مذہبی حکومتیں
جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن جماعت کے اکابرین کی اخلاقی قدروں کی نفی نہیں کی جاسکتی
ہم مہنگائی بے روزگاری بجلی کی لوڈ شیڈنگ سمیت کسی بھی عوامی مسئلے پر لکھتے ہیں تو اس میں کوئی تخصیص نہیں برتی جاتی۔ ظلم ، ظلم اور ناانصافی ناانصافی ہے خواہ اس کا شکار جماعت اسلامی کا کوئی رہنما ہو یا تحریک انصاف کا کوئی کارکن یا متحدہ کی کوئی شخصیت۔ اسی اصول کے پس منظر میں ہم نے بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کے خلاف ایک کالم لکھا بلکہ اس حوالے سے ہم نے بنگلہ دیشی حکومت کی مذمت بھی کی کہ 45 سال پہلے کے مخصوص حالات میں وقوع پذیر کسی جرم کی سزا 45 سال بعد 73 سالہ ضعیف مطیع الرحمن کو دینا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں۔ پچھلے دنوں جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ سے ہمیں ایک فون اور ایس ایم ایس ملا جس میں مطیع الرحمن امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی سزائے موت کے خلاف کالم لکھنے پر ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور ہمیں ترجمان القرآن کی ایک کاپی بذریعہ ٹی سی ایس بھیجی گئی۔
جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن جماعت کے اکابرین کی اخلاقی قدروں کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ 2009 میں جب ہم بیمار ہوئے تو جماعت اسلامی سندھ کے امیر نے فون کر کے ہماری خیریت دریافت کی اور ہماری صحت یابی کے لیے دعا کی۔پروفیسر غفور احمد کا شمار جماعت اسلامی کے معروف اکابرین میں ہوتا ہے۔ پروفیسر غفور مرحوم ہمارے نظریات سے اچھی طرح واقف تھے لیکن ان سے نہ صرف ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا بلکہ وہ ہمارے بچوں کی شادیوں کی تقریب میں بڑے خلوص کے ساتھ شریک ہوتے لیکن کچھ جماعت میں ایسے جذباتی امرا بھی شامل ہیں جو سچ سن کر ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔
کئی سال پہلے کی بات ہے ملک کے ایک بڑے اخبارکے دفتر میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں ایک معروف جماعتی شخصیت بھی موجود تھی موصوف نے کانفرنس کے موضوع کے حوالے سے جاگیردارانہ نظام کی مخالفت میں دھواں دھار تقریر کی ہم نے جب اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جاگیردارانہ نظام اور امریکا کے حوالے سے جماعت اسلامی کی ماضی کی پالیسیوں کی نشان دہی کی تو مولانا ہتھے سے اکھڑگئے ۔
ایک ہی جماعت میں اجتماع ضدین کا ہونا کوئی نئی بات ہے نہ حیرت کی بات ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ جماعتوں کی پالیسیاں بھی بدلتی رہتی ہیں ایک دور تھا جب جماعت سمیت کئی مذہبی جماعتیں امریکا کے مخالفین کو برا بھلا کمیونسٹ کہتی تھیں۔
اسی طرح مزدوروں کسانوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی کمیونسٹ کے خطاب سے نوازتی تھیں لیکن آسمان اب یہ تماشا بھی دیکھ رہا ہے کہ یہی اکابرین اٹھتے بیٹھتے نہ صرف مزدوروں اورکسانوں کے حقوق کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ امریکا کو پاکستان اور اسلام کا دشمن نمبر1 قرار دے رہے ہیں۔ یہ طرز فکر اچھی بات ہے اس کی مخالفت اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ سچ ہمیشہ جھوٹ پر غالب آجاتا ہے۔ مجھے آج جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق کی زبان سے مزدوروں، کسانوں کے حقوق کی بات سن کر خوشی ہوتی ہے کہ دیر ہی سے سہی جماعت کے اکابرین کو حقائق کا احساس تو ہوا۔
ہمارے ملک میں کئی مذہبی جماعتیں قیام پاکستان کے ساتھ ہی کام کر رہی ہیں اور منظم بھی ہیں متحرک بھی ان کے پاس نظریاتی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد بھی ہے جو ڈسپلن میں رہ کر کام کرتی ہے خدا کے فضل سے ان کے پاس وسائل کی بھرمار بھی ہے اوراندرونی اور بیرونی عطیات بھی بھاری مقدار میں حاصل ہیں۔ ان غیر معمولی خوبیوں اور سہولتوں کی موجودگی میں یہ جماعتیں عوام میں نامقبول کیوں بنی ہوئی ہیں اور 1970 سے لے کر 2013 تک کے الیکشن میں انھیں صرف چند سیٹیں ہی کیوں ملتی ہیں؟
یہ سوال ذہن میں پیدا ہونا فطری بات ہے۔ بی جے پی بھارت کی کٹر مذہبی جماعت ہے بھارت میں روایتی سیاسی جماعتوں کی عوامی مسائل کے حل میں مسلسل ناکامی سے تنگ آئے ہوئے عوام نے حالیہ الیکشن میں عوامی مسائل حل کرنے اور ملکی معیشت درست کرنے کے وعدوں کے ساتھ عوام نے بی جے پی کی حمایت کی لیکن آہستہ آہستہ وہ اپنا اصل روپ ظاہرکرنے لگی وہ بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے چونکہ آج کی جدید دنیا اور جمہوری نظاموں میں مذہبی حکومتوں کی کوئی جگہ نہیں ہے اور مذہبی سیاست کو جمہوریت کی نفی سمجھا جاتا ہے اوراکیسویں صدی میں ہونے والی سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں ہونے والی ترقی نے حال اور مستقبل کی شکل ہی بدل کر رکھ دی ہے۔
اس پس منظر میں اگر بی جے پی بھارت میں ہندو مذہب کے نفاذ کی بات کرتی ہے تو نہ صرف یہ ایک بے وقت کی راگنی ہوگی بلکہ ساری دنیا اس طرز فکرکی اس لیے مخالفت کرے گی کہ مذہبی حکومتیں انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے بجائے انھیں ایک دوسرے سے دور کرنے اور ایک دوسرے سے نفرت کرنے کا سبق دیتی ہیں اور اس کے مظاہرے بھارت میں دیکھے جا رہے ہیں۔
اگرچہ وقت کی نزاکت اور حالات کے تقاضے محسوس کرکے بی جے پی نے ہندوتوا کا نعرہ ترک کردیا ہے لیکن کلدیپ نیئر جیسے قلم کار دھڑلے سے بی جے پی پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ خود سامنے آنے کے بجائے آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسی وحشی طاقتوں کو ہندوتوا پر عملدرآمد کے لیے آگے کردیا ہے اور نریندر مودی آر ایس ایس کے مرکز جاکر وہاں سے گائیڈ لائن لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی ہیں۔ اس رجحان کے خلاف بھارت کے دانشور اہل علم اور فلسفی حلقے حکومت سے سخت ناراض ہیں 300 سے زیادہ اکابرین نے احتجاجاً اپنے ایوارڈ بھی واپس کردیے ہیں ادیب شاعر اور فنکار ہندوتوا کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔
بات چلی تھی منصورہ سے آنے والے ٹیلیفون اور ایس ایم ایس سے اور پہنچی ہندوتوا تک۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں انھیں اس حقیقت کا پوری طرح علم ہے کہ 69 سال سے پاکستان کے 20 کروڑ عوام جن مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اس کی ذمے داری ہماری زمینی اور صنعتی اشرافیہ پر آتی ہے جو جمہوریت کی آڑ میں اربوں روپوں کی لوٹ مار میں مصروف ہے۔ ہمارے ملک کے مسلمان اپنے مذہب سے محبت کرتے ہیں، مذہب ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، ان کا مسئلہ اس 69 سالہ Status Quo سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ اگر ہماری مذہبی جماعتیں جمہوریت کے نام پر حکومتوں کی حمایت کرنے کے بجائے اسٹیٹس کو کو توڑنا اپنی پہلی ترجیح بنالیں اور عوامی جمہوریت کا نعرہ بلند کریں تو عوام اس کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں۔