ہم کدھر جارہے ہیں
جب دنیا میں ذاتی ملکیت کا تصور شروع ہوا ، زر اور زمین کے ساتھ زن کو بھی ملکیت سمجھ لیا گیا
جب دنیا میں ذاتی ملکیت کا تصور شروع ہوا ، زر اور زمین کے ساتھ زن کو بھی ملکیت سمجھ لیا گیا، مگر جب علم کو فروغ حاصل ہوا اور جاگیردارانہ معاشرت کی جگہ صنعتی معاشرت نے لینا شروع کی، تو ماضی کے بہت ابہام (Myths)ٹوٹنے لگے، لیکن وہ معاشرے جو اپنے فرسودہ پیداواری نظام اور جہل آمادگی کی وجہ سے فکری ارتقائی عمل میں دنیا کے ہم قدم نہیں بن سکے، اکیسویں صدی میں بھی قبائلیت پر مبنی فرسودہ رسومات کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ ان معاشروں کی مقتدر اشرافیہ، اقتدار و اختیار پر اپنی مضبوط گرفت کے تسلسل کی خاطر ان فرسودہ تصورات کی سرپرستی کرتی ہے۔
بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ سولہویں صدی میں جنم لینے والے صنعتی انقلاب کے بطن سے بیسویں صدی کے آخری نصف کے دوران ایک نئے انقلاب نے جنم لیا ہے جو انتہائی خاموشی، مگر بہت تیزی کے ساتھ عالمی نظام میں سرائیت کرتے ہوئے اسے تبدیل ہونے پر مجبور کررہا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی اس ہوشربا ترقی نے جہاں ایک طرف کرہ ارض پر آباد انسانوں کو ان گنت سہولیات مہیا کی ہیں، وہیں دوسری طرف، بہت سے سیاسی و سماجی تصورات کو بھی رد کردیا۔ انھی میں سے صدیوں سے مردوں کے ذہنوں میں راسخ اس تصور کو بھی مستردکیاہے کہ عورتیں عقلی طورپر مردوں سے کمتر ہونے کے باعث مساوی حیثیت کی حامل نہیں ہوتیں۔ سائنسی تحقیق نے ہمیں بتایا کہ عورت صرف حیاتیاتی (Biologically) طور پر مختلف جسمانی ساخت اور بعض فطری ذمے داریاں ادا کرتی ہے، لیکن اس کی عقل کسی بھی طور پر مرد سے کم نہیں ہوتی۔
لہٰذا سماجی طور پر اس کے ساتھ امتیازی سلوک کا کوئی جواز نہیں ہے، مگر جہل آمادگی اور فرسودہ روایات کی گرداب میں پھنسے معاشرے آج بھی ماضی کے انھی تصورات کے اسیر ہیں۔ پاکستان جس خطے پر بنا ہے، وہ صدیوں سے قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہونے کے باعث فکری و جذباتی عدم توازن کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ صدیوں سے حملہ آوروں کی زد میں ہونے کی وجہ سے غلامانہ ذہنیت ان کے پورے وجود میں سرائیت کر چکی ہے۔ غلامانہ ذہنیت انسانی فطرت میں خوشامد اور بزدلی کے ساتھ سفاکی بھی بھر دیتی ہے۔ یعنی طاقتور کے سامنے فوراً سجدہ ریز ہوجانا جب کہ کمزور پر بلا کسی وجہ رعب گانٹھتے رہنا۔ عورت چونکہ ہمارے سماج کا سب سے زیادہ زد پذیر طبقہ ہے، اس لیے اس پر دست درازی اور تشدد عام سی بات ہے۔اس تصورکو مہمیز علما کی تحاریر اور تقاریرلگاتی ہیں جو آج بھی عورت کو ناقص العقل اور غیرت کی علامت قرار دیتے ہوئے، اسے گھروں تک محدود کردینے کا درس دیتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام آدمی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے، جب چاہواتار کر پھینک دو اور جو سلوک چاہو، روا رکھو۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ خواتین کی بات بے بات تذلیل،ان پر جسمانی تشدد اورغیرت کے نام پر قتل چند روز کی کہانی نہیں ہے بلکہ صدیوں سے جاری روایات کا حصہ ہے۔ان روایات کی سرپرستی چونکہ قبائلی سرداروں اور جاگیرداروں کے علاوہ علمائے دین بھی کرتے ہیں، اس لیے اس سفاکی کو تسلسل کے ساتھ مذہبی اور اخلاقی جواز مل رہا ہے، چونکہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک پروان چڑھانے ان کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے نان ایشوز کا سہارا لیتی ہیں۔ اس لیے ریاستی سطح پر اگر کچھ اقدامات کیے جاتے ہیں، تو یہ جماعتیں ان کی مخالفت میں مجتمع ہوکر عملدرآمد کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں جیسا کہ پنجاب اسمبلی سے بالاتفاق منظور ہونے والے حقوق نسواں قانون کے ساتھ کیا گیا،جو اب سرد خانے کی نذر ہوچکا ہے۔اس کے برعکس خواتین کے ساتھ ہونے والے نازیبا سلوک، بدترین زیادتیوںاور مظالم پرآواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے عام سیاسی جماعتوں کا کردار بھی انتہائی منافقانہ ہے جو خواتین کے حقوق کے بارے میں کھل کر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں۔
لہٰذا قومی اسمبلی میں خاتون رکن کے بارے میں ایک وفاقی وزیر کے استہزائیہ جملے ہوں یا ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر شریک گفتگو خاتون کو مغلظات بکنا ہو، اسی Mindset کو ظاہر کرتا ہے، جو اس معاشرے کے ہر فرد کے ذہنوں میں صدیوں سے جاگزیں ہے ۔ خواتین کو مساوی انسانی حقوق دیے جانے کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔ کونسل متنازعہ اور نان ایشوز پر رائے زنی کرکے گو کہ ذرایع ابلاغ کی توجہ تو اپنی جانب مبذول کرا لیتی ہے، مگر اس کی سفارشات کے نتیجے میں عوام میں جو فکری تضادات پیدا ہورہے ہیں، وہ سماجی تقسیم کو خطرناک حد تک گہرا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ کونسل شوہروں کے بیویوں پر تشدد (خواہ ہلکا ہی سہی) کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جب کہ عزت کے نام پر لڑکیوں کے قتل، انھیں جلائے جانے اور زندہ درگورکرنے جیسے واقعات پر خاموشی اختیارکیے رکھتی ہے۔اسی طرح دو برس قبل جنسی زیادتیوں کے کیس میں DNA ٹیسٹ کو بطورشہادت تسلیم کرنے سے انکارکر کے کونسل نے دراصل اس قبیح جرم کی بیخ کنی کی راہ میں روڑے اٹکا دیے۔
حالانکہ DNA ٹیسٹ مختلف نوعیت کے کیسوں میں مستند شہادت تسلیم کیے جاتے ہیں اور ان پر مکمل اعتبارکیا جاتا ہے۔ ملا اختر منصور کی مسخ لاش کی شناخت بھی ان کے DNA ٹیسٹ کے ذریعے ہی ممکن ہوسکی، مگر کونسل میں بیٹھے علما صرف جنسی زیادتی کی صورت میں اس ٹیسٹ کی اہمیت اور افادیت سے انکار کرنے پر مصر ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان جیسے پارلیمانی جمہوری ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 1970سے آج تک ہر دور میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کئی جید علما رکن رہے ہیں اور آج بھی ہیں جو قانون سازی کے عمل میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں مشورے دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔
لیکن اگر اسلامی امور پر تحقیق کے لیے اس ادارے کا قیام ضروری ہے ، تو پھر تحقیق کے تمام ضروری پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں ان علما کو شامل کیا جائے جوحقیقی معنی میں محقق ہوں اور اسلامی علوم کی تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہوں۔اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح ہر وکیل ماہر قانون (Jurist) نہیں ہوتا، اسی طرح ہر مولوی، عالم دین یا فقہی نہیں ہوتا۔اس لیے کونسل کے اراکین کا تقرر سیاسی کے بجائے میرٹ پر علمی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک سنجیدہ تحقیقی ادارے کو غیر سنجیدہ انداز میں چلانے کی کوشش ان گنت سیاسی، سماجی اور قانونی مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی اور سماجی تشکیلات کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ آج نظر آرہا ہے، وہ کسی فوری صورتحال کا شاخسانہ نہیں ہے، بلکہ کئی دہائیوں پر مشتمل غلط پالیسیوں حکمت عملیوں اور دہرے بلکہ تہرے طرز عمل کا نتیجہ ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ریاست کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو فکری انتشار اور پیشہ ورانہ تنزلی کا شکار نہ ہو۔ آج خارجہ سے داخلہ پالیسی تک، مالیاتی پالیسی سے ترقیاتی منصوبہ بندی تک ہر طرف بے سمتی اور بے ترتیبی نظر آتی ہے، جب کہ معاشرہ تیزی کے ساتھ عدم برداشت ، اخلاق باختگی اور جہل آمادہ رویوں میں مبتلا ہورہا ہے۔ اس کا سبب حکمران اشرافیہ کا اس بصارت و بصیرت اوراستعداد و عزم سے عاری ہونا ہے جو اچھی حکمرانی کی کلید تصور کی جاتی ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ اچھی حکمرانی تو دور کی بات وطن عزیز میں حکمرانی نام کی کسی چڑیا کا وجود ہی نہیں ہے۔ بلکہ چہارسو جنگل کا قانون ہے، یعنی جس کے پاس جتنی طاقت ہے، وہ اس کا جائز اور ناجائز ہر طرح سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پارلیمان ہے، مگر محض نمائشی ہے۔جب کہ قوانین بنتے ضرور ہیں، مگر ان پر عملدر آمد کا کوئی مکینزم نہیں۔ عدالتیں موجود ہیں، مگر فیصلوں میں تاخیر انصاف تک رسائی میں رکاوٹ ہے۔ متعلقہ حکومتوں کی نااہلیوں کے باعث ریاستی اور غیر ریاستی دونوں طرح کے ایکٹروں کی من مانیاں حد سے بڑھتی جاری ہیں ۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ سب کچھ بے بسی سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں، قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت کی پروردہ ہونے کی وجہ سے قبائلی روایات کو مذہبی روایات کے طور پر پیش کرتے ہوئے انھیں جاری رکھنے پر مصر ہیں جس کی وجہ سے مذہب (Religion) اور مذہبیت(Religiosity)کا فرق ختم ہوکررہ گیا ہے۔ دوسری طرف ملکی اسٹبلشمنٹ جس کا مفاد سرد جنگ کی نفسیات کے تسلسل سے وابستہ ہے، وہ بھی معاشرتی تبدیلی کی راہ میں ایک اونچی دیوار بنی ہوئی ہے۔ سول سوسائٹی کمزور اور ناتواں ہونے کی وجہ سے معاشرے کو فرسودہ روایات، فکری جمود، جہل آمادگی اور جذباتیت سے نکالنے کی کوشش توکررہی ہے مگر کامیابی کی منزل ابھی بہت دور ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ہم دنیا سے توپہلے ہی کٹ چکے ہیں، اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا توخدشہ یہ ہے کہ کہیں دوبارہ پتھروں کے دور میں واپس نہ چلے جائیں۔
بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ سولہویں صدی میں جنم لینے والے صنعتی انقلاب کے بطن سے بیسویں صدی کے آخری نصف کے دوران ایک نئے انقلاب نے جنم لیا ہے جو انتہائی خاموشی، مگر بہت تیزی کے ساتھ عالمی نظام میں سرائیت کرتے ہوئے اسے تبدیل ہونے پر مجبور کررہا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی اس ہوشربا ترقی نے جہاں ایک طرف کرہ ارض پر آباد انسانوں کو ان گنت سہولیات مہیا کی ہیں، وہیں دوسری طرف، بہت سے سیاسی و سماجی تصورات کو بھی رد کردیا۔ انھی میں سے صدیوں سے مردوں کے ذہنوں میں راسخ اس تصور کو بھی مستردکیاہے کہ عورتیں عقلی طورپر مردوں سے کمتر ہونے کے باعث مساوی حیثیت کی حامل نہیں ہوتیں۔ سائنسی تحقیق نے ہمیں بتایا کہ عورت صرف حیاتیاتی (Biologically) طور پر مختلف جسمانی ساخت اور بعض فطری ذمے داریاں ادا کرتی ہے، لیکن اس کی عقل کسی بھی طور پر مرد سے کم نہیں ہوتی۔
لہٰذا سماجی طور پر اس کے ساتھ امتیازی سلوک کا کوئی جواز نہیں ہے، مگر جہل آمادگی اور فرسودہ روایات کی گرداب میں پھنسے معاشرے آج بھی ماضی کے انھی تصورات کے اسیر ہیں۔ پاکستان جس خطے پر بنا ہے، وہ صدیوں سے قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہونے کے باعث فکری و جذباتی عدم توازن کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ صدیوں سے حملہ آوروں کی زد میں ہونے کی وجہ سے غلامانہ ذہنیت ان کے پورے وجود میں سرائیت کر چکی ہے۔ غلامانہ ذہنیت انسانی فطرت میں خوشامد اور بزدلی کے ساتھ سفاکی بھی بھر دیتی ہے۔ یعنی طاقتور کے سامنے فوراً سجدہ ریز ہوجانا جب کہ کمزور پر بلا کسی وجہ رعب گانٹھتے رہنا۔ عورت چونکہ ہمارے سماج کا سب سے زیادہ زد پذیر طبقہ ہے، اس لیے اس پر دست درازی اور تشدد عام سی بات ہے۔اس تصورکو مہمیز علما کی تحاریر اور تقاریرلگاتی ہیں جو آج بھی عورت کو ناقص العقل اور غیرت کی علامت قرار دیتے ہوئے، اسے گھروں تک محدود کردینے کا درس دیتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام آدمی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے، جب چاہواتار کر پھینک دو اور جو سلوک چاہو، روا رکھو۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ خواتین کی بات بے بات تذلیل،ان پر جسمانی تشدد اورغیرت کے نام پر قتل چند روز کی کہانی نہیں ہے بلکہ صدیوں سے جاری روایات کا حصہ ہے۔ان روایات کی سرپرستی چونکہ قبائلی سرداروں اور جاگیرداروں کے علاوہ علمائے دین بھی کرتے ہیں، اس لیے اس سفاکی کو تسلسل کے ساتھ مذہبی اور اخلاقی جواز مل رہا ہے، چونکہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک پروان چڑھانے ان کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے نان ایشوز کا سہارا لیتی ہیں۔ اس لیے ریاستی سطح پر اگر کچھ اقدامات کیے جاتے ہیں، تو یہ جماعتیں ان کی مخالفت میں مجتمع ہوکر عملدرآمد کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں جیسا کہ پنجاب اسمبلی سے بالاتفاق منظور ہونے والے حقوق نسواں قانون کے ساتھ کیا گیا،جو اب سرد خانے کی نذر ہوچکا ہے۔اس کے برعکس خواتین کے ساتھ ہونے والے نازیبا سلوک، بدترین زیادتیوںاور مظالم پرآواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے عام سیاسی جماعتوں کا کردار بھی انتہائی منافقانہ ہے جو خواتین کے حقوق کے بارے میں کھل کر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں۔
لہٰذا قومی اسمبلی میں خاتون رکن کے بارے میں ایک وفاقی وزیر کے استہزائیہ جملے ہوں یا ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر شریک گفتگو خاتون کو مغلظات بکنا ہو، اسی Mindset کو ظاہر کرتا ہے، جو اس معاشرے کے ہر فرد کے ذہنوں میں صدیوں سے جاگزیں ہے ۔ خواتین کو مساوی انسانی حقوق دیے جانے کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔ کونسل متنازعہ اور نان ایشوز پر رائے زنی کرکے گو کہ ذرایع ابلاغ کی توجہ تو اپنی جانب مبذول کرا لیتی ہے، مگر اس کی سفارشات کے نتیجے میں عوام میں جو فکری تضادات پیدا ہورہے ہیں، وہ سماجی تقسیم کو خطرناک حد تک گہرا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ کونسل شوہروں کے بیویوں پر تشدد (خواہ ہلکا ہی سہی) کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جب کہ عزت کے نام پر لڑکیوں کے قتل، انھیں جلائے جانے اور زندہ درگورکرنے جیسے واقعات پر خاموشی اختیارکیے رکھتی ہے۔اسی طرح دو برس قبل جنسی زیادتیوں کے کیس میں DNA ٹیسٹ کو بطورشہادت تسلیم کرنے سے انکارکر کے کونسل نے دراصل اس قبیح جرم کی بیخ کنی کی راہ میں روڑے اٹکا دیے۔
حالانکہ DNA ٹیسٹ مختلف نوعیت کے کیسوں میں مستند شہادت تسلیم کیے جاتے ہیں اور ان پر مکمل اعتبارکیا جاتا ہے۔ ملا اختر منصور کی مسخ لاش کی شناخت بھی ان کے DNA ٹیسٹ کے ذریعے ہی ممکن ہوسکی، مگر کونسل میں بیٹھے علما صرف جنسی زیادتی کی صورت میں اس ٹیسٹ کی اہمیت اور افادیت سے انکار کرنے پر مصر ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان جیسے پارلیمانی جمہوری ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 1970سے آج تک ہر دور میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کئی جید علما رکن رہے ہیں اور آج بھی ہیں جو قانون سازی کے عمل میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں مشورے دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔
لیکن اگر اسلامی امور پر تحقیق کے لیے اس ادارے کا قیام ضروری ہے ، تو پھر تحقیق کے تمام ضروری پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں ان علما کو شامل کیا جائے جوحقیقی معنی میں محقق ہوں اور اسلامی علوم کی تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہوں۔اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح ہر وکیل ماہر قانون (Jurist) نہیں ہوتا، اسی طرح ہر مولوی، عالم دین یا فقہی نہیں ہوتا۔اس لیے کونسل کے اراکین کا تقرر سیاسی کے بجائے میرٹ پر علمی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک سنجیدہ تحقیقی ادارے کو غیر سنجیدہ انداز میں چلانے کی کوشش ان گنت سیاسی، سماجی اور قانونی مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی اور سماجی تشکیلات کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ آج نظر آرہا ہے، وہ کسی فوری صورتحال کا شاخسانہ نہیں ہے، بلکہ کئی دہائیوں پر مشتمل غلط پالیسیوں حکمت عملیوں اور دہرے بلکہ تہرے طرز عمل کا نتیجہ ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ریاست کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو فکری انتشار اور پیشہ ورانہ تنزلی کا شکار نہ ہو۔ آج خارجہ سے داخلہ پالیسی تک، مالیاتی پالیسی سے ترقیاتی منصوبہ بندی تک ہر طرف بے سمتی اور بے ترتیبی نظر آتی ہے، جب کہ معاشرہ تیزی کے ساتھ عدم برداشت ، اخلاق باختگی اور جہل آمادہ رویوں میں مبتلا ہورہا ہے۔ اس کا سبب حکمران اشرافیہ کا اس بصارت و بصیرت اوراستعداد و عزم سے عاری ہونا ہے جو اچھی حکمرانی کی کلید تصور کی جاتی ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ اچھی حکمرانی تو دور کی بات وطن عزیز میں حکمرانی نام کی کسی چڑیا کا وجود ہی نہیں ہے۔ بلکہ چہارسو جنگل کا قانون ہے، یعنی جس کے پاس جتنی طاقت ہے، وہ اس کا جائز اور ناجائز ہر طرح سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پارلیمان ہے، مگر محض نمائشی ہے۔جب کہ قوانین بنتے ضرور ہیں، مگر ان پر عملدر آمد کا کوئی مکینزم نہیں۔ عدالتیں موجود ہیں، مگر فیصلوں میں تاخیر انصاف تک رسائی میں رکاوٹ ہے۔ متعلقہ حکومتوں کی نااہلیوں کے باعث ریاستی اور غیر ریاستی دونوں طرح کے ایکٹروں کی من مانیاں حد سے بڑھتی جاری ہیں ۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ سب کچھ بے بسی سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں، قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت کی پروردہ ہونے کی وجہ سے قبائلی روایات کو مذہبی روایات کے طور پر پیش کرتے ہوئے انھیں جاری رکھنے پر مصر ہیں جس کی وجہ سے مذہب (Religion) اور مذہبیت(Religiosity)کا فرق ختم ہوکررہ گیا ہے۔ دوسری طرف ملکی اسٹبلشمنٹ جس کا مفاد سرد جنگ کی نفسیات کے تسلسل سے وابستہ ہے، وہ بھی معاشرتی تبدیلی کی راہ میں ایک اونچی دیوار بنی ہوئی ہے۔ سول سوسائٹی کمزور اور ناتواں ہونے کی وجہ سے معاشرے کو فرسودہ روایات، فکری جمود، جہل آمادگی اور جذباتیت سے نکالنے کی کوشش توکررہی ہے مگر کامیابی کی منزل ابھی بہت دور ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ہم دنیا سے توپہلے ہی کٹ چکے ہیں، اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا توخدشہ یہ ہے کہ کہیں دوبارہ پتھروں کے دور میں واپس نہ چلے جائیں۔