حکمران آرڈر پر بنوائے جاسکیں گے
دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں جس تیز رفتاری سے ترقی ہو رہی ہے
دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں جس تیز رفتاری سے ترقی ہو رہی ہے اور جو ناقابل یقین واقعات رونما ہو رہے ہیں اور جو محیرالعقول ایجادات ہو رہی ہیں، ان کے پیش نظر یہ خواب اورآرزو ناممکنات میں سے نہیں رہی کہ اب سے کچھ عرصہ کے بعد کوئی بھی ملک یا حکومت اپنے مطلب کے اور عوام کے فائدے کے حکمران آرڈر پر بنوا سکے گی۔
سب سے پہلے تو ہم اپنے ان قارئین سے معذرت کر لیں جن کے جذبات کو اس مرتبہ ہمارے بے تکے موضوع اور کالم کے مندرجات سے ٹھیس پہنچ سکتی ہے یہ باتیں جیسا کہ ہمارے کالم کے مستقل عنوان سے ظاہر ہے سچ نہیں ہیں اور محض تفنن طبع کے لیے لکھی جا رہی ہیں یہ تو بہر حال طے ہے کہ خاص طور پر سائنس کی دنیا آگے کی جانب کا سفر ہمارے تصورات اور اندازوں سے زیادہ تیز رفتاری سے طے کر رہی ہے۔ مثلاً آج فیکس کے ذریعے محض ایک کاغذ آناً فاناً دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتا ہے، مگر اب یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ محض کاغذ ہی نہیں کسی ٹھوس چیز کو بھی دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچا دیا جائے۔
کمپیوٹر کی دنیا کا حال یہ ہے کہ سلیکون ویلی کی بعض کمپنیوں نے فکشن رائٹرز کی خدمات حاصل کر لی ہیں جو مستقبل کی دنیا میں اپنے تصورات کے گھوڑے بلکہ راکٹ دوڑاتے ہیں اور مستقبل کی ممکنہ ایجادات کا خاکہ پیش کرتے ہیں اور ایسے خواب دکھاتے ہیں جن کو حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک آرڈر پر انسان بنانے کا تعلق ہے، سائنس دانوں نے رسمی طور پر ایک ایسے دس سالہ منصوبے کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے جس کا مطمع نظر ڈی این اے کوکیمیائی طور پر مینوفیکچر کرنے کی صلاحیت کو خاصا بہتر بنانا اور سنتھیسائز کر کے ایک مکمل انسانی جینوم تخلیق کرنا ہے۔
تاہم اس پروجیکٹ کی جو پچھلے مہینے پانامہ پیپرز کی طرح لیک ہو گیا تھا، منصوبہ بندی سے پہلے ہی یہ اخلاقی بحث شروع ہو گئی ہے کہ انسانی کروموزومز کا پورا ایک سیٹ کیمیائی طور پر فیبریکٹ کی صلاحیت میسر آ گئی تو کم از کم تھیوری کی حد تک ایسے بچوں کی تخلیق کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جن کے بیالوجیکل والدین نہیں ہوںگے۔
اس سلسلے میں بعض نقادوں نے اس ''رازداری'' پر اعتراض کیا جو مئی میں ہارورڈ میڈیکل اسکول میں ہونے والے اجلاس کے بارے میں روا رکھی گئی تھی۔ جس میں یہ منصوبہ زیر غور آیا تھا۔ آرگنائزروں کا کہنا تھا کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ تجویز پہلے کسی سائنٹفک جرنل میں شایع ہو جائے اور پھر اسے پبلک کیا جائے اور اب پچھلی جمعرات کو یہ سائنس جرنل میں شایع ہو گئی ہے۔
اس تجویز کے مصنفوں کا کہنا ہے کہ اس طرح ڈی این اے فیبریکیٹ کرنے کی صلاحیت بہت سی سائنسی اور طبی ترقی کا پیش خیمہ ہو گی۔ مثال کے طور پر ایسے اعضا جو تمام وائرس کے خلاف مزاحمت کر سکیں یا جانوروں کے ایسے اعضا کی تخلیق جو انسانوں میں ٹرانسپلانٹ کیے جا سکیں۔
یہ پروجیکٹ ایک نئی نان پرافٹ آرگنائزیشن سینٹر آف ایکسی لینس فار انجینئرنگ بیالوجی چلائے گی جو اس سال مختلف نجی و سرکاری ذرایع سے دس کروڑ ڈالر جمع کرے گی آرگنائزوں نے اس منصوبے کی قطعی لاگت بتانے سے انکارکر دیا، جو ایک ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔
کیا امریکی حکومت اس منصوبے کو سپورٹ کرے گی ابھی تک اس بات کا پتہ نہیں چل سکا ہے تاہم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے جو امریکا میں میڈیکل ریسرچ کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرانسس ایس کوکنز نے ایک بیان میں کہاکہ اگرچہ ان کا ادارہ ڈی این اے سنتھیسز کے اس کام کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے، مگر کس وقت اس کے لیے فنڈنگ کی جائے ابھی اس بارے میں کچھ سوچا نہیں گیا ہے ہاں انھوں نے اعتراف کیا کہ اس قسم کے منصوبے کے عملی شکل اختیار کرنے سے بعض اخلاقی اور فلسفیانہ رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ادھر اس کوشش کو ہیومن جینوم پروجیکٹ رائٹwrite کہا جا رہا ہے کیونکہ اس کا مقصد زندگی کا ڈی این اے لکھنا ہے جب کہ اوریجنل ہیومین جینوم پروجیکٹ جو ایک دہائی قبل مکمل ہوا تھا اس کا مقصد ان تین ارب الفاظ کو پڑھنا تھا، جن سے انسانوں کا جینیٹک کوڈ ترتیب دیا گیا ہے۔
ڈی این اے سیکوئنینگ کی لاگت ڈرامائی طور پر خاصی کم ہو گئی ہے اور کسی بھی شخص کے مکمل ڈی این اے کو ایک ہزار ڈالر میں Sequence کیا جا سکتا ہے اور اب یہ طریقہ کثرت سے طبی تشخیص کراپ بریڈنگ اور سائنٹفک ریسرچ میں استعمال ہو رہا ہے۔
ادھر اس مقالے کے مصنفوں نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ وہ بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے تاہم ان کا خیال ہے کہ ایک پورے انسانی جینوم کے سنتھیسائز کرنے کے اتنے بڑے چیلنج کو فوکس کرنے سے ترقی کے جو مراحل طے ہوں گے انھیں بہت سے عملی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔
معترفین کا بہر حال اب بھی یہی کہنا ہے کہ اتنا بڑا پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے جو اتنے زبردست اخلاقی اور مذہبی اثرات کا حامل ہے ہمیں یہ بنیادی اخلاقی سوال خود سے پوچھنا چاہیے تھا کہ اس پر لوگوں کا سماجی و اخلاقی رد عمل کیا ہو گا، لوگ اسے قبول اور برداشت کر لیں گے اس طرح بنائے جانے والے بچوں کی معاشرے میں کیا حیثیت ہو گی یعنی یہ معاشرہ ایسے بچوں کو قبول کر لے گا اور خود یہ بچے موجودہ ماحول میں خود کو ایڈ جسٹ کر لیں گے اورکہیں دکھ کے مارے محروم بچوں کا ایک نیا گروہ تو وجود میں نہیں آ جائے گا۔
تاہم اس پروجیکٹ سے وابستہ ماہرین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آگے چل کر وہ وقت آ سکتا ہے جب مطلوبہ رنگ و نسل معیار اور عادات بلکہ عمر کے انسان وجود میں لائے جا سکیں جن میں حکمران بھی شامل ہوں گے، جو ایک خاص رقم دینے کے بعد آرڈر پر بنوائے جاسکیں۔ یہ لوگ ظاہر ہے پڑھے لکھے شریف اور مخلص اور ہر قسم کی انسانی خرابیوں اور برائیوں سے پاک ہوں گے اورکسی قیمت پرکسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں ہوں گے کیوں کہ یہ باہر سے ہوکر آئے ہوں گے لہٰذا ان کو غیر ملکی دوروں کی لت نہیں ہوگی، ان کا کوئی رشتے دار حتیٰ کہ اولاد نہیں ہوگی اس لیے یہ اقربا پروری میں ملوث نہیں ہوں گے اور نہ ہی اپنی اولاد کو پروموٹ کریں گے۔