پچھتاوا

امریکی کانگریس میں ہزاروں انسانوں کے قاتل مودی کی بے تحاشہ پذیرائی نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے


عثمان دموہی June 15, 2016
[email protected]

امریکی کانگریس میں ہزاروں انسانوں کے قاتل مودی کی بے تحاشہ پذیرائی نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے مگر امریکیوں کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ وہ تو خود لاکھوں انسانوں کے قاتل ہیں۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کی تلخ یادیں ابھی بھی تازہ ہیں۔ صدر اوباما اپنے حالیہ دورہ جاپان میں لاکھوں مرحومین کی یادگار پر تو ضرور گئے مگر معافی نہ مانگی، یہ امریکی قوم کے تکبر اور بے حسی کا واضح ثبوت ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ متکبر قومیں زیادہ دیر تک حکمرانی نہیں کرتیں۔ کیا امریکیوں کو نہیں معلوم نہیں کہ مودی نے گجرات میں وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں مسلمانوں پر وہ ظلم ڈھائے کہ جن کی موجودہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ گجرات کے ایک سابق پولیس افسر سنجیو بھٹ نے اقبال جرم کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ نریندر مودی کی جانب سے گجرات پولیس کو کھلا حکم تھا کہ وہ بلوائیوں کی پوری مدد کریں اور مسلمانوں کو ایسا مزہ چکھائیں کہ وہ بھارت چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔

بھارتی کانگریس پارٹی کے ایک ممبر لوک سبھا عرفان جعفری کی زندہ بچ جانے والی بیٹی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے خاندان کے تمام افراد کو مکان جلا کر ہلاک کر دیا گیا، والد کے ممبر لوک سبھا ہونے کا بھی لحاظ نہ کیا گیا۔ وہ تین دن گجرات کے مسلمانوں کے لیے قیامت کے دن تھے۔ یہودیوں پر ہونے والے ہٹلر کے مظالم پر تو ضرور امریکی آج بھی افسوس زدہ ہیں اور انھوں نے اس ظلم کی وجہ سے نازیوں کو ابھی تک معاف نہیں کیا ہے لیکن اگر مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو وہ ان کے لیے قابل افسوس نہیں ہے امریکیوں کی اسی ذہنیت کے باعث اسرائیلی حکومت فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ ادھر مودی کشمیریوں پر اپنی سات لاکھ فوج کے ذریعے ظلم کی انتہا کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کی آزادی کو مستقل غلامی میں بدلنے کے لیے ریاست جموں کشمیرکو زبردستی بھارت میں ضم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی حکومت ویسے تو دنیا کی محکوم قوموں کو آزادی دلانے کی علمبردار بنی ہوئی ہے مگر کشمیریوں اور فلسطینیوں کی آزادی کے سلسلے میں خاموش ہے۔

پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک امریکا کی خدمت کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس نے امریکا کی خاطر خود کو تباہ و برباد کر لیا ہے حد تو یہ ہے کہ امریکیوں کی دلجوئی کے لیے روس جیسی سپر پاور تک سے ٹکر لی اور اسے نہ صرف افغانستان سے باہر کر دیا بلکہ اس کے حصے بخرے بھی ہو گئے۔ امریکا پر پاکستان کے اتنے احسانات ہیں کہ اگر یہ احسانات کسی اور قوم کے ساتھ کیے جاتے تو وہ پاکستان کے لیے ہر وقت اپنی پلکیں بچھائے رکھتی اور پاکستان کی ہر جائز خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی، مگر یہاں تو بے حسی کا عالم ہے۔ افغانستان کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو یکسر بھلا دیا گیا اور اب بے رخی کا یہ حال ہے کہ پاکستان پر دہشت گردوں کی ہمت افزائی کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

پاکستان پر غیر ریاستی عناصر کی جانب سے بھارت میں دہشت گردی کرنے کا الزام ضرور عائد کیا جا رہا ہے مگر بھارت کے تو سرکاری دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث پکڑے گئے ہیں۔ مودی کے حالیہ دورہ امریکا میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں ممبئی اور پٹھان کوٹ میں لشکر طیبہ کے ملوث ہونے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پاکستان پر ضرور زور دیا گیا ہے مگر بھارتی را کے ایجنٹ کلبھوشن کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت کی پاکستان سے دوستی صرف اپنے مطلب کی حد تک ہے۔

یہ بات مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہی ہے مگر اب کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے مرتب کرنے کا وقت آ گیا ہے؟ لگتا ہے اب واقعی وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں کا صحیح ادراک کرکے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دیں۔ اب تک ہماری خارجہ پالیسی کا محور امریکا ہی رہا ہے مگر اب لگتا ہے کہ یہ سلسلہ مزید آگے نہیں بڑھ سکتا۔ افسوس کی بات یہ کہ ہم نے امریکا کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا مگر امریکا نے ہماری ہر آزمائش کی گھڑی میں ہم سے بے رخی برتی ہے خواہ وہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ ہو یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ وہ ایسے کڑے وقت میں ہمارے احسانات کو فراموش کر کے ہمارے دشمن کا دم بھرتا رہا ہے۔ وہ ہمارے ایٹم بم بنانے سے بھی خوش نہیں ہے البتہ بھارت کا طرف دار ہے۔

اب اس وقت پھر پاکستان ایک سخت آزمائش سے گزر رہا ہے اسے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے لیے امریکا کی آشیرباد درکار ہے مگر افسوس کہ وہ پھر اپنی روایتی بے رخی دکھاتے ہوئے ہمارے بجائے ہمارے دشمن کو اس گروپ کا ممبر بنانے کے لیے سرگرم ہے۔ چین بھارت کے اس گروپ کا ممبر بننے کے حق میں نہیں ہے کیوں کہ اسے بھارت کے قول و فعل پر اعتبار نہیں ہے۔ مودی اگرچہ اپنے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے وافر مقدار میں جوہری ایندھن حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر نہ صرف چین بلکہ اس گروپ کے اکثر ممبران کو خدشہ ہے کہ وہ جوہری طاقت کو بڑھانے کے لیے اس گروپ کی ممبرشپ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بدقسمتی سے امریکا بھارت سے منسوب اپنے مقاصد کے تحت ان کی پرزورحمایت کر رہا ہے۔

اوباما کی ہدایت پر وزیر خارجہ جان کیری نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی تنظیم کو ایک خط بھیجا ہے جس میں بھارت کو ممبر بنانے کے لیے پرزور سفارش کی گئی ہے۔ اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہ وقت پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے اگر کسی طرح بھارت اس گروپ کا پہلے ممبر بن گیا تو وہ اپنے ویٹو کو استعمال کر کے پاکستان کو کبھی بھی اس گروپ کا ممبر نہیں بننے دے گا۔ چنانچہ پاکستانی وزارت خارجہ اس وقت حرکت میں آ گئی ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس سلسلے میں گروپ کے تمام ممبران سے رابطہ کیا ہے اور ان سے پاکستان کی حمایت کرنے کی درخواست کی ہے۔ ترکی، آئرلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقا سے پہلے ہی بھارتی مذموم عزائم کو بھانپ کر اس کی رکنیت کی مخالفت کر رہے ہیں۔

ان تمام ممالک نے پاکستان کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔چین ویسے تو بھارت کی ممبر شپ کے خلاف ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت بھارت کی حمایت کر سکتا ہے اگر پاکستان کو بھی اس گروپ کا ممبر بنایا جائے۔ لگتا ہے چین اور دیگر دوست ممالک کی حمایت کی وجہ سے بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی اس گروپ کا ممبر بنا لیا جائے گا۔ یہ معاملہ تو کسی طرح نمٹ ہی جائے گا مگر اب ثابت ہو چکا ہے کہ امریکا ہمارا کبھی بھی مستقل خیر خواہ نہیں بن سکتا ۔

اوباما نے کمال ہوشیاری سے مودی سے بھارت کی دفاعی طاقت اور بھارتی اسٹرٹیجک ٹھکانوں کو استعمال کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کرائے۔ اس طرح اب بھارت ہمیشہ کے لیے امریکا کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ دراصل امریکا چین سے خود لڑنے کے بجائے بھارت کو آگے کرنا چاہتا ہے مگر اس کا مطلب بھارت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ بھارت 1962ء کی جنگ میں چین سے ہار کر پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکا ہے بہرحال اس وقت بھارت امریکی چال میں پھنس چکا ہے مگر مودی بہت خوش ہیں کہ انھوں نے اوباما کو اپنا دوست بنا کر امریکا کو فتح کر لیا ہے۔ اب صرف چھ ماہ بعد اوباما کی رخصتی پکی ہے ان کے بعد ان کے وعدوں کا کیا بنے گا؟ بہرحال خوش فہمی میں مبتلا مودی اپنی خارجہ پالیسی پر پھولے نہیں سما رہے ہیں مگر ملک کے اندر عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ان کے خلاف جو لاوا پک رہا ہے وہ اس سے قطعی بے خبر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔