وزارت خارجہ کی تنظیم نو
ہماری وزارت خارجہ کی ذمے داریاں تین حصوں میں تقسیم ہیں
کسی بھی ملک کی سلامتی، خودمختاری اور قوموں کی برادری میں اس کی عزت وتوقیر کا دار و مدار بڑی حد تک اس کی خارجہ پالیسی پر ہوتا ہے، لیکن ہمارے وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے، مگر تاحال اسے کوئی وزیر خارجہ ہی میسر نہیں آسکا۔ چنانچہ وزارت خارجہ کا قلم دان بھی وزیراعظم نے خود ہی سنبھالا ہوا ہے، جو بے چارے نہ جانے کب سے عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ کا بھاری بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ جس ملک کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہ ہو اس کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی، اس کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
ہماری وزارت خارجہ کی ذمے داریاں تین حصوں میں تقسیم ہیں۔ دو ایڈوائزرز اور تیسرے وزیراعظم بذات خود، جنھیں اپنی دیگر مصروفیات اور پے درپے غیر ملکی دوروں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ کوئی عجب نہیں کہ غیر ملکی دوروں کے جوازکی خاطر ہی موصوف نے وزارت خارجہ کا اضافی قلم دان بھی اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہو۔ ورنہ تو ہمارے خیال میں میاں صاحب میں وزارت خارجہ کے حوالے سے نہ تو ذوالفقار علی بھٹو والی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی بھٹوکی بیٹی بے نظیر بھٹو جیسی لیاقت و قابلیت۔ چہ نسبت خاک را یا عالم پاک۔
رہی بات مشیران وزارت خارجہ کی تو ان کی Competence سے قطع نظر ذمے داریوں کا منقسم ہوجانا مجموعی طور پر مناسب اور مفید نہیں، کیونکہ Divided Responsibility is Nobody's Responsibility. ظاہر ہے کہ وزارت خارجہ جیسی نازک اور حساس وزارت اس قسم کے نظام کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں نہ تو کوئی ربط وضبط اور نہ ہی اس کی کوئی سمت متعین نظر آتی ہے۔کیفیت یہ ہے کہ بقول شاعر:
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
گزشتہ چند ماہ کے دوران پیش آنے والے واقعات نے ہماری خارجہ پالیسی کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے جس میں ملا اختر منصور کی پاکستان کی حدود میں امریکی ڈرون حملے سے ہلاکت کا تازہ ترین واقعہ سرفہرست ہے۔ اس انتہائی سنگین واقعے پر ردعمل ظاہر کرنے میں ہمارے دفتر خارجہ نے جو غیر معمولی تاخیر کی اس سے اس کی کارکردگی کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
ہمارا بے چارہ دفتر خارجہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر اس ہلاکت کی تصدیق کے باوجود ابھی ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہا تھا۔ اس کنفیوژن کا سارا ملبہ بے چارے دفتر خارجہ پر گرا دینا اس کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی۔ اس کی اصل اور تمام تر ذمے داری ہماری وزارت خارجہ پر عائد ہوتی ہے جس کی موجودہ حالت A ship without a rudder جیسی ہے۔
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کے لیے اس کی وزارت خارجہ کی ساخت کا مستحکم اور فعال ہونا ازبس ضروری ہے۔ پھر اس کے علاوہ ملک کے اندرونی سیاسی ڈھانچے کا درست ہونا بھی اتنا ہی اہم اور لازمی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا سیاسی نظام ایک عرصے سے جس سیاسی انتشار اور خلفشار کا شکار ہے اس کا عکس ہماری خارجہ پالیسی میں نظر آنا ایک فطری امر ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے انداز حکمرانی کی ایک خامی یہ ہے کہ اس میں ان کی ذات کا عمل دخل بہت ہے اور اسی لیے انھوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان مسلسل اپنے پاس ہی میں رکھا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ شاید ان کا ارادہ یہ ذمے داری اپنی صاحبزادی مریم نواز کو سونپنے کا ہے جنھیں اس کام کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ قیاس آرائی درست ہے تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزارت خارجہ کے دونوں مشیروں کی حیثیت کیا ہوسکتی ہے۔
سابقہ حکومت میں لاکھ خامیاں سہی لیکن اس کے دور میں وزارت خارجہ لاوارث نہیں تھی اور اس کے دونوں وزرائے خارجہ شاہ محمود قریشی اور حنا ربانی کھر کی اہلیت اور موزونیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وطن عزیز کی وزارت خارجہ کی سب سے بڑی کمزوری اور ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔
حالت یہ ہے کہ گزشتہ تین سال کے عرصے میں معمول کے سفارتی اجلاس بھی منعقد نہیں کیے جاسکے جب کہ دنیا کے لمحہ بہ لمحہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ہر آن چوکس اور تیار رہیں۔ اس وقت ملک کو سنگین ترین Geo Political چیلنجوں کا سامنا ہے مگر ہمارے وزیر اعظم جن کے پاس وزارت خارجہ کا اضافی قلمدان بھی ہے اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ وہ ان چیلنجوں کا مقابلہ اپنے پے در پے غیر ملکی دوروں سے کرسکتے ہیں۔ ایسے بے شمار اور بے مقصد دوروں کا کیا فائدہ جو نتیجہ خیز ہی نہ ہوں۔ اس طرح کے دورے محض سیر و تفریح ہی کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے لیڈروں سمیت وزیراعظم میاں نواز شریف سے زیادہ غیر ملکی دورے حال ہی میں شاید ہی کسی اور سربراہ حکومت نے کیے ہوں۔
ہماری موجودہ حکومت کے کنفیوژن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت کے واقعے پر ہمارا دفتر خارجہ تو ابہام کا شکار تھا جب کہ ہمارے ہوم منسٹر چوہدری نثار علی خان نے اس واقعے پر امریکا کو آڑے ہاتھوں لے لیا جب کہ یہ معاملہ ان کی وزارت کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں تھا۔ معلوم نہیں انھوں نے کس کی ہدایت پر اس ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ اس سے قبل بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما کی پھانسی کے واقعے پر بھی انھوں نے اسی طرح اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا جب کہ یہ کام ہماری وزارت خارجہ کے کرنے کا تھا۔
وزیر خارجہ کے نہ ہونے سے ہماری وزارت خارجہ کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس کا فائدہ ہمارے حریف خوب اٹھا رہے ہیں جن میں ہمارا ازلی دشمن بھارت سرفہرست ہے جو ہمیں اس خطے میں سب سے کاٹنے کی کوشش میں ہے اور دوسری جانب ہمارے روایتی دوستوں برادر اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ امریکا سے بھی ہمارے تعلقات خراب کرنے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اور ہمارے پڑوسی ممالک افغانستان اور ایران کو تو اس نے اپنے فیور میں کر ہی لیا ہے۔ اب لے دے کر صرف چین ہی باقی رہ گیا ہے جس کے ساتھ ہمارے تعلقات گہرے اور مستحکم ہیں مگر بھارت اس کی بھی تاک میں ہے۔
حالات اور واقعات کا تقاضا ہے کہ وزارت خارجہ کی ازسر نو تنظیم کی جائے اور ایک باقاعدہ کل وقتی وزیر خارجہ کا تقرر بلاتاخیر کیا جائے کیونکہ اس معاملے میں مزید تساہل کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ وقت کی پکار یہی ہے کہ:
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھرکبھی
دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ہماری وزارت خارجہ کی ذمے داریاں تین حصوں میں تقسیم ہیں۔ دو ایڈوائزرز اور تیسرے وزیراعظم بذات خود، جنھیں اپنی دیگر مصروفیات اور پے درپے غیر ملکی دوروں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ کوئی عجب نہیں کہ غیر ملکی دوروں کے جوازکی خاطر ہی موصوف نے وزارت خارجہ کا اضافی قلم دان بھی اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہو۔ ورنہ تو ہمارے خیال میں میاں صاحب میں وزارت خارجہ کے حوالے سے نہ تو ذوالفقار علی بھٹو والی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی بھٹوکی بیٹی بے نظیر بھٹو جیسی لیاقت و قابلیت۔ چہ نسبت خاک را یا عالم پاک۔
رہی بات مشیران وزارت خارجہ کی تو ان کی Competence سے قطع نظر ذمے داریوں کا منقسم ہوجانا مجموعی طور پر مناسب اور مفید نہیں، کیونکہ Divided Responsibility is Nobody's Responsibility. ظاہر ہے کہ وزارت خارجہ جیسی نازک اور حساس وزارت اس قسم کے نظام کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں نہ تو کوئی ربط وضبط اور نہ ہی اس کی کوئی سمت متعین نظر آتی ہے۔کیفیت یہ ہے کہ بقول شاعر:
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
گزشتہ چند ماہ کے دوران پیش آنے والے واقعات نے ہماری خارجہ پالیسی کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے جس میں ملا اختر منصور کی پاکستان کی حدود میں امریکی ڈرون حملے سے ہلاکت کا تازہ ترین واقعہ سرفہرست ہے۔ اس انتہائی سنگین واقعے پر ردعمل ظاہر کرنے میں ہمارے دفتر خارجہ نے جو غیر معمولی تاخیر کی اس سے اس کی کارکردگی کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
ہمارا بے چارہ دفتر خارجہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر اس ہلاکت کی تصدیق کے باوجود ابھی ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہا تھا۔ اس کنفیوژن کا سارا ملبہ بے چارے دفتر خارجہ پر گرا دینا اس کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی۔ اس کی اصل اور تمام تر ذمے داری ہماری وزارت خارجہ پر عائد ہوتی ہے جس کی موجودہ حالت A ship without a rudder جیسی ہے۔
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کے لیے اس کی وزارت خارجہ کی ساخت کا مستحکم اور فعال ہونا ازبس ضروری ہے۔ پھر اس کے علاوہ ملک کے اندرونی سیاسی ڈھانچے کا درست ہونا بھی اتنا ہی اہم اور لازمی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا سیاسی نظام ایک عرصے سے جس سیاسی انتشار اور خلفشار کا شکار ہے اس کا عکس ہماری خارجہ پالیسی میں نظر آنا ایک فطری امر ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے انداز حکمرانی کی ایک خامی یہ ہے کہ اس میں ان کی ذات کا عمل دخل بہت ہے اور اسی لیے انھوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان مسلسل اپنے پاس ہی میں رکھا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ شاید ان کا ارادہ یہ ذمے داری اپنی صاحبزادی مریم نواز کو سونپنے کا ہے جنھیں اس کام کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ قیاس آرائی درست ہے تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزارت خارجہ کے دونوں مشیروں کی حیثیت کیا ہوسکتی ہے۔
سابقہ حکومت میں لاکھ خامیاں سہی لیکن اس کے دور میں وزارت خارجہ لاوارث نہیں تھی اور اس کے دونوں وزرائے خارجہ شاہ محمود قریشی اور حنا ربانی کھر کی اہلیت اور موزونیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وطن عزیز کی وزارت خارجہ کی سب سے بڑی کمزوری اور ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔
حالت یہ ہے کہ گزشتہ تین سال کے عرصے میں معمول کے سفارتی اجلاس بھی منعقد نہیں کیے جاسکے جب کہ دنیا کے لمحہ بہ لمحہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ہر آن چوکس اور تیار رہیں۔ اس وقت ملک کو سنگین ترین Geo Political چیلنجوں کا سامنا ہے مگر ہمارے وزیر اعظم جن کے پاس وزارت خارجہ کا اضافی قلمدان بھی ہے اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ وہ ان چیلنجوں کا مقابلہ اپنے پے در پے غیر ملکی دوروں سے کرسکتے ہیں۔ ایسے بے شمار اور بے مقصد دوروں کا کیا فائدہ جو نتیجہ خیز ہی نہ ہوں۔ اس طرح کے دورے محض سیر و تفریح ہی کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے لیڈروں سمیت وزیراعظم میاں نواز شریف سے زیادہ غیر ملکی دورے حال ہی میں شاید ہی کسی اور سربراہ حکومت نے کیے ہوں۔
ہماری موجودہ حکومت کے کنفیوژن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت کے واقعے پر ہمارا دفتر خارجہ تو ابہام کا شکار تھا جب کہ ہمارے ہوم منسٹر چوہدری نثار علی خان نے اس واقعے پر امریکا کو آڑے ہاتھوں لے لیا جب کہ یہ معاملہ ان کی وزارت کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں تھا۔ معلوم نہیں انھوں نے کس کی ہدایت پر اس ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ اس سے قبل بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما کی پھانسی کے واقعے پر بھی انھوں نے اسی طرح اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا جب کہ یہ کام ہماری وزارت خارجہ کے کرنے کا تھا۔
وزیر خارجہ کے نہ ہونے سے ہماری وزارت خارجہ کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس کا فائدہ ہمارے حریف خوب اٹھا رہے ہیں جن میں ہمارا ازلی دشمن بھارت سرفہرست ہے جو ہمیں اس خطے میں سب سے کاٹنے کی کوشش میں ہے اور دوسری جانب ہمارے روایتی دوستوں برادر اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ امریکا سے بھی ہمارے تعلقات خراب کرنے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اور ہمارے پڑوسی ممالک افغانستان اور ایران کو تو اس نے اپنے فیور میں کر ہی لیا ہے۔ اب لے دے کر صرف چین ہی باقی رہ گیا ہے جس کے ساتھ ہمارے تعلقات گہرے اور مستحکم ہیں مگر بھارت اس کی بھی تاک میں ہے۔
حالات اور واقعات کا تقاضا ہے کہ وزارت خارجہ کی ازسر نو تنظیم کی جائے اور ایک باقاعدہ کل وقتی وزیر خارجہ کا تقرر بلاتاخیر کیا جائے کیونکہ اس معاملے میں مزید تساہل کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ وقت کی پکار یہی ہے کہ:
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھرکبھی
دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا