی دوست کی سالگرہ منانے کے لیے اکٹھی ہوئی تھیں۔ ایک ایرانی لڑکی انگریزی میں ہمارے گروپ کے شرکاء کے بارے میں پوچھنے لگی جب اس نے مادام زہرہ کا پس منظر پوچھا تو میں نے مذاقاً کہہ دیا "یہ' مس تاجکستان' رہ چکی ہیں۔ اب وہاں پارلیمنٹ کی ممبر ہیںاور وزیرِ خارجہ بننے والی ہیں "اس پروہ اچھل پڑی اوراس نے باآوازِ بلند وہی تعارف اپنی دوستوں سے شیئر کیا جس پر سب خواتین نے مادام زہرہ کو گھیر لیااور ان کے ساتھ کافی دیر تک فوٹو سیشن اور سیلفی سیشن چلتا رہا۔ مادام بھی اس پذیرائی پر خوشی سے جھومتی رہیں۔ جب یہ سیشن ضرورت سے زیادہ طویل ہونے لگا تو میں نے پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا "دیکھیں مستقبل کی وزیرِ خارجہ کی سیکیورٹی کے لیے ایرانی پولیس بھی سادہ کپڑوں میں یہاں موجود ہے"۔ پولیس کا نام سنتے ہی گھیراؤ ختم ہوگیا اور ہم مادام کو بحفاظت وہاںسے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔
ایک بار لیکچرز میں وقفہ ہوا تو میںلیکچر ہال سے باہر آگیایونیورسٹی کے طلباء کاریڈوروں میں آجارہے تھے انھی میں سے ایک چھوٹی داڑھی والا خوبرو نوجوان مصطفیٰ ملا ۔ میں نے اس سے علیک سلیک کی اس کے پوچھنے پر بتایا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ اس کے فوراً بعد اس نے مجھ سے پوچھا "آپ شیعہ ہیں یا سُنّی؟" دل کو دھچکہ سا لگا ۔ میںنے کہا ہمارے ملک کے بانی محمد علی جناحؒ سے ایک بار کسی نے پوچھا تھا کہ آپ سُنّی ہیں یا شیعہ ؟ تو انھوں نے سوال کرنے والے سے پوچھ لیا کہ بتاؤہمارے نبی ﷺ سنّی تھے یا شیعہ؟سوال کرنے والالاجواب ہوگیا۔اس پر جناحؒ صاحب نے کہا "جس طرح ہمارے نبیؐ صرف مسلمان تھے اسی طرح میں بھی صرف مسلمان ہوں"۔ تو مائی ڈیئر مصطفیٰ! ہمیں بھی اپنے نبیؐ کی طرح صرف مسلمان ہی رہنا چاہیے ۔
یونیورسٹی کے اساتذہ ہوںیاطلباء ، ہوٹل کا اسٹاف ہو یا بازار میں پھرنے والے عوام میںسب سے ملتا رہا۔ پاکستان کا نام سنتے ہی مجھ سے دوسرا سوال یہی ہوتا رہا کہ آپ شیعہ ہیں یا سُنّی۔ میں بھی سب کو ایک ہی جواب دیتا رہا ۔باشعور افراد یہ جواب سنکر کسی حد تک جھینپ جاتے۔
بازار میں کچھ پڑھے لکھے ایرانیوںسے تعارف ہوا تو انھوں نے پوچھا کہ "پاکستان میں شیعہ حضرات کاقتلِ عام کیا جارہا ہے ؟" میں نے انھیں بتایا کہ "مٹھی بھر افراد دہشتگردی کے واقعات میں ملوّث ہیں ان کی دہشت گردی کا نشانہ شیعہ اور سُنّی دونوں بنتے ہیں، پوری قوم ان کی مذمّت کرتی ہے اوران کے خلاف متحد ہے۔ تمام فرقوں کے لوگ ایک شہر ایک گاؤں ایک محّلے میں اکھٹے رہتے ہیں ان کی آپس میں دوستیاں اور رشتے داریاں ہیں، ہمارے دین کے دشمن ہمارے درمیان اختلافات کی خلیج کو وسیع کرنا چاہتے ہیںاور ہمیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں دھشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن ہواہے جس سے ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور حالات بہت بہتر ہوئے ہیں"۔ اس سے وہ کافی حد تک مطمئن ہوئے۔
دوسرے روز ہم رات کا تہران دیکھنے نکل پڑے پہلے لالہ پارک کے ساتھ بازاچہ (چھوٹا بازار) میں گئے جہاںسیکڑوں کی تعداد میں خواتین وحضرات سستے اسٹوروں سے خریداری کررہے تھے، کہیں کہیں نوجوان گلوکاروں نے موسیقی کی محفل سجارکھی تھی اور ان کے اردگردلوگ اکٹھے ہوکر انھیں داد دے رہے تھے کہیں آرٹسٹ آپکے سامنے آپکی تصویر یاپینٹنگز بنارہے تھے۔ ایرانی باشندے آرٹ کے دلدادہ ہیں اور شعر و نغمہ ان کے رگ و پے میں رچا بسا ہے، معاشرے کا لبرل طبقہ مذہبی حکمرانوں کی عائد کردہ پابندیوں سے تنگ ہے مگر اس کا بس نہیں چلتا۔ 1979کی نسبت اب پابندیا ںنرم کردی گئی ہیں، مگر خواتین کو باہر آنے کے لیے سر اور سینہ ڈھانپنا پڑتا ہے۔انٹرنیٹ پر فحش مواد کے تمام سورس بلاک کردیے گئے ہیںجوقابلِ تحسین ہے۔
نیاواران محل کے ساتھ تجریش کا علاقہ لاہور کے ڈیفنس یا گلبرگ کیطرح اپر کلاس کا علاقہ ہے، وہاں کی مین روڈ ولی عصر کے چکر کاٹتے ہوئے ہم نیچربرج پرپہنچ گئے۔ یہ پُل ایک نوجوان خاتون آرکیٹکٹ لیلیٰ نے ڈیزائن کیا ہے، یہ دو بڑے پارکوں۔ آب و آتش پارک اورطالغانی پارک کو آپس میں ملاتا ہے۔ بلاشبہ ہزاروں لوگ پارکوں میںکھانا پکا کر لائے تھے اور چٹائیاں بچھا کر پورے کنبے کے ساتھ ملکر کھانے اور سیر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ایک دو روز میں فارسی میں لکھے ہوئے سائن بورڈبھی بڑے مانوس اور قابلِ فہم لگنے لگے تھے۔ بیمارستان چشم یا بیمارستان قلب کا بورڈ دیکھکر اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ آنکھوں یا دل کا اسپتال ہے۔
مقامی باشندوں کی زبانی بھی معلوم ہوا اور کئی روز کا مشاہدہ اس کی تصدیق کرتا رہا کہ تہران میں ماحولیاتی آلودگی کی سطح بہت بلند ہے اور اس کے سبب ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں۔ پٹرول بہت سستا ہے اور پچّیس سے تیس روپے فی لٹر مل جاتا ہے اس لیے گاڑیوں کا اژدھام ہے اور ٹریفک جیم روزانہ کا معمول۔ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ شہریوں کو صاف پانی اور سستی خوراک دستیاب ہے اور لوڈشیڈنگ کا کوئی تصوّر نہیں۔ تہران آکر اندازہ ہوتا ہے کہ حسن صرف یورپ کی میراث نہیںزنانہ حسن و جمال کی یہاںبہتات ہے۔ خواتین میں ناک اونچی کروانے کے لیے سرجری کرانے کا بہت رواج ہے ہمارے ہاںبھی ناک اونچی رکھنے کے لیے مختلف جتن کیے جاتے ہیںاور کبھی تو مخالف کی ناک توڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ سیکیورٹی کا نظام بہت سخت ہے خفیہ ایجنسیوں کا جال بہت موثّرہے، میڈیا مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں ہے۔
مُلّا۔کمیونسٹوں کیطرح مخالفت برداشت نہیں کرتا۔نہ سیاسی نہ مذہبی۔ مخالف سیاسی پارٹی کی کوئی گنجائش نہیںاور سُنّی مسلمانوں کو کہیں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں حالانکہ ان کی تعداد نو فیصد ہے، ملاّؤں کے ہاں فراخدلی کمیاب اور تنگ نظری کی فراوانی ہے۔میں بڑے جوش اور ولولے سے اسلامی انقلاب کے مظاہر دیکھنے آیا تھا مگرتلخ حقائق نے دل گرفتہ کردیا۔راقم ایک عالمگیر اسلامی انقلاب کی تلاش میں اس توقع کے ساتھ ایران آیا تھا کہ اسلامی ایران میں ایک مسلمان بھائی کو اس کے مسلمان بھائی سینے سے لگا ئیں گے لیکن ان کے لیے میری مسلمانی کافی نہیں تھی جب ہر جگہ مجھ سے فرقہ یا مسلک پوچھا جاتا تو بہت دکھ ہوتا۔ میں تو یہ امید لے کرآیا تھا کہ ہر طرف اسلامی بھائی چارے کے گلستان کھلے ہوںگے مگریہاں جگہ جگہ فرقہ واریت کے کانٹوں سے پالا پڑتا رہا جس سے قدموںکے ساتھ ساتھ دل بھی فگار ہوتا رہا۔
قائدِانقلاب آیت اﷲخمینی بلاشبہ بڑے فراخ دل تھے وہ صرف اسلامی انقلاب کا ذکر کرتے تھے مگر بعد میں فرقہ پرست ملّاؤں کا اثرورسوخ بڑھتا گیا۔ ایران کا کوئی عام باشندہ ہو یا دانشور سب اقبال ؒ لاہوری (علامہ اقبالؒ) سے آشنا اور ان کے عقیدتمند ہیں۔ سب اقبالؒ کا نام سنکر پلکیں جھکالیتے ہیںمگر اس کا وہ انتباہ اور وارننگ نہ جانے کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں کہ۔
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکرؓوعلیؓ ہوشیار باش
اے (موجودہ دور کے مسلمان)تو جو ظاہر اور مخفی کے فرق سے بے خبرہے چوکنا ہو جا،تو جو اس بحث میں الجھا ہو ا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ میں سے کس کا حق فائق تھا۔ ہوشیار ہوجا یعنی بے فائدہ قسم کی اور فرقہ پرستی کی بحثوں سے بچ کہ یہ تیری تباہی کا باعث ہیں ۔
(جاری ہے)