ایمرجنسی کے سائے چَھٹ رہے ہیں

بعض بہت فاش غلطیوں کے اثرات کی شدت غلط کاروں کی طرف سے براہ راست معافی مانگنے پر قدرے کم ہو گئی ہے۔


کلدیپ نئیر June 17, 2016

KARACHI: بعض بہت فاش غلطیوں کے اثرات کی شدت غلط کاروں کی طرف سے براہ راست معافی مانگنے پر قدرے کم ہو گئی ہے۔ جرمنی نے جنگ عظیم کے بعد ہٹلر کی طرف سے کی جانیوالی ظالمانہ کارروائیوں پر معافی مانگ لی ہے بلکہ اس کا تاوان بھی ادا کر دیا ہے اس سے یہ تو نہیں ہوا کہ وہ گناہ بھلا دیے جائیں البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ اس ظلم کا شکار ہونے والوں کے بچے یا بچوں کے بچے یہ محسوس کریں گے کہ ظلم کے مداوے کی کچھ کوشش کی گئی ہے۔

سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے امرتسر کے دربار صاحب (گولڈن ٹیمپل) میں جا کر آپریشن بلیو اسٹار کی معافی مانگی تھی جس میں بھارتی فوج نے سکھوں کے اس مقدس ترین معبد پر چڑھائی کر کے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سمیت لاتعداد عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ریاست کے اندر ریاست کیونکر برداشت کی جا سکتی تھی۔ لیکن ایمرجنسی جو کہ خود بھی کسی جرم سے کم نہیں تھی آج تک اس کے بارے میں معذرت کا ایک لفظ بھی کانگریس کی طرف سے نہیں بولا گیا۔ غیرکانگریسی پارٹیاں گاہے بگاہے بیانات جاری کرتی ہیں یا احتجاجی مظاہرے کرتی ہیں لیکن کانگریس پارٹی جس کی اس وقت حکومت تھی افسوسناک طور پر خاموش ہے۔

آخر ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ کیا تھی؟ یہ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا جس نے وزیراعظم اندرا گاندھی کو انتخابی دھاندلی کے الزام میں منصب سے برطرف کر دیا تھا۔ بجائے اس کے کہ اندرا عدالت عالیہ کا یہ حکم تسلیم کرتیں، انھوں نے آئین کو ہی منسوخ کر دیا جو کہ عدالتوں کو حق و باطل میں امتیاز کا اختیار دیتا ہے۔اگر اندرا گاندھی استعفیٰ دے دیتیں جسکا کہ انھوں نے شروع میں ارادہ بھی کیا تھا مگر جگ جیون رام نے بڑی سختی سے مخالفت کی تھی۔ اندرا اگر معافی مانگنے کے لیے عوام کے پاس چلی جاتیں تو پہلے سے بھی کہیں زیادہ بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آ سکتی تھیں۔ لوگوں کو اندرا پر ان زیادتیوں کا غصہ تھا جو انھوں نے ایمرجنسی میں کیں۔ اس دوران ان کا انداز مکمل طور پر آمرانہ ہو گیا تھا۔

اگرچہ ان کے بیٹے سنجے گاندھی اور اس کے معتمد خاص بنسی لال نے ریاست کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے جس پر انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن اندرا گاندھی کو معصوم خیال کرتے ہوئے ان پر تنقید نہیں کی گئی۔ ملک کی صورت حال اس نہج پر پہنچ گئی کہ پولیس کو بغیر نام لکھے لاتعداد وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے جن کو پولیس نے اپنے ذاتی جھگڑے نمٹانے کے لیے بھی بے دریغ انداز میں استعمال کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے حراست میں لے لیا گیا۔ اس ضمن میں مخالفین کے کاروبار اور ان کے گھروں تک پر قبضے ہو گئے۔

اس صورت حال کی عکاسی کے لیے ''آندھی'' نام کی ایک فلم بنائی گئی جس میں آمرانہ طرز حکومت پر کھلی تنقید کی گئی تھی تاہم اس فلم پر پابندی عائد کر دی گئی کیونکہ اس میں جو واقعات پیش کیے گئے تھے وہ اندرا گاندھی کی حکومت کے ساتھ واضح مماثلت رکھتے تھے۔ اگر مجھے آج کی نئی نسل کو ایمرجنسی کی وضاحت کرنے کے لیے کہا جائے تو میں پریس کی آزادی پر زور دوں گا جو کہ آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ 69 سال قبل تھی جب ہمیں آزادی حاصل ہوئی تھی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کوئی بھی یہ توقع نہیں کر سکتا تھا کہ اندرا گاندھی اقتدار چھوڑنے کے بجائے الٹا آئین کو ہی معطل کر دیں گی۔

وزیراعظم لال بہادر شاستری اکثر اپنے رفقائے کار کو نصیحت کرتے تھے کہ اپنی کرسیوں سے چمٹ کر ہرگز نہ بیٹھو۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ریلوے کے وزیر تھے تو انھوں نے تامل ناڈو میں ہونے والے ریل گاڑی کے ایک بڑے حادثے کے بعد اپنی اخلاقی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دے دیا لیکن آج کے دور میں اس مثال پر عمل کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا، اس کے باوجود بھارت کو دنیا ایسی نظروں سے دیکھتی ہے جیسے اس ملک میں اب بھی اخلاقیات کو اہمیت حاصل ہے۔ میرے خیال میں ملک کو مہاتما گاندھی کی اس نصیحت پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔

''تفرقات سے لوگوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے''۔ ہمیں آزادی کی جدوجہد کے دنوں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جب سب لوگوں نے ایک مقصدکے لیے اتحاد کر لیا تو برطانوی حکمرانوں کو دیس نکالا دینا مشکل نہ رہا۔ کاش کہ ویسا ہی جذبہ آج غریبی کو دور کرنے کی خاطر بیدار ہو جائے بصورت دیگر آزادی کی نعمتیں صرف مالدار لوگوں کو ہی حاصل رہیں گی۔چند عشرے قبل اندرا گاندھی نے شخصی حاکمیت قائم کر لی تھی اور آج نریندر مودی کی شخصی حاکمیت ہے۔ چنانچہ آج بھی زیادہ تر اخبارات اور ٹی وی چینلز مودی ہی کی تعریفیں کر رہے ہیں جس طرح کہ اندرا گاندھی کے دور میں ان کی ہوتی تھیں۔ مودی کی شخصی حکمرانی اس حوالے سے بدشگونی کی علامت ہے کہ ان کی کابینہ کے کسی بھی وزیر کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور کابینہ کی اجتماعی مشاورت محض کاغذی کارروائی ہے۔

قبل اس کے کہ مودی بھی ایمرجنسی نافذ کرنے کی سوچ اپنا لیں، تمام سیاسی پارٹیوں کو ان کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے۔ حتیٰ کہ ارون جیٹلے جیسے شخص بھی جس نے ایمرجنسی کی سختیاں جھیلی ہوئی ہیں، کیونکہ انھیں بھی جیل بھیج دیا گیا تھا، وہ دوسرے وزراء سے اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ وہ آر ایس ایس سے احکامات نہیں لیتے۔میں نہیں سمجھتا کہ اب دوبارہ ملک پر ایمرجنسی نافذ کی جا سکتی ہے کیونکہ جنتا پارٹی کی حکومت نے آئین میں ایسی ترامیم شامل کر دی تھیں کہ ایمرجنسی کا نفاذ نا ممکن ہو چکا ہے۔ لیکن پھر بھی ایسے حالات پیدا کیے جا سکتے ہیں جو ایمرجنسی کے مماثل ہو سکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ رائے عامہ اسقدر مضبوط ہو چکی ہے کہ ہنگامی حالات کا نفاذ ممکن نہیں رہا بلکہ اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو کوئی بعید نہیں کہ لوگ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں۔

بنیادی اہمیت اداروں کی مضبوطی کی ہے جو کہ ایمرجنسی کے بعد سے ابھی تک اپنی اصل قوت حاصل نہیں کر پائے۔ البتہ وہ اتنے مضبوط ضرور ہو گئے ہیں کہ ایمرجنسی کے نفاذ کی کوشش کی سختی سے مزاحمت کر سکیں۔ مثال کے طور پر آپ اتراکھنڈ کے مسئلے کو لیجیے۔ ایوان کو اراکین کی رائے کا جائزہ لینے سے ایک روز قبل ہی تحلیل کر دیا گیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے گورنر کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسمبلی کو بحال کر دیا۔ ریاستی ہائی کورٹ نے سنسر بورڈ کو حکم دیا کہ وہ ''دادی اماں'' کا کردار ادا کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ وہ مذکورہ فلم کی 90 مقامات پر سنسر کرنے کے بجائے صرف اپنے مقصد کی وضاحت کرے چنانچہ سنسر بورڈ کو فلم میں صرف ایک منظر کو سنسر کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں اور اداروں میں وہ طاقت واپس آ رہی ہے جو ایمرجنسی سے قبل انھیں حاصل تھی۔ اب کوئی حکمران اندرا گاندھی کی غلطی کو دہرانے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ آئین کی بالادستی مقدم رکھی جائے گی۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |