اس بجٹ سے کون بچے گا
ان دنوں سیاست کے بازار میں دھند چھائی ہوئی ہے مطلع صاف نہیں ہے اور سیاستدان بھی رمضان المبارک منا رہے ہیں
سیاست اور سیاستدانوں کے جھوٹے سچے تماشے دیکھتے عمر گزر گئی اور گزر رہی ہے لیکن ان تماشوں کی رونق ماند نہیں پڑ رہی۔ ہر روز ایک نیا جلوہ دکھائی دیتا ہے اس کا تازہ ترین نمونہ ایک سرکاری سیاستدان جناب پرویز رشید نے قوم کو دکھایا ہے وہ وزیر اطلاعات و نشریات ہیں اور اپنی وزارت کے جلوے دکھاتے رہتے ہیں کیونکہ یہ ان کی وزارت کا ایک شعبہ ہے کہ عوام کو رنگا رنگ جلوے دکھاتے رہیں۔
قوم نے دیکھا کہ وہ اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ کے گھٹنے چھو رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر رہے ہیں کہ ضرورت پڑی تو وہ اور زیادہ جھک کر شاہ صاحب کا اور زیادہ ادب کریں گے یعنی اب پاؤں کو بھی ہاتھ لگائیں گے۔ یہ ایک سیاسی تماشا ہے ورنہ دونوں حضرات کا یہ دوطرفہ ادب و احترام ایک سیاسی مرحلہ ہے جو اخباروں میں تصویر بن کر چھپا اور گزر گیا۔
ان دنوں سیاست کے بازار میں دھند چھائی ہوئی ہے مطلع صاف نہیں ہے اور سیاستدان بھی رمضان المبارک منا رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے سیاسی اعمال کی خرابیوں کو معاف کرنے کے لیے صرف ایک مہینہ خواہ وہ رمضان المبارک ہی کیوں نہ ہو کافی نہیں ہے درست کہ اس مہینے میں شیطان بند کر دیے جاتے ہیں مگر یہ کون سے شیطان ہوتے ہیں ہاں اگر یہ سیاسی شیطان ہیں تو ان دنوں سیاست پر جو افسردگی اور بے رونقی طاری ہے اس کی وجہ ان شیطانوں کی غیر حاضری ہو سکتی ہے اور یہ کون نہیں جانتا کہ یہ شیطان دونوں جہانوں کو گمراہ کرنے والے ہیں ان کی وجہ سے ہم جنت سے نکالے گئے اور اب تک جنت کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ دن رات عبادت کرتے ہیں رمضان کے مہینے میں خاص طور پر جنت کی تلاش کرتے ہیں کیونکہ اس مہینے کی عبادات کو جنت کا راستہ قرار دیا گیا ہے اور ہم اس راستے کو بنانے سنوارنے اور ہموار کرنے میں لگے اور جتے ہوتے ہیں لیکن شیطان کے خوف سے ہم پر ایک کپکپی سی طاری رہتی ہے اور شیطان سے نجات کی دعائیں دہراتے رہتے ہیں مگر شیطان کا خوف ختم نہیں ہوتا۔ نیکی کی راہ دکھانے والوں نے نصیحت کی ہے کہ شیطان سے نجات لازم ہے اور اس کے لیے دعائیں جاری رکھنی چاہئیں۔
ایک تو یہ شیطان ہے جسے ہماری مذہبی شناخت بھی حاصل ہے اور جس سے پناہ مانگنے کے لیے ہم دن رات دعائیں کرتے ہیں لیکن ہم بدقسمت اور نیکی سے محروم لوگوں نے خود بھی کئی شیطان پیدا کر لیے ہیں۔ ان میں 'آف شور' والے بھی شامل ہیں جن کی دولت اتنی بڑھ گئی ہے کہ زمین پر اسے مناسب جگہ نہیں مل سکتی چنانچہ اس نے وسیع و عریض سمندروں کا رخ کر لیا ہے اور سمندروں میں اس کے خزانوں کو آف شور کہا جاتا ہے یعنی ساحل سے ہٹ کر۔ دل تو میرا بھی بہت چاہتا ہے کہ میں بھی کسی آف شور سے پہچانا جاؤں اور بڑے لوگوں کی مجلسوں میں الگ ہو کر بیٹھوں لیکن مشکل یہ ہے کہ میں نے سمندر کو قریب سے ہاتھ لگا کر نہیں دیکھا۔
میں ایک پہاڑی علاقے کا رہنے والا ہوں جو سمندر سے میلوں دور ہے اور ہم لوگ سمندر کو کوئی عجوبہ سمجھ کر دیکھنے جاتے تھے۔ ایک بار میں بھی گیا تھا اور سمندر سے میری یہ پہلی ملاقات تھی مجھے ان لوگوں کی بہادری پر تعجب ہوا جو شلوار کے پانچے اٹھا کر سمندر کے ساحل پر چل پھر رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ میرے اندیشے کے مطابق کوئی ڈوب جاتا میں جلدی جلدی سمندر سے واپس آ گیا۔ کہاں زمین کی سطح سے اونچے پہاڑ اور کہاں زمین کو روندتے ہوئے سمندر ہم کمزور انسانوں کو ان خطروں سے دور ہی رہنا چاہیے اور ان دنوں تو ہم مطمئن ہیں کہ شیطان بند ہیں مگر کون سے شیطان۔
ہم سیاست کو ایک شیطانی کھیل سمجھتے ہیں اور اسے سیاستدانوں کے حوالے رکھتے ہیں جو کامیاب سیاست کے ذریعے عوام کو لوٹتے ہیں اور ناکام سیاست کے شکار ہو کر عوام سے لوٹی ہوئی دولت کو واپس کرنے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن دونوں صورتوں میں ان کا ہاتھ دولت پر ہوتا ہے۔ عجیب مگر پرانا تماشا ہے کہ سیاستدانوں کا پیشہ سب کو معلوم ہے مگر پھر بھی یہ سیاستدان ہمارے لیڈر ہوتے ہیں ان کی قیادت اور رہنمائی میں ہم لٹتے لٹاتے رہتے ہیں۔ یہ لوٹ مار کبھی تو اقتدار کے عام دنوں میں معمول کے مطابق جاری رہتی ہے اور کبھی بجٹ کے ذریعے وہ علی الاعلان ہمیں لوٹتے ہیں۔
بجٹ اعدادوشمار کا ایک کھیل ہوتا ہے جو میرے خیال میں اس وزیر کے سر سے بھی گزر جاتا ہے جو اسے اسمبلی میں پیش کرتا ہے۔ بجٹ وغیرہ کے اعدادوشمار کیا ہوتے ہیں ان کے بارے میں ایک خوش مزاج دانش ور نے کہا ہے کہ ایک جھوٹ ہوتا ہے ایک سفید جھوٹ ہوتا ہے اور ایک اعدادوشمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس سے فرق تو کچھ نہیں پڑتا مگر میں نے اپنی غربت میں اضافے کے لیے پنجاب کے بجٹ کی تقریر سن لی اور اس کی سزا اب شروع ہو چکی ہے جو میں سال بھر بھگتوں گا اور اپنے مہربان وزیراعلیٰ کا شکریہ ادا کروں گا۔ بات سیاستدانوں سے شروع ہوئی تھی مگر بیچ میں بجٹ آ گیا باقی کل سہی۔