شہید اللہ بخش سومرو آخری حصہ

انھوں نے اللہ بخش سے ملاقات کی تھی اور کہا کہ وہ پہلے وزیراعظم بنیں۔

FAISALABAD:
1940ء میں جب اللہ بخش سومرو کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تو ان کی جگہ میربندے علی کو وزیر اعظم بنایا گیا، 1941ء میں تحریک عدم اعتماد کی زد میر بندے علی بھی آ گئے جس میں جی ایم سید کا بڑا رول تھا۔ یہ رول اس لیے ادا کیا کہ حکومت درست خطوط پر قائم نہیں تھی، جی ایم سید نے محسوس کیا کہ صرف اللہ بخش سومرو ہی سندھ حکومت چلا سکتے ہیں کیونکہ ان میں انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ سچائی اور ایمانداری بھی ہے حالانکہ جی ایم سید اس وقت بندے علی کی کابینہ میں وزیرتعلیم تھے۔

انھوں نے اللہ بخش سے ملاقات کی تھی اور کہا کہ وہ پہلے وزیراعظم بنیں۔ اس کے بعد انھوں نے بندے علی کی حکومت ختم کرنے کا ماحول بنایا۔ جی ایم سید نے اللہ بخش سے علیحدگی اس لیے کی تھی کہ اللہ بخش نے سکھر بیراج بنوانے کے لیے جو رقم انگریز سرکار سے قرض لی تھی وہ 77 سال میں ادا کرنی تھی مگر انگریز سرکار نے کہا کہ اگر یہ رقم انھیں جلد ادا کی گئی تو اس پر انھیں کافی رقم معاف کی جائے گی۔ اس کے لیے اللہ بخش نے یہ رقم ادا کرنے کے لیے ڈھل (ٹیکس) لگایا تھا۔ اللہ بخش سومرو سندھ کے پرائم منسٹر ہوتے ہوئے بھی گھر میں اپنا کام خود کرتے تھے۔

ایک مرتبہ ان کے پاس کوئی مہمان آیا اور صبح کو ان سے کہا کہ آپ کا نوکر کیسا ہے اس نے اسے نہانے کے لیے گرم پانی نہیں دیا جس پر انھوں نے کیا کل انشا اللہ آپ کو گرم پانی ملے گا۔ دوسری صبح مہمان کے دروازے پر دستک دی اور مہمان نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ اللہ بخش خود گرم پانی کی بالٹی لے کر کھڑے تھے اور کہا کہ آپ کا گرم پانی حاضر ہے۔

پرائم منسٹر بننے سے پہلے وہ اپنے گھر کے باہر ایک لکڑی کے تخت پر بیٹھ کر لوگوں سے ملتے تھے اور ان کے مسائل سنتے تھے یہ سلسلہ انھوں نے اقتدار کے دور میں بھی جاری رکھا۔ اس شخص کی سادگی دیکھیں کہ وہ اپنی سرکاری گاڑی پر بھی جھنڈا استعمال نہیں کرتے، کوئی Reception قبول نہیں کرتے، اپنے استقبال کے لیے کسی بھی آدمی کو آنے کو منع نہیں کرتے، سرکاری گارڈ استعمال نہیں کرتے، ٹرین میں سفر کرتے خاص طور پر جب شکارپور آتے تو اپنے پرانے ٹانگے والے کو بلواتے اور اسی کے ٹانگے پر بیٹھتے اور اسے پیسے دیتے۔ انھوں نہ صرف اپنی کابینہ کے وزرا کی تنخواہ میں کٹوتی کی بلکہ اپنی تنخواہ بھی 15 سو سے گھٹا کر 500 روپے کر دی۔ یہ بڑی بات ہے کہ وہ 9 سال بمبئی لیجسلیٹو کونسل کے ممبر رہے اور ایسے کارنامے انجام دیے جس سے براہ راست عوام کو فائدہ ملا جس کے عوض انگریز سرکار نے انھیں خان بہادر اور آرڈر آف برٹش امپائر کے خطابات دیے۔


انھوں نے سندھ کے حقوق کے لیے انگریز سرکار کے ہر اس کے حکم کو ٹھکرایا جس میں سندھ کے لوگوں کو نقصان تھا۔ وہ جب بھی شکار پور آتے تو اپنے دوستوں کے ساتھ ٹانگے پر بیٹھ کر شہرکی سیرکرتے۔ جب 1942ء میں سپر فلڈ آیا تو اس نے شہر شکارپور کا رخ کیا جس کی وجہ سے لوگوں میں بڑا خوف وہراس پیدا ہو گیا مگر اللہ بخش نے حکم دیا کہ سیلاب کا رخ کٹ دیکر اس کی زرخیز زمین کی طرف کیا جائے۔ جی ایم سید نے اپنی کتاب میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ بخش سندھ کا دوسرا دو دو سومرو ہے جس کی بہادری اور جرأت قابل تعریف ہے۔ انھوں نے گورنر سندھ برٹش گورنمنٹ اور وائسرائے کو ایک خط لکھ کر یہ احتجاج کیا تھا کہ انھوں نے اپنی تقریر میں ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کی توہین کی ہے، اس بات نے انگریز سرکار کو بیحد ناراض کر دیا اور سرکار نے اللہ بخش کو کہا کہ وہ معافی مانگیں یا پھر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔

اللہ بخش نے بجائے استعفیٰ دینے کے سرکار کی طرف سے دیے ہوئے ٹائٹل واپس کیے جس نے برٹش حکومت کو آگ بگولا کر دیا۔ سرکار نے اللہ بخش کو اس کے عہدے سے دس اکتوبر 1942 کو فارغ کر دیا اس کی جگہ پھر دوبارہ سرغلام حسین ہدایت اللہ کو سندھ کا پرائم منسٹر بنایا گیا جس کا اقتدار پاکستان بننے تک جاری رہا۔اللہ بخش کی حکومت کے دوسرے Tenure میں کچھ ایسے واقعات ہوئے جس کی وجہ سے ان کی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس میں مسجد، منزل گاہ سکھر کا مسئلہ، پیر صبغت اللہ شاہ کا سندھ کی حدود سے گرفتار ہونا جب کہ اس وقت وہ سندھ سے باہر تھے اور پیرصاحب کوگورنر کے احکامات پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ Quit انڈیا کی تحریک، 1942ء کا سپر فلڈ، دوسری عالمگیر جنگ کے اثرات اور ریشمی رومال کی تحریک شامل ہیں۔اپنے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنے شہر شکار پور چلے گئے جہاں پر سماجی کاموں میں لگ گئے۔

ایک دن انھیں یہ معلوم ہوا کہ شہر کے نواحی علاقے میں ایک ایسا نقلی پیر آیا ہے جو خاص طور پر عورتوں کو غلط اور نقلی تعویذ دے کر لوٹ رہا ہے جس کے لیے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ٹانگے پر بیٹھ کر اس طرف نکل پڑے تا کہ نقلی پیر کو سمجھایا جائے کہ وہ ان سے کچھ پیسے لے کر کوئی اور کاروبار کرے مگر ان کی آمد کا سن کر وہ اپنے آستانے سے کہیں بھاگ گیا۔ جب وہ ٹانگے پر واپس آ رہے تھے کہ کچھ لوگوں نے ان پر پستول کے فائر کر کے شہید کر دیا۔ وہ 14 مئی 1943ء کو شہید ہو گئے۔ اس سے پہلے بھی سومرو صاحب پر خونی حملے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ وہ شکار پور کی مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کچھ لوگ انھیں مارنے آئے تھے مگر موقعہ نہ ملنے کی وجہ سے واپس چلے گئے دوسری مرتبہ جب وہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے اور جب ٹرین کسی ریلوے اسٹیشن پر رکی تو ایک شخص نے ان پر پسٹل سے فائر کیا مگر دوسری کھڑکی سے گولی نکل گئی اور حملہ کرنیوالا بھاگ گیا۔

اللہ بخش کتنے بڑے دل کے مالک تھے کہ ایک دن وہی حملہ آور ان کے پاس آیا کہ انھیں دو سو روپے کی ضرورت ہے تو انھوں نے یہ رقم اپنی بیگم سے لے کر اسے دے دی۔ جب بیگم نے پوچھا کہ کس کو رقم دی ہے تو سومرو نے کہا کہ کوئی ضرورت مند تھا جب کہ سومرو اس حملہ آور کو پہچان چکے تھے مگر انھوں نے بتایا نہیں اور اس کی مدد کی۔ اس دور میں ہم ایسے لیڈر کہاں سے لائیں۔سومرو صاحب کے تین بیٹے تھے جن میں سے ایک رحیم بخش سومرو جو بالکل اپنے والد کے نقش قدم پر چلے۔

وہ وزیر بھی بنے اور ایک مرتبہ عبوری حکومت میں وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے دوسرے بیٹے عبدالصمد تھے جن کا انتقال ہو چکا ہے، تیسرا بیٹا حیدر بخش تھا۔ اب بھی اس شخصیت کے پچھلی نسل میں کچھ لوگ ہیں جو بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر اپنے شہر سے دور کراچی کو اپنا مسکن بنا کر وہ عوام سے دور ہوئے ہیں۔ مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے جب یہ دیکھتا ہوں کہ ہم اپنے ایسے لوگوں کو بھلا دیتے ہیں جن لوگوں نے سندھ کی عزت میں اضافہ کیا۔ صرف ایک شخص خادم حسین سومرو ہے جو سال میں دو مرتبہ کسی نہ کسی کی مدد سے اللہ بخش سومرو کو یاد کرتے رہتے ہیں سندھ کی موجودہ صورتحال میں ہمیں اللہ بخش سومرو جیسے لیڈرکی سخت ضرورت ہے جو سندھ کے عوام کی بے لوث خدمت کر سکے۔
Load Next Story