سحر و افطار کی برکات

ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں یہی فرق ہے کہ ہم سحری کھاتے ہیں اور وہ سحری نہیں کرتے،ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

کھجور سے روزہ افطار کرنا افضل اور مستحب ہے اگر یہ میسّر نہ ہو تو پانی سے بھی مستحب ہےفوٹو : فائل

ہمارا دین زندگی کے ہر شعبے میں نظم و ضبط کا ایک اچھوتا پروگرام پیش کرتا ہے جو یکساں طور پر اس کے ہر پیروکار پر لاگو ہوتا ہے اور رمضان المبارک کے روزوں ہی کو دیکھ لیجیے کہ کیسا منظم پروگرام ان کے لیے پیش کیا۔

روزہ رکھنے کے ارادے سے صبح صادق سے پہلے جو کھایا پیا جاتا ہے اس کو سحری کہتے ہیں۔ سحری کھانا سنت ہے۔ نبی اکرم ﷺ خود بھی سحری تناول فرماتے تھے اور صحابۂ کرامؓ کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔ سحر کے وقت کھانے اور پینے کا ذکر بھی قرآن حکیم میں موجود ہے '' تم کھاتے اور پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے اور پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔'' (سورہ البقرۃ ) سحری کھانے کی کیا حکمت ہے ۔

اس کے بارے میں آپؐ کا ارشاد گرامی ہے ''ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں یہی فرق ہے کہ ہم سحری کھاتے ہیں اور وہ سحری نہیں کرتے۔'' (صحیح مسلم ) ایک اور حدیث میں فرمایا کہ ''سحری کھایا کرو اس لیے کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔'' (صحیح بخاری و مسلم) ایک اور مقام پر آپؐ نے ارشاد فرمایا ''قیام اللیل کے لیے دوپہر کے قیلولے سے قوت حاصل کرو اور دن کو روزہ رکھنے کے لیے سحری کھانے سے قوت حاصل کیا کرو۔'' (ابن ماجہ )

سحری کھانا موجب اجر و ثواب ہے اور قرآن و حدیث کا منشا بھی یہی ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ''سحری کھانا سراسر برکت ہے پس سحری کھانا نہ چھوڑنا خواہ پانی کا ایک گھونٹ ہی ہو، سحری کھانے والوں پر حق تعالیٰ برکت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔'' (الترغیب)


جس طرح سحری سے متعلق اسلام کی ہدایات پر عمل کیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح افطار میں بھی ہمیں اس کا مکلّف بنایا گیا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص غروب آفتاب سے ایک منٹ قبل بھی افطار نہیں کرسکتا اور نہ ہی شک کی بنا پر اپنے روزے کو اتنا طول دے سکتا ہے کہ وہ اپنے روزے میں خلل پیدا کرے۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے اپنے وضع کردہ قانون پر عمل کیا اور اسلامی نظم و ضبط کو پس پشت رکھا۔ دن بھر کے کام کاج اور روزے کی مشقت کے بعد غروب آفتاب کے وقت جو افطار کا موقع ہوتا ہے، اس کی حالت قابل دید ہوتی ہے اس کے چہرے سے صبر و تسکین کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے، عجیب سی طمانیت محسوس ہوتی ہے اور پھر ایسے میں وہ اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہوئے جو کچھ حلال رزق اس کے پاس ہوتا ہے افطار کرتا ہے۔ افطار عربی لفظ ہے جو فَطَرَ سے بنا ہے جس کے معنی روزہ افطار کرانا اور فِطَر َروزے کی افطاری ہے۔

جس طرح سحری کرنے میں تاخیر سنت ہے اسی طرح افطار میں تعجیل مستحب ہے۔ تعجیل کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد احتیاط کے خیال سے تاخیر کرنا مناسب نہیں بل کہ فوراََ ہی افطار مستحب ہے۔ فقہ اسلامی کے مصنف محمد یوسف اصلاحی لکھتے ہیں کہ '' اس طرح کی غیر ضروری احتیاط اور غیر مطلوب تقوٰی کے اظہار سے دینی مزاج بگڑ جاتا ہے اس لیے کہ دین کھانے پینے سے رکنے نفس کو مشقتوں میں ڈالنے اور تکلیف اٹھانے کا نام نہیں ہے بلکہ خدا کی بے چوں و چرا اطاعت کرنے کا نام ہے۔ ''

کھجور سے روزہ افطار کرنا افضل اور مستحب ہے اگر یہ میسّر نہ ہو تو پانی سے بھی مستحب ہے لیکن ان اشیا کو اپنے تئیں فرض کرلینا دین میں غلو ہے اور کسی دوسری شے سے روزہ افطار کرنے کو غیر متقیانہ قرار دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ آنحضور ﷺ نے خود بھی انہی اشیا سے افطار فرمایا ہے اور صحابۂ کرامؓ کو بھی ان ہی اشیاء کی ترغیب دی تھی۔ جس کی مصلحت یہ تھی کہ کھجور عرب کی سرزمین پر ہر امیر و غریب کو بہ آسانی میسر تھی اور رہا پانی تو وہ بہ آسانی دست یاب ہے۔ اس لیے بروقت جو بھی شے مل جائے اسی سے روزہ افطار کرلیا جائے۔

افطار کرانا بھی پسندیدہ عمل ہے چاہے ایک کھجور سے ہی سہی۔ آپؐ نے فرما یا ''جس شخص نے روزہ دار کو افطار کرایا یا کسی مجاہد کو جہاد کے لیے سامان دیا تو اس کو روزہ دار اور مجاہد کی طرح اجر و ثواب ملے گا۔'' (بیہقی)

اﷲ ہمیں اسلام پر نبی اکرم ﷺ کے طریق کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story