رمضان اور انسانیت کی حقیقی ترقی کا راستہ
اجتماعی سطح پر نظریۂ فکر و عمل کی وحدت اور جامعیت کے ساتھ ہی آگے بڑھنا نجات کا راستہ اور صراطِ مستقیم ہے۔
دین میں مذہب اور عقیدے کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔ فوٹو: فائل
MUMBAI:
رمضان کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے، جو ہمیں راہ مستقیم پر چلنے کا درس دیتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک کسی مسئلے کی تشخیص صحیح خطوط پر نہ کی جائے، اس کے حل تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ آج ہم میں سے ہر ایک روز افزوں مسائل اور مشکلات کا رونا روتا ہے۔
حالات کے سدھار کے لیے مختلف جماعتیں اور تحریکیں شب و روز مصروف عمل ہیں مگر پھر بھی پردۂ تعمیر میں بگاڑ اور تخریب نمایاں ہے، ایسے میں فکری پریشانیوں اور عملی مایوسیوں کا دوچند ہوجانا لازمی امر ہے۔ لیکن باوجود اس کے اصلاح احوال سے مکمل مایوسی اجتماعی خودکشی کا راستہ ہے۔ ماضی قریب و بعید میں بے شمار اقوام نے صحیح فکر، مضبوط قوت ارادی، اعلیٰ تنظیمی طاقت اور جہد مسلسل کے سہارے زوال کی ظلمتوں کو عروج کے اجالوں سے بدلنے کی سنہری تاریخ رقم کی ہے۔
سب سے پہلے تو بہ حیثیت قوم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب ہمیں یہ تسلیم کر ہی لینا چاہیے کہ ہمارا قومی و ملی شیرازہ مکمل طور پر بکھر چکا ہے۔ اخلاقی دیوالیہ پن اجتماعی زوال کا آخری و حتمی مرحلہ ہوتا ہے جسے ہم صرف اردگرد بل کہ اپنے اندر بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ ہمہ وقت سطحی و فروعی کج بحثیوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اجتماعی سطح پر نظریۂ فکر و عمل کی وحدت اور جامعیت کے ساتھ ہی آگے بڑھنا نجات کا راستہ اور صراطِ مستقیم ہے۔ جس پر اﷲ کی انعام یافتہ جماعتیں ہمیشہ کار بند رہی ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ انسانیت فطری و پیدائش طور پر جن خصوصیات کی بنا پر حیوانیت سے ممتاز اور اشرف المخلوقات ہے انہی اخلاق حسنہ سے انسانی سماجوں کی تنظیم و ترکیب اور تزئین و آرائش نہ صرف بنیادی تقاضا بل کہ انسانیت کی ترقی کی معراج ہے۔ انسانیت کے بنیادی اخلاق اور انسانی اجتماع کے لیے ان کی ضرورت و اہمیت پر سبھی مذاہب، فلسفوں اور نظاموں کا اتفاق ہے مگر ان تک رسائی کی راہیں مختلف ہیں۔
نبی اکرمؐ نے فرمایا ''میری بعثت کا مقصد مکارمِ اخلاق کی تکمیل ہے۔''
اسلامی تعلیمات کے مطابق دنیا ایک امتحان گاہ، آخرت کی کھیتی اور اﷲ کی بے شمار نعمتوں کا وسیع و عریض دسترخوان ہے۔ جس سے عدل و انصاف کے ساتھ تمام انسانیت کا استفادہ انسانوں کی بنیادی و حیوانی ضروریات کی کفالت کا ذریعہ ہے۔ ''اے ہمارے رب! ہمیں دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بھلائی عطا فرما۔'' (بقرہ)
یہاں پر یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کل انسانوں کی کفالت اپنے ذمے لی ہے۔ اس لیے ہر دور میں رزق کے وسائل اور خزانے انسانوں کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ اور لامتناہی رہے ہیں۔ قدرتی، معدنی اور روزی کے وسائل کی قلت و کم یابی درحقیقت ظالمانہ و استحصالی قوتوں کا منفی پروپیگنڈا ہے، جس کی آڑ میں دولت و وسائل کے بے پناہ ارتکاز کے غیرانسانی و غیراخلاقی جرم کی پردہ پوشی مقصود ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے '' اور کوئی چوپایہ یا جانور بھی ایسا نہیں، زمین پر جس کا رزق اﷲ نے خود اپنے ذمے نہ لیا ہو۔'' قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جو خدا تمام جانوروں تک کی کفالت کی ذمے داری سرانجام دے رہا ہے، کیا وہ اشرف المخلوقات انسانیت کی کفالت سے دست بردار ہوچکا ہے؟
نہیں، ہرگز نہیں بل کہ کائنات کے دستر خوان پر موجود اس کی نعمتوں کا کوئی حساب و شمار نہیں، چہ جائیکہ ان لامحدود نعمتوں کا حق شکر ادا کیا جائے۔
''اگر تم اﷲ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو یہ کبھی ممکن نہیں۔'' (القرآن)
دراصل قدرت نے تکوینی طور پر سب کے رزق کا بہترین بندوبست کردیا ہے اس لیے کہ وہ خیر الرازقین ہے۔ مگر تشریعی، قانونی اور نظامی سطح پر ہم نے عدل و انصاف، وحدت و اخوت اور انسانی مساوات کے خداداد آفاقی اصولوں سے اعراض برتا جس کے باعث اکثریت کی معیشت تنگ ہوکر رہ گئی اور ایک قلیل ترین طبقہ ظلم و استحصال کے ہتھیار سے لیس وسائل رزق پر قابض ہوکر دیگر مظلوم انسانیت سے جونک کی مانند چمٹ کر رہ گیا۔ قرآنی اصول کے مطابق ''اور جو میرے ذکر (قرآن) سے منہ موڑے گا اس کے لیے معیشت کو تنگ کردیا جائے گا۔'' جب دولت و رزق کے وسائل تمام اقوام میں برابر گردش نہ کریں اور ایک محدود طبقے کے پاس بے پناہ وسائل اکٹھے ہوجائیں تو وہ کینسر زدہ اور جس اکثریتی طبقے کو دو وقت کی روٹی میسر نہ آئے وہ فالج زدہ ہوکر رہ جاتا ہے اور اس طرح ایک انسانی جسم کی طرح تمام قومی جسد بے کار اور تباہ ہوجاتا ہے۔
جب ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو اس کے علاج کے لیے اجتماعی معیشت کے اصول کو اپنانا ضروری ہوگا۔ یعنی وسائل رزق اور بنیادی حق معیشت میں تمام انسان بلالحاظ مذہب، رنگ، نسل اور جنس کے مساوی شریک ہوں گے اور فرد کی ذاتی و نجی ملکیت کو محدود اور اجتماعی ملکیت کے تابع قرار دیا جائے گا۔
''وہی اﷲ ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سارے کا سارا تم سب کے لیے پیدا کیا'' (سورۂ بقرہ)
شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے مطابق ''آیت مذکورہ اجتماعی ملکیت اور حق معیشت کی مساوات پر دلالت کرتی ہے'' انسانیت کا اصل مقصد حیات مکارم اخلاق کی تحصیل اور تکمیل ہے لیکن معاشی طبقات کا وجود اور سماجی عدم مساوات اس راہ کی حقیقی اور بنیادی رکاوٹ ہے۔
رحمت للعالمینؐ اشعری قبیلے سے بے پناہ محبت کا اظہار فرماتے تھے جس کی ایک ہی وجہ تھی کہ جب کبھی اس قبیلے کو معاشی تنگی اور قحط وغیرہ کا بحران درپیش ہوتا تو اس کے تمام خاندان اپنا رزق اور غلہ ایک جگہ ڈھیر کرکے پھر سے آپس میں مساوی تقسیم کرلیتے۔ اسی طرح آپؐ کا درج ذیل فرمان کسی سماج کے بنیادی مرض اور اس کے اصل علاج کے لیے حجت تامہ کی حیثیت کا حامل ہے۔
''قریب ہے کہ فقر و افلاس کے باعث کفر و جہالت عام ہوجائے۔''
آج اگر ہم اپنے معاشرے میں انتہا پسندی و دہشت گردی کا تہلیل و تجزیہ کریں تو ہمیں اس منحوس اور زہریلے پھل دار درخت کی تہہ میں غربت و افلاس کی مضبوط جڑیں نمایاں طور پر نظر آئیں گی۔ لہٰذا محسن انسانیتؐ کا مبارک معمول تھا کہ فقر و کفر سے خدا کی پناہ طلب فرماتے تھے۔ یہاں پر دو نکات بڑے اہم اور قابل ذکر ہیں پہلا یہ کہ فقر اضطراری خدا کا عذاب ہے اور دوسرا یہ کہ فقر و افلاس اور جہالت و کفر لازم و ملزوم ہیں۔ کفر، حقیقت میں جہالت کی حتمی شکل اور انتہا ہے جس کی رو سے ''صداقت کلی'' اور ''حقیقت کبریٰ'' کا صریح انکار کردیا جاتا ہے۔
دور رسالتؐ کے مدینہ منورہ اور بعد ازاں خلافت راشدہ کی معاشی پالیسی اور نظام کا جائزہ لیا جائے تو مسلم و غیر مسلم کی تمیز کے بغیر سب انسانوں کو یک ساں بنیادی انسانی و معاشی حقوق عطا کیے گئے بل کہ مذہبی و ریاستی مصارف کی مدات اور ٹیکسوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو غیر مسلم کی بہ نسبت مسلمانوں پر زیادہ بوجھ ڈالا گیا اور رخصت و فوائد کے معاملات میں غیر مسلم برادری کو ترجیح دی گئی۔ یہ تو رہا ریاست مدینہ کا سیاسی و معاشی پہلو جسے آج بھی چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود مثالی نمونہ اور رول ماڈل کا درجہ حاصل ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
ریاست مدینہ کا ایک اور بنیادی ستون مذہبی آزادی و رواداری ہے جس کی کئی مثالیں سیرت و تاریخ کی کتب میں محفوظ ہیں۔ جن میں سے ایک کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا وگرنہ تو یہ بھی ایک منفرد، مکمل اور تفصیلی موضوع ہے۔ نجران کا عیسائی وفد رحمت للعالمین ﷺ سے مسجد نبوی میں گفت و شنید میں مصروف ہے اس دوران جب عیسائی مہمانوں کی عبادت کا وقت آتا ہے اور وہ آپؐ سے دریافت کرتے ہیں کہ کس جگہ عبادت سرانجام دیں؟ تو رحمت کائنات ؐ کمالِ رحمت و رواداری سے انہیں مسجد نبویؐ کے اندر عبادت کی اجازت دے کر مذہبی آزادی و رواداری کے باب میں بھی معیار کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں۔
''بے شک تمہارے لیے رسول اﷲ (ﷺ) کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔'' (القرآن)
''دین میں مذہب اور عقیدے کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔'' قرآن کے الہامی اصول کی تعبیر و توضیح آپؐ نے اپنے عملی کردار سے فرمائی۔ آج ہم جس قومی و اجتماعی زوال کے دور سے گزر رہے ہیں یقینا ہم نے ہی اجتماعی جدوجہد سے اسے عروج میں تبدیل کرنا ہے جس کا آخری معیار اعلیٰ اخلاقیات کے اجتماعی نفاذ اور غلبے کے ذریعے انسانیت کو نفسی و ذہنی اور قلبی و روحانی ترقیات سے ہم کنار کرنا ہے۔ مگر غربت و افلاس، کفر و جہالت، معاشی طبقاتیت اور سماجی عدم مساوات کی موجودی میں یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے رہا۔
کس قدر المیہ ہے کہ جس دور میں ایک مخصوص طبقہ ستاروں اور کہکشاؤں پر کمندیں ڈالے ہوئے ہے، اسی دور اور اسی دھرتی پر انہی جیسے اربوں انسان پینے کے صاف پانی اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور اسی عالمی سماج میں محض حصول زر کی خاطر مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لیے چند درندہ صفت انسانوں کا مخصوص ٹولہ لاکھوں ٹن خوراک کا ذخیرہ سمندر برد کردیتا ہے۔ یہی وہ مسلط کردہ فقر اضطراری ہے جس سے نبی اکرمؐ نے نہ صرف خدائی پناہ طلب فرمائی بل کہ عملی، اجتماعی اور منظم جدوجہد سے اس کا خاتمہ کرنے کا اسوۂ حسنہ باقی چھوڑا۔ تاریخ کی انعام یافتہ جماعتوں کا اسوۂ تو بدی کے سرچشمے کا سراغ لگاکر حکمت و شعور کے ساتھ اس کا قلع قمع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہا اور یہی وہ صراط مستقیم ہے، جو اقوام کی گم شدہ منزلوں تک رسائی کا واحد ذریعہ و وسیلہ ہے۔ ''اے اﷲ ہم سب کو سیدھے راستے کا شعور عطا فرما!