ججز کا تقرر صدر کا احترام کرتے ہیں بہتر ہوگا خود حل نکالیں سپریم کورٹ

کیا جوڈیشل کمیشن اجلاس آئینی تھا؟صدر تقرر روک سکتے تھے؟ آئین کے سوا اورکیا حل ہے؟عدالت کے4سوال


News Agencies/Numainda Express November 23, 2012
صدر کے پاس نامنظور کرنیکا اختیار نہیں،انھیں نئے حقائق بتائے جائیں، عدالت، کمیشن نے صدر کو درست حقائق نہیں بتائے، اٹارنی جنرل. فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تقرری کے کیس میں اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ صدر کو نئے حقائق سے آگاہ کر کے مسئلہ حل کیا جائے۔

عدالت نے قرار دیاکہ صدر ریاست کے سربراہ اور قابل احترام ہیں، اس معاملے کا حل انھیں خود نکالنا چاہیے، یہی بہتر طریقہ کار ہوگا، جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد صدر کے پاس سفارشات کی منظوری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ 4رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل موجود نہیں تھے جس پر عدالت نے انھیں فوری طلب کرلیا، کچھ دیر بعد اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور کہا کہ آج مقامی چھٹی تھی ،عدالت کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے، یہ روایات کیخلاف ہے،جسٹس خلجی نے کہا مقامی چھٹی ہو تو کیا عدالتیں بند ہوں گی؟ ہم نے پہلے بھی ایسا نہیں کیا۔

عدالت نے 4سوالات اٹھائے کہ کیا جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آئینی تھا؟سفارشات کی حیثیت کیا تھی؟ تمام پراسیس مکمل ہونے کے بعد جب وزیر اعظم نے معاملہ تقرری کیلیے صدر کے پاس بھیجا تو اس کے بعد کیا صدر تقرری روک سکتے تھے؟آئی این پی کے مطابق چوتھا سوال یہ تھا کہ معاملے کا آئینی حل نہیں تو کیا کوئی اور حل موجود ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے یہ سوالات دے کر کیس کو بہت آسان بنا دیا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آئین کے مطابق تھا، کمیشن نے کثرت رائے سے جسٹس شوکت عزیز اور جسٹس نورالحق کی تقرری کی سفارش کی کیونکہ ایک رکن موجود نہیں تھا، پارلیمانی کمیٹی نے متفقہ منظوری دی۔ اٹارنی جنرل نے کمیشن کی کارروائی کی تفصیلات پر سوال اٹھایا اور کہا کہ انھوں نے تقرر سے اختلاف کیا تھا لیکن سوال یہ ہے انھیں یہ تفصیلات کیسے پتہ چلیں۔ عدالت نے اس طرز عمل پر اعتراض کیا اور کہا کہ اٹارنی جنرل اندر کی کارروائی خفٖیہ رکھیں کہ کس نے کیا کیا۔

اکرم شیخ نے کہا کہ انھیں تمام تفصیلات سے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نے آگاہ کیا ، اٹارنی جنرل نے کہا اجلاس میں جسٹس انور کاسی نے سینئر جج کی حثییت سے شرکت کی جبکہ سینئر جسٹس ریاض ہیں۔ اجلاس غیر آئینی تھا۔ کیس اگلے ہفتے سنا جائے، عدالت نے جب سماعت جاری رکھنے پر اصرار کیاتو اٹارنی جنرل نے کہا اتنی جلدی کیوں ہے؟ جسٹس کھوسہ نے کہا عدالت آج فیصلہ نہیں کرے گی۔ بیشک فیصلہ ایک ماہ بعد آجائے لیکن تفصیلات تو سامنے ہونی چاہیئں۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ توقع ہے کہ اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کرینگے، یہ توقع اٹارنی جنرل سے ہے، عرفان قادر سے نہیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ ریاض احمد خان سینئر تھے پھر بھی ان کی عدم موجودگی سے کمیشن کی کارروائی غیر آئینی نہیں ہوگی۔ روسٹر کے مطا بق انور کاسی سنیئر جج تھے۔ این این آئی کے مطابق عدالت نے واضح کیا کہ صدر کو جوڈیشل کمیشن کی سفارشات رد کرنے کا اختیار نہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران جسٹس ریاض احمد حج پر تھے، عدالت نے آبزرویشن دی کہ پھر معاملہ ختم ہوا، جسٹس کھوسہ نے کہا سب سے سینئر جج آئینی عہدہ نہیں، سنیارٹی میں جو جج موجود ہوگا وہ ہی سینئرترین ہوگا، نئے حقائق کی روشنی میں سنیارٹی کا معاملہ غیر متعلق ہو گیا۔

آئی این پی کے مطابق عدالت نے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو معاملے کی تصدیق کرنے کی ہدایت کی۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ اگر ایسی بات تھی تو شاید صدر کو نہیں بتائی گئی۔ این این آئی کے مطابق جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ صدر کے علم میں لائیں کہ جسٹس ریاض 22 اکتوبر کو ملک میں نہیں تھے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے صدر کو درست حقائق نہیں بتائے۔ عدالت نے جسٹس انور کاسی اور جسٹس ریاض کی سنیارٹی کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ سماعت آج پھر ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں