عوامی تحریک سانحہ ماڈل ٹائون اور قانون کی حکمرانی

بعض سیاسی حادثات اور سانحات ہماری سیاسی اور قانونی تاریخ میں ہمیشہ متنازعہ حیثیت میں موجود رہیں گے

salmanabidpk@gmail.com

بعض سیاسی حادثات اور سانحات ہماری سیاسی اور قانونی تاریخ میں ہمیشہ متنازعہ حیثیت میں موجود رہیں گے۔ اگرچہ طاقت ور طبقات اس طرز کے حادثات پر پردہ ڈال کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن واقعات کی شدت ہمیشہ ان معاملات کو نظروں سے اوجھل کرنے کے بجائے وقتاً فوقتاً ہمیں واقعہ کی اہمیت کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ یہ کوئی گونگا نہیں بلکہ بولتا ، دیکھتا اور محسوس کرتا ہوا معاشرہ ہے جہاں لوگ حادثات کو بھولا نہیں کرتے۔ایک ایسا ہی واقعہ سانحہ لاہور کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

اس واقعہ میں 17جون 2014کو عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہر بیرئیرزہٹانے کے مسئلہ پر 14معصوم مرد اور عورتوں کو گولیاں کا نشانہ بنا کر مار ڈالا گیا اور تقریبا80سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ یہ ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے ۔ جو معاملہ بات چیت کی مدد سے حکومت، انتظامیہ اور عوامی تحریک کے درمیان حل ہوسکتا تھا اسے خون کی ہولی میں کیونکر نہلایا گیا ۔عمومی طور پر اتنے بڑے واقعہ کی اجازت پولیس خود سے نہیں دیتی ، بلکہ اس کی اعلی سطح پر موجود سیاسی اور انتظامی قیادت کی حمایت کے بعد اس طرز کی کارروائی کی جاتی ہے ۔

یہ بات پیش نظر رہے کہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے گھر کے باہر بیرئیرز عدالت کے حکم پر پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے ۔ اس کی وجہ خود ڈاکٹر طاہر القادری کو مختلف حلقوں کی جانب سے خود کش حملوں کے خلاف ملنے والے فتوؤں کی وجہ سے جان کو خطرہ تھا ، سرکاری ایجنسیوں نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کو خط لکھا تھا کہ وہ اپنے اردگرد حفاظتی فول پروف کو یقینی بنائیں ۔

عوامی تحریک کی جانب سے پولیس کو بتایا گیا تھا کہ یہ سب کچھ عدالتی حکم پر کیا گیا ہے ، اگر آپ کے پاس عدالت کا جوابی حکم موجود ہے تو دکھایا جائے ہم یہ رکاوٹیں ہٹا دیں گے۔ابتدا میں ان مرنے والوں کی ایف آئی آر بھی درج کرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اس واقعہ سے اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے رہے اور ملبہ پولیس پر ڈال دیا ۔ جب کہ وزیر قانون رانا ثنا اللہ اس واقعہ کی اصل ذمے داری پولیس کے مقابلے میں عوامی تحریک پر ڈالتے ہیں ۔وزیر اعلی نے پرجوش پریس کانفرنس میں جسٹس باقر علی نجفی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا ۔ ان کے بقول اگر وہ یا ان کی حکومت اس واقعہ میں ملوث پائی گئی تو وہ ایک لحمہ ضایع کیے بغیر مستعفی ہوجائیں گے۔


یہ بھی ریکارڈ پر رہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹس بھی تبدیل کروانے کی کوشش کی گئی۔سانحہ ماڈل ٹاون کی ایف آئی آر ٹھیک دو ماہ کے بعد سیشن کورٹ کے حکم پر درج ہوئی ، ابتدا میں سیشن کورٹ کے حکم کو بھی ٹالا گیا ، بعد ازاں ایف آئی آر درج ہوئی ۔جوڈیشل کمیشن بننے سے قبل پنجاب حکو مت نے آئی جی پنجاب پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی ، اس میں ایجنسیوں نے حکومتی موقف کے برعکس اپنا نوٹ دیا ، لیکن جوڈیشل کمیشن بننے کے بعد یہ جے آئی ٹی غیر موثر ہوگئی۔ جسٹس باقر علی نجفی کی رپورٹس میں بھی پنجاب حکومت کو اس واقعہ کا براہ راست ذمے دار قرار دیا گیا، لیکن پنجاب حکومت نے یہ رپورٹ جاری کرنے سے معذرت کرلی ۔اس رپورٹ کے حصول کے لیے عوامی تحریک پچھلے ایک برس سے کوشش کر رہی ہے ، لیکن نتیجہ بے سود۔

جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد اصولی طور پر تو اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے تھا ، لیکن پنجاب حکومت نے ایک ریٹائرڈ جسٹس خلیل الرحمن کی سربراہی میں ری ویو کمیٹی بنائی جس کی روشنی میں عبدالرزاق چیمہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بھی بنائی گئی ۔یہ ایک منفرد مثال ہے کہ ایک حاضر سروس جسٹس کی رپورٹ پر ری ویو کے لیے ایک ریٹائرڈ جسٹس کی تقرری کی گئی ۔پنجاب حکومت نے سانحہ لاہور کے تناظر میں تین انکوائریاں کروائیں جن میں دو جے آئی ٹی اور ایک کمیشن شامل ہے ، لیکن تینوں کی رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔

کیا پاکستان کا عدالتی نظام ایک طبقاتی نظام کے ساتھ کھڑا ہے ؟یعنی انصاف سب کے لیے نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقہ کے لیے ہوتا ہے اور انصاف دینے والا پہلے دیکھتا ہے کہ کون انصاف طلب کررہا ہے اور اس کی اپنی سیاسی و انتظامی حیثیت کیا ہے ۔کیا حکمران طبقات اس ملک میں ہر طرح کے احتساب اور انصاف کے عمل سے باہر ہیں۔ ان کو یہ نظام مادر پدر آزادی دیتا ہے کہ وہ جس انداز میں چاہیں قانو ن کی حکمرانی کو اپنے ذاتی مفادات اور طاقت کے لیے استعمال کریں ۔ہمارے نظام میں ایسی کیا رکاوٹ ہے کہ اب تک تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جا رہی، کون فریق اس کھیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے انصاف فراہم کرنے والے ادارے بھی اس مسئلہ پر خاموش ہیں ۔کیا ایک عام پاکستانی یہ توقع کرسکتا ہے کہ اس موجودہ جمہوری اور قانون کی حکمرانی کے نظام میںحکمران یا طاقت ور طبقہ قانون کی گرفت میں آسکتا ہے۔

مسئلہ ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاست کا نہیں، اس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے ۔ لیکن جس انداز میں ماڈل ٹاون کے واقعہ کو ڈیل کیا گیا کیا اس کی پزیرائی کی جاسکتی ہے ۔جن خاندانوں کے لوگوں کو اس واقعہ میں نشانہ بنایا گیا کیا ہم ان کو بطور ریاست، حکومت اور ادارے یہ پیغام نہیں دے رہے کہ ملک میں جنگل کا قانون ہے ۔ عمومی طور پر ایسے ہی طرز عمل کے باعث لوگ خود سے قانون شکنی بھی کرتے ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاون ایک بڑا ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر اس کیس میں سیاسی سمجھوتے ، لین دین اور مجرمانہ عمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو پورے نظام کی سیاسی ، انتظامی اور قانونی ساکھ پر محض سوالیہ نشان رہ جاتا ہے ۔

یہ ایک ایسا سیاسی نظام ہے جہاں حکمران طبقات پورے ریاستی نظام کو اپنے ہاتھوں یرغمال بنا کر مرضی کے نتائج حاصل کرکے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اصل حکمرانی اداروں کی نہیں بلکہ افراد کی ہوتی ہے اور ہم ہی اس میں سرخرو ہونگے ۔ اس نظام میں جس انداز سے انتظامی اداروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے، وہ خود بدترین مثال ہے۔ بہرحال سانحہ ماڈل ٹاون ہمیشہ ہمیں انتظامی اداروں کے بے جا سیاسی استعمال سمیت ریاستی و قانون کے اداروں کی بے بسی کی تصویر پیش کرکے دکھاتا رہے گا ۔
Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }