آوازوں کی دنیا

پُراسرار شور سے چراغ جلاتے راگوں تک۔۔۔دل چسپ حقائق، بھیدبھری کہانیاں

پُراسرار شور سے چراغ جلاتے راگوں تک۔۔۔دل چسپ حقائق، بھیدبھری کہانیاں ۔ فوٹو : فائل

آواز ہماری زندگی کا ایک ایسا اہم جزو ہے جسے ہم بہ ظاہر تو کوئی اہمیت نہیں دیتے، مگر درحقیقت یہ کرۂ ارض پر ہمارے وجود کے لیے بہت اہم اور ضروری ہے۔ اگر آواز نہ ہو تو ہم اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے رابطہ نہیں کرسکتے، نہ ان کی بات سن سکتے ہیں اور نہ اپنی بات انہیں سناسکتے ہیں۔ تمام مظاہر قدرت سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہمیں آواز کی ضرورت ہے۔

گنگناتے آبشار، بہتے دریاؤں کا شور، فضا میں اڑتے اور چہچہاتے پرندے ان سب سے لطف اندوز ہونے میں ان کی آواز کا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے۔ موسیقی، ڈراما، فلم، تھیٹر سبھی سے لطف اٹھانے کے لیے آواز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم سبھی انسانوں اور دیگر جان داروں کی زندگیوں میں آواز کی کیا اہمیت ہے، لیکن اس بات کی وضاحت کے بعد ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم نے آواز کی مکمل تعریف بیان کردی ہے، بل کہ سچ تو یہ ہے کہ اب بھی ہم آواز کی مکمل تشریح نہیں کرسکے، کیوں کہ دنیا میں آواز کے حوالے سے متعدد ایسے حیرت انگیز اور پراسرار معمے موجود ہیں جو آج تک حل نہیں ہوسکے، انہیں حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آئیے ان حیرت انگیز آوازوں کے اسرار اور پیچیدگیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

٭پراسرار خلائی گرج:
یہ 2009 کی بات ہے جب ناسا نے ایک نیا اور عجیب و غریب تصور پیش کیا۔ اس نے ایک آواز ڈب کی جسے space roar یا ''پراسرار خلائی گرج'' کا نام دیا، لیکن ناسا نے اس کے پس پردہ کوئی ٹھوس وضاحت پیش نہیں کی تھی۔ ناسا کے ادارے نے زمین کے کرۂ ہوائی کے اوپر ایک کھوجی مشن بھیجا تھا جس کا بنیادی کام کائنات کے سب سے قدیم ستاروں سے پیدا ہونے والی تاب کاری کا پتا لگانا تھا، مگر اس کھوجی مشن نے وہاں space roar یا ''پراسرار خلائی گرج'' دریافت کی۔

یہ ریڈیائی لہریں synchrotron ریڈی ایشن کی شکل میں تھیں جو اصل میں برقی مقناطیسی تاب کاری ہے جو چارجڈ پارٹیکلز سے آتی ہے۔یہ ریڈیائی شور خلا کے ویکیوم یا جوف میں متوقع شور سے چھے گنا زیادہ تھا۔

متعدد نظریات پرکھنے کے بعد بھی ناسا اس space roar یا ''پراسرار خلائی گرج'' کی کوئی وضاحت پیش نہیں کرسکا۔

بعض سائنس دانوں نے یہ خیال پیش کیا کہ یہ شور کائنات کے بہت پہلے والے ستاروں سے آرہا ہے۔ کچھ دیگر ماہرین کا خیال تھا کہ ہماری کائنات میں پائی جانے والی کہکشاؤں کا بہت بڑا اور ٹھوس گچھا ہمارے سائنسی آلات کو اپنے سائز اور اپنی کثافت سے کنفیوز کررہا ہے۔

لیکن فی الوقت ہمیں space roar یا ''پراسرار خلائی گرج'' کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی ہمارے ماہرین اس کی کوئی توجیہہ پیش کرسکے ہیں۔

٭جب پوری دنیا میں Skyquakes کی آوازیں سنی گئیں:
زمین پر زلزلے آتے ہیں تو انہیں ہم انگریزی میں earthquake کہتے ہیں، لیکن جب آسمان پر زلزلے آتے ہیں تو انہیں Skyquakes کہا جاتا ہے۔ لیکن بیشتر ماہرین Skyquakes کی اصطلاح کو سرے سے مانتے ہی نہیں، ان کا کہنا ہے کہ زلزلے صرف زمین پر آتے ہیں، آسمانوں پر نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ فرضی اور خیالی باتیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ Skyquakes اصل میں وہ ڈھول تاشے ہیں جو دنیا کے خاتمے کے وقت بجائے جاتے ہیں اور جن کے ذریعے اہل دنیا کو یہ خبر دی جاتی ہے کہ قیامت آرہی ہے۔



2012میں ایک یوٹیوب چینل نے Skyquake ویڈیوز اپ لوڈ کرنی شروع کردی تھیں، جو گھومتے ہوئے اور لرزتے ہوئے کیمروں سے تیار کی گئی تھیں اور جن میں اچھی خاصی ترمیم اور تبدیلی کرکے انہیں اصل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تمام شورشرابا، دھوکادہی اور فریب ایک طرف، یہ حقیقی skyquakes صرف ساحلی مقامات ہی پر وقوع پذیر ہوتے تھے۔

skyquakes ہیں کیا؟ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان میں بہت زبردست اور ہول ناک قسم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جیسے سیکڑوں توپیں ایک ساتھ چلادی گئی ہوں۔ بعض ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ کسی ہوائی جہاز کا صوتی دھماکا یا سونک بوم ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک غورطلب بات یہ ہے کہ skyquakes تو پوری دنیا میں اس وقت سے سنے جارہے ہیں جب نہ انٹرنیٹ کا وجود تھا اور نہ ہی ہوائی جہاز ایجاد ہوئے تھے۔ کچھ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آوازیں آسمان میں کسی meteorite یا حجر شہابی کے پھٹنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہوں گی اور بعض دوسرے ماہرین نے ان آوازوں کو بہت فاصلے پر ہونے والی گرج چمک قرار دیا ہے۔ لیکن اکثر ماہرین ان تمام تصورات کو مسترد کرتے ہیں، ان کے خیال میں یہ سب فرضی افسانے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سائنسی ماہرین کی اکثریت اس نظریے پر متفق ہے کہ skyquake کا شور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب زمین کے آتش فشانی سوراخوں سے گیس خارج ہوتی ہے۔ ویسے بھی گیس زمین کے زیرزمین پانی سے خارج ہوتی ہے، اسی لیے ایسی پراسرار آوازیں اکثر و بیشتر ساحلی مقامات کے قریب ہی سنی گئی ہیں۔ لیکن جہاں تک skyquakes کی آوازوں کی اصل وجوہ کا تعلق ہے تو 2016تک تو کوئی بھی سائنسی ماہر اس حوالے سے کوئی وجہ تلاش نہیں کرسکا ہے۔ چناں چہ skyquakes کی پراسرار آوازیں آج بھی ایک سربستہ راز ہیں۔

٭ناقابل بیان مسلسل بھن بھناہٹ کی آواز:
ہماری دنیا کے اکثر افراد نے مسلسل بھن بھناہٹ کی عجیب و غریب اور پراسرار آواز سنی ہے جو کہیں بہت دور سے آرہی تھی، اس آواز میں ایک پراسرار سا تسلسل بھی تھا۔ یہ آواز بہت تیز نہیں تھی، بلکہ دھیمی مگر مسلسل تھی۔ جن لوگوں نے یہ آواز مسلسل سنی، وہ اس کی وجہ سے عجیب الجھن میں پڑگئے، بل کہ بعض تو پاگل ہوگئے۔ ناقابل بیان بھن بھناہٹ کی یہ آواز طاؤس سے لے کر، نیو میکسیکو تک، برسٹل سے انگلستان تک لوگوں کو مسلسل پریشان کرتی رہی اور اس بھن بھناہٹ نے کئی عشروں تک لوگوں کا ذہنی سکون تباہ کیے رکھا۔

شروع میں تو بعض لوگوں نے اس دعوے ہی کو مسترد کردیا کہ چند لوگوں نے یہ بھن بھناہٹ سنی ہے، ان کا خیال تھا کہ یہ آواز سننے کا دعویٰ کرنے والے لوگ کسی ذہنی خلل کا شکار ہیں، مگر پھر آہستہ آہستہ مزید افراد نے اس آواز کے سننے کا دعویٰ کیا اور یہ شکایت کی کہ یہ بھن بھناہٹ انہیں بے چین و مضطرب کررہی ہے۔ اس موقع پر کچھ ماہرین نے یہ خیال پیش کیا کہ یہ صرف ایک ماس ہسٹیریا ہے۔ تاہم کچھ سائنس داں ایسے بھی تھے جو یہ کہہ رہے تھے کہ یہ محض خیالی باتیں نہیں ہیں بل کہ کوئی مادی معاملہ ہے۔ اس ضمن میں ماہرین کچھ عرصے سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے متفقہ طور پر کوششیں کررہے ہیں۔

حال ہی میں تحقیق کرنے والوں نے دیکھا کہ سمندر میں لمبی روؤں کی microseismic یعنی خرد زلزلیاتی لہریں جو بہت دھیمی تھیں، مسلسل ارتعاش کا سبب بن رہی ہیں۔ غالباً انہی کی وجہ سے مستقل بھن بھناہٹ کا دھیما شور گونج رہا تھا۔ تاہم اس نظریے نے بھی اس کہانی کو مکمل طور پر نہ تو بیان کیا اور نہ ہی واضح کیا۔ مثال کے طور پر اس تھیوری سے یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ مذکورہ آواز اس قدر تسلسل کے ساتھ اور سپاٹ کیوں تھی، جب کہ اصولاً اس آواز کو مستقل طور پر تبدیل ہونا چاہیے تھا، یعنی کبھی رک جاتی اور کبھی دوبارہ سنائی دینے لگتی، یہ کام مستقل وقفوں کے ساتھ ہونا چاہیے تھا، جیسا کہ سمندر کی لہروں کی نقل و حرکت سے ہوتا ہے۔ یہ نظریہ یہ بھی واضح نہیں کرتا کہ کسی مخصوص مقام پر کچھ لوگ ہی یہ آوازیں کیوں سنتے ہیں اور باقی کو یہ کیوں سنائی نہیں دیتیں؟

٭ونڈ فارم اور ان کے شور کی آلودگی
ونڈ پاور یا ہوا کی طاقت اس وقت توانائی کا ایک متنازعہ ذریعہ ہے۔ کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کررہا کہ اس کے ساتھ کیسے آگے بڑھنا ہے اور اسے کس طرح استعمال کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت مفید ہوسکتی ہے، کیوں کہ ہوا توانائی پیدا کرنے کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو قابل تجدید یا "renewable"ہے۔ اس کے باعث سنگین ماحولیاتی مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ شور کی آلودگی ہے۔

برطانوی حکومت نے اس ضمن میں ایک تحقیقی مطالعے کا اہتمام بھی کروایا تھا کہ کیا ونڈ فارم یعنی ہوا کے فارم کے شور کی وجہ سے لوگ شدید بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ انہیں پتا چلا کہ اس میں تھوڑی بہت مبالغہ آرائی ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ شور کی آلودگی واقعی بہت سے لوگوں کو بری طرح متاثر کررہی تھی جن میں یہ مسئلہ بھی تھا کہ وہ شور کی وجہ سے پوری پوری رات جاگتے رہتے تھے اور سکون سے سو نہیں پاتے تھے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یہ شور وقفوں سے سنائی دیتا تھا۔ حکومت برطانیہ نے تسلیم کرلیا تھا کہ شور کی یہ آلودگی اس کے شہریوں کے لیے نہایت مضر ثابت ہوسکتی ہے اور آگے جاکر انہیں دائمی مریض بناسکتی ہے۔

چوں کہ ہوا میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ مسلسل لچک پذیری کی طرف مائل ہوتی ہے، اس لیے یہ ہوا کے فارم (ونڈ فارم) توانائی کا پائے دار اور قابل اعتماد ذریعہ نہیں ہوسکتے اور توقع کے مطابق کبھی نتائج نہیں دے سکتے۔

ہوا کے فارموں کے قیام کے لیے جگہ کی ضرورت تو ہوگی اور اس کے لیے جنگلوں کی کٹائی کرنی پڑے گی جو ہماری زمین کے ماحول پر بہت خراب اثرات مرتب کرے گی۔ ویسے بھی یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ونڈفارم ہر سال بڑی تعداد میں پرندوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔ خاص طور سے یورپ اور امریکا کے ملکوں میں ونڈٹربائنز کی وجہ سے ہر سال بے شمار پرندے مرجاتے ہیں۔

٭انفراساؤنڈ۔۔۔ روشنی اور آواز کے کھیل:
آپ نے یہ تجربہ ضرور کیا ہوگا کہ اگر کبھی آپ دہشت ناک یا ہارر فلم دیکھ رہے ہیں اور اس سے آپ کو ذرا بھی ڈر نہیں لگ رہا تب بھی اس فلم میں استعمال کی گئی انفرا ساؤنڈ آپ کو خوف زدہ کردے گی۔ اس میں ڈالی گئی مصنوعی آوازیں اور روشنیاں ایسا تاثر پیدا کرتی ہیں کہ دیکھنے والوں پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور ان کے دل گویا ان کے سینوں سے باہر نکلنے لگتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ ہارر مووی دیکھ بھی رہے ہیں جس سے آپ کو ڈر نہیں لگ رہا، پھر بھی فلم بنانے والوں نے انفرا ساؤنڈ کے ذریعے آپ کو خوف زدہ کرنے کا پورا اہتمام کررکھا ہے۔


یہ انفرا ساؤنڈ کیا ہوتی ہے؟ یہ ایک فریکوئنسی ہے جو لگ بھگ 19 Hz کی ہوتی ہے اور یہ نارمل انسانی احساس یا ادراک سے تھوڑا سا ہی کم ہوتی ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اکثر لوگ کسی نہ کسی صورت میں انفراساؤنڈ کا پتا چلاسکتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمیں بے چینی اور بے قراری کا احساس ہوتا ہے۔ سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ انفراساؤنڈ کی وجہ سے لوگ پریشان ہوسکتے ہیں، انہیں ہلنے یا جگہ سے بے جگہ ہونے کا احساس ہوتا ہے، وہ الجھن اور یہاں تک کہ خوف میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔

اس طرح صحیح اور نارمل حالات میں بھی ہمیں ایسا سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ شاید ہم نے نہایت پراسرار اور خوف ناک چیزیں دیکھی یا ڈراؤنی آوازیں سنی ہیں۔ درحقیقت متعدد مطالعات کے نتائج اس نظریے کی توثیق کرتے ہیں، کیوں کہ اکثر فلموں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ خوف ناک اور پراسرار بلاؤں والے مکانات ایسے علاقوں میں واقع ہوتے ہیں جہاں انفراساؤنڈ کے ذریعے ان میں پراسراریت پیدا کی جاتی ہے۔ ایسے قدیم اور خستہ حال گھروں میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ عجیب و غریب تجربات ہوتے ہیں۔

تاہم سائنس داں اب بھی یہ سوچ کر حیران ہیں کہ انفراساؤنڈ ہمیں اس قدر پریشان کیوں کرتا ہے اور ہمیں اس کی وجہ سے عجیب و غریب خوف ناک احساس کیوں ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ساری دہشت اور خوف کا سبب کچھ اور نہیں بل کہ صرف انفراساؤنڈ ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ ہمارے احساس یا ادراک سے باہر کی چیز ہے جو بتاسکتی ہے کہ ہم کیوں بے چین ہیں اور ہمارا دل و دماغ ایک عجیب سی کیفیت سے کیوں دوچار ہے۔ بعض سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انفراساؤنڈ پر ہونے والا ہمارا رد عمل ایک فطری ردعمل ہوسکتا ہے۔ یہ ارتقائی بقا کا جواب ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب شیر اپنے شکار کو مارنے سے پہلے دہاڑتا ہے تو یہ آواز 19 Hz کے قریب ہوتی ہے۔

٭جب درخت جنگل میں گرتا ہے:
جب ایک درخت جنگل میں اس وقت گرتا ہو جب وہاں اس کے گرنے کی آواز سننے والا کوئی نہ ہو تو کیا اس کے گرنے سے آواز پیدا ہوتی ہے؟یہ ایک ایسا قدیم سوال ہے جو نہ جانے کب سے کیا جارہا ہے، مگر آج تک اس کا قطعی جواب نہیں مل سکا۔ بعض لوگ اس کا جواب بڑی خوشی اور اطمینان سے یہ دیں گے کہ درخت کے گرنے سے آواز تو پیدا ضرور ہوگی کیوں کہ جنگل میں اس آواز کو سننے کے لیے جنگلی جانور جو موجود ہیں۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی اصرار ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ سننے والا ''کوئی نہ ہو'' کا مطلب یہ ہے کہ نہ انسان اور نہ جانور۔ اس دلیل کے اعتبار سے اگر وہاں درخت کے گرنے کی آواز سننے والا نہ کوئی انسان ہو اور نہ کوئی جانور تو درخت گرنے کی آواز بھی پیدا نہیں ہوگی، کیوں کہ ہمارا احساس یا ادراک ہی وہ چیز ہے جو ایک آواز کو پیدا کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ آواز اسی جگہ پیدا ہوتی ہے جہاں سننے والے کان ہوتے ہیں، چاہے وہ انسانوں کے ہوں یا جان داروں کے!

٭گیت نے گلاس توڑا اور ڈھول تاشوں نے دیوار گرادی:
ہم نے ایسے کھیل تماشے دیکھے ہیں جن میں ایک گلوکار یا گلوکارہ نے شیشے کے گلاس کے سامنے اپنا غیرمعمولی گیت چھیڑا تو اس کی آواز کی پراسرار اور طلسماتی لہروں نے گلاس ہی توڑ ڈالا۔ راگ دیپک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب یہ راگ چھیڑا جاتا تھا تو سامنے رکھے چراغ خود بخود جل اٹھتے تھے، مگر گانے والے کو اس کے عوض اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑتا تھا۔ یہ کس حد تک سچ ہے، اس کے بارے میں تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن یہ بات نہایت حیران کن اور غور طلب ہے کہ کیا انسانی آواز میں اتنی طاقت ہوسکتی ہے کہ وہ گلاس توڑ دے یا کسی سُر میں اتنا سحر ہوسکتا ہے کہ وہ بجھے ہوئے دیپ روشن کردے؟ تاہم یہ سچ ہے کہ یہ محض مذاق نہیں ہے، اس میں کچھ نہ کچھ سچائی تو ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ آواز کی لہروں کا سحر ہو جو ایسے ایسے کارنامے انجام دلوارہا ہو۔

دنیا کی بہت سی حکومتیں sonic weaponry پر کام کررہی ہیں۔ انہیں ہم صوتی ہتھیار بھی کہہ سکتے ہیں، یعنی ایسے ہتھیار جو آوازوں کے ذریعے کام کرسکیں۔ ویسے بھی آج کے دور میں سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ sonic weaponry یا صوتی ہتھیاروں سے جنگیں لڑی جاسکتی ہیں۔ اگر کہیں لوگوں کا بہت بڑا ہجوم بے قابو ہوگیا ہو اور اسے کنٹرول کرنا ہو تو ایسے میں فسادات پر قابو پانے کے لیے مذکورہ ہتھیار بہت عمدگی سے کام کرسکتے ہیں۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ آواز ایک مفید ہتھیار کے طور پر کام یابی سے استعمال کی جاسکتی ہے، لیکن ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ اس کی حدود کیا ہیں۔ اس حوالے سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ماہرین کے ذہنوں میں بھی بعض خاص قسم کے سوال موجود ہیں جن کے جواب تلاش کرنے ہیں۔

بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت یوشع بن نونؑ اور ان کی فوج نے صرف موسیقی کی طاقت سے Jericho نامی شہر فتح کیا تھا جسے عربی میں اریحا کہتے ہیں اور یہ قدیم ترین شہر مغربی کنارے میں دریائے اردن کے ساتھ واقع ہے۔

انہوں نے سات روز تک ڈھول تاشے بجاتے ہوئے پورے شہر میں مارچ کیا تھا۔ ان کے ڈھول تاشوں کی طاقت وار آوازوں کے نتیجے میں شہر کی فصیل منہدم ہوگئی تھی۔ بعض لوگ اس حوالے کو تسلیم نہیں کرتے۔ بعض اسکالرز تو اس پر یقین ہی نہیں کرتے کہ ماضی قدیم میں اس طرح کی کوئی جنگ بھی ہوئی تھی اور اگر ہوئی تھی تو وہ ڈھول تاشوں کی اس طاقت کو نہیں مانتے جو شہر کی فصیل گرادے۔ سائنسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس موقع پر ضرور کوئی زلزلہ آیا ہوگا جس نے جیریکو (اریحا) نامی شہر کی فصیل تباہ کردی ہوگی۔ بعض تاریخی حوالوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس موقع پر قریبی دریا خشک ہوگیا تھا جس کے بارے میں سائنسی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا زلزلہ آنے کی وجہ سے ہی ہوا ہوگا۔

٭نہایت تیز آواز جس کا کوئی واضح ذریعہ بھی دکھائی نہیں دیتا:
اوریگان ایک امریکی ریاست ہے جس کے علاقے فاریسٹ گروو کے مکینوں کو اس سال کے شروع میں ایک عجیب و غریب مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔
اس علاقے کے متعدد لوگوں کو رات کے وقت ایک پراسرار آواز سنائی دیتی تھی جسے سن کر مکینوں کی نیندیں اڑگئیں اور وہ بے چارے پوری رات جاگتے رہے۔ علاقے کی ایک عورت نے آدھی رات کے بعد یہ آواز بار بار سنی تو وہ بری طرح خوف زدہ ہوگئی۔ وہ عورت یہ نہیں مان رہی تھی کہ یہ آواز اس کے لیے یا اس علاقے کے لیے کسی تباہی کا پیش خیمہ ہوگی یا یہ کوئی منحوس آواز ہے، اس کے باوجود وہ چاہتی تھی کہ یہ آواز ختم ہونی چاہیے، کیوں کہ اس سے اس کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ چناں چہ اس نے مدد کے لیے فاریسٹ گروو کی پولیس اور فائر ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کیا اور یہ مسئلہ بیان کیا۔

دونوں محکموں نے اس عورت کی بات تو تسلی سے سن لی، مگر نہ تو وہ اس کا کوئی سبب تلاش کرسکے اور نہ ہی انہیں اس کا ذریعہ معلوم ہوسکا۔ شہر کے مکینوں کا کہنا تھا کہ یہ آواز گیس کا اخراج ہونے سے بھی پیدا ہوسکتی ہے، پانی کی سپلائی کا والو کھلنے سے بھی یا پھر جانوروں کی آوازیں بھی ہوسکتی ہیں۔ جب مسئلے کا کوئی حل نہ نکل سکا تو اس عورت نے، جسے اس پراسرار آواز نے بے خوابی میں مبتلا کردیا تھا، اس آواز کو ایک وڈیو پر ریکارڈ کرلیا اور اخبارات کو بھیج دیا۔

عورت کے شوہر کا خیال تھا کہ یہ آواز کسی کے بریک پیڈ خراب ہونے کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے۔ یہ آواز کافی لمبی اور بہت تیز تھی، بل کہ کسی حد تک چنگھاڑ نما تھی، یہ ٹرین کی اس آواز سے ملتی جلتی تھی جو ایک خاص رفتار سے ریل کی پٹریوں پر دوڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس علاقے میں تو ٹرین چلتی ہی نہیں تھی اور نہ وہاں ریل کی پٹریاں تھیں۔
بریک پیڈ کی آواز سمجھ میں آتی تھی، مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ عورت رات کے خاص اوقات میں یہ آواز کیوں سن رہی تھی، وہ بھی مسلسل۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آواز ایسی نہیں تھی کہ جس سے کسی کو پریشانی ہو اور نہ ہی اس کی وجہ سے کوئی مسئلہ پیدا ہورہا تھا، مگر سچ تو یہ ہے کہ چند لوگ اس کی وجہ سے پریشان تھے، مگر اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ نہ اس آواز کی وجہ معلوم ہوسکی اور نہ ذریعہ !

٭ریڈیو مواصلات کا اصل موجد
جب ہم ریڈیو کے موجد کے بارے میں کسی سے پوچھتے ہیں تو مختلف جواب ملتے ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ریڈیو کا اصل موجد Nikola Tesla تھا جو ایک سربیائی امریکی موجد تھا۔ کچھ دوسرے لوگ اس حوالے سے Guglielmo Marconi کا نام لیتے ہیں، کیوں کہ مارکونی ہی نے ریڈیو کی ایجاد کا زیادہ تر کام کیا اور دنیا کو اس سے متعارف کرایا۔ مگر یہ بھی پورا سچ نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ نکولا ٹیسلا نے ریڈیو رابطے کا زیادہ تر ابتدائی کام کیا تھا، مگر اس نے ویسا ریڈیو تیار نہیں کیا تھا جیسا مارکونی نے کیا تھا۔ نکولا ٹیسلا کا کہنا تھا:''مارکونی نے میرے متعدد نمونے اور ابتدائی چیزیں استعمال کرتے ہوئے ریڈیو ڈیزائن کیا تھا۔''



بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیسلا نے بنیاد رکھی تھی جس پر عمارت مارکونی نے تعمیر کرکے یہ کام مکمل کردیا۔ لیکن ریڈیو کی ایجاد میں بعض دوسرے افراد کا بھی ہاتھ تھا جن میں خاص طور سے ڈیوڈ ایڈورڈ ہیوز، تھامس ایڈیسن اور دیگر شامل تھے۔ ان سب کے شروع کیے گئے کام کو پہلے ٹیسلا نے اور پھر مارکونی نے مکمل کیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہنرچ ہرٹز کو اس اہم ایجاد کا سارا کریڈٹ جاتا ہے۔ ہم یہاں یہ کہہ کر اس ساری بحث کو سمیٹ سکتے ہیں کہ ریڈیو کی ایجاد کسی ایک فرد یا شخصیت کا کارنامہ نہیں ہے، بلکہ اس کی تیاری میں بہت سے لوگوں کی کوششیں شامل ہیں اور اس کام کی تکمیل میں کئی عشرے لگ گئے تھے۔
آج کا ریڈیو بہت سے لوگوں کی اجتماعی کوششوں کا ثمر ہے۔

٭شور کی آلودگی سے پاک دنیا
آج کی جدید دنیا مستقل طور پر نہایت خطرناک اور تیز آوازوں کے شور میں گھری ہوئی ہے۔ چاہے آپ کسی دور دراز اور ویران مقام پر ہی کیوں نہ رہتے ہوں، آپ یقینی طور پر اپنے سروں کے اوپر آسمانوں میں پرواز کرنے والے ہوائی جہازوں کا شور اور گڑگڑاہٹ ضرور سنیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے لیے مصنوعی شور کی بڑھتی ہوئی آلودگی سے بچنا ممکن نہیں ہے۔

شور کی آلودگی وہ خطرناک عنصر ہے جو لوگوں کے روزمرہ کے کاموں میں مسلسل مداخلت کرکے انہیں بری طرح متاثر کرتی ہے۔ خاص طور سے اس آلودگی کی وجہ سے ان کی صحت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ حالاں کہ دنیا کی مختلف قوموں اور ملکوں نے اس ضمن میں ہنگامی اقدامات کیے ہیں، اس کے باوجود اب صورت حال یہ آن پہنچی ہے کہ یہ مسئلہ بہت حد تک سنگین ہوکر قابو سے باہر ہوچکا ہے۔ شب و روز نہایت تیز غیرفطری شور کرۂ ارض پر انسانی زندگی کی ایک ناقابل فراموش حقیقت بن چکا ہے، جب کہ ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔

مستقل شور کی آلودگی ایک حالیہ بیماری ہے۔ اگر ہم ایک صدی پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مصنوعی شور اس سطح کا نہیں تھا جو آج کے شب و روز سنائی دے رہا ہے۔ لگ بھگ دو سو سال پہلے شور کی آلودگی خاص طور سے رات کے اس وقت میں نہیں ہوتی تھی جب لوگ سونے کی کوشش کررہے ہوتے تھے۔

ہم یہ دیکھ اور سوچ کر حیران بھی ہوتے ہیں اور پریشان بھی کہ ایسی دنیا میں ہم کس طرح رہ رہے ہیں جہاں شور مسلسل ہماری سماعتوں پر شدید قسم کی بم باری کررہا ہے۔ ایسے میں نہ ہم صحت مند رہ سکتے ہیں اور نہ ہی پُرسکون! ہماری جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ہماری ذہنی صحت بھی شدید طور سے متاثر ہورہی ہے جس سے بے شمار دماغی امراض پیدا ہورہے ہیں جو قطعی طور پر لاعلاج ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے پاس شور کی آلودگی سے بچنے کا کوئی واضح اور صحیح راستہ نہیں ہے۔ ایسے میں ہم صرف خدا سے دعا ہی کرسکتے ہیں۔
Load Next Story